تحریر: (مفتی) محمد سلمان قاسمی، محبوب نگر
خادم تدریس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد
+919052157421
اللہ نے حضرت انسان کو دنیا میں اس لیے بھیجا تاکہ وہ خدا کے دین و شریعت پر عمل پیرا ہو اور اللہ نے آخرت میں جو ابدی کامیابی اس کے لیے مقدر فرمائی ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، لیکن ہر کامیابی کے حصول کا ایک معیار ہوتا ہے جب انسان اپنے کسب و کمال سے اس معیار کو پالیتا ہے تو اس کو وہ کامیابی مل جاتی ہے،اخروی کامیابی کے حصول کے لیے ایمان کا ہونا لازم اور ضروری ہے لیکن ایمانی کیفیت انسان کے احوال اور اذعان کے مطابق متفاوت ہوتی ہے، گویا ایمان لوگوں کے یقین کے تناسب سے مختلف درجات میں ہوتا ہے تو پھر اللہ کو کس درجے کا ایمان مطلوب ہے اور اللہ کے نزدیک ایمان کی تکمیل کا معیار کیا ہے؟ اس بابت قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا” فان آمنوا کما آمن الناس” یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کی ایمانی کیفیت اللہ کے یہاں ہدایت کا معیار ہے اب غور کرنا چاہیے کہ وہ کون سا وصف خاص تھا جس کے سبب حضرات صحابہ کو یہ فضیلت و مقام حاصل ہوا، حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ ہر عمل میں منتہاء کمال اور لائق اقتدا ہیں لیکن باعتراف جمیع کمالات صحابہ کی ایک مابہ الامتیاز صفت جس کی نظیر نہ سابقہ انبیاء کے اتباع و حواریین میں ملتی ہے اور نہ بعد کے کسی قلندر و شاہ کے محبین متبعین میں اس کا نمونہ ہے وہ صحابہ کا جذبہ اطاعت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں کا اتباع کامل ہے،آپ علیہ السلام کی حد درجے محبت، آپ سے والہانہ تعلق اور آپ کے احکام پر عمل آوری، آپ کے اشاروں پر جانثاری میں صحابہ بالکل طاق اور منفرد ہیں، کوئی حکم زبان رسالت سے صادر ہو جائے یا بدون کہے محض منشا رسول کی ان کو بھنک لگ جائے تو اس پر عمل کرنے کے لیے صحابہ جان نچھاور کرتے تھے گویا سمع و طاعت صحابہ کی خمیر کا حصہ تھا، اپنی خواہشات و مرضیات پر نبی کی رضا کو ترجیح دینا اور اپنے جذبات پر نبی کی منشا کو مقدم رکھنا صحابہ کا امتیازی وصف تھا، یہی جذبہ اطاعت اور شوق اتباع کے سبب اللہ پاک نے ان کو دنیا ہی میں رضی اللہ عنہم کا مژدہ سنا دیا، نہ صرف ان کو بلکہ جو کوئی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی سی اطاعت کا نمونہ پیش کرے اس کے لیے بھی رضوان خداوندی کی بشارت دی گئی، چنانچہ اللہ پاک فرماتے ہیں”وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسانٍۢ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ(التوبة: ١٠٠) ترجمہ: اور بیشک مہاجرین اور انصار میں سے سابقینِ اولین اوردوسرے وہ جو بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے ہیں ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں۔
ان کے دلوں میں نبی کی عظمت اور اطاعت رسول کے باب میں ان کے وفور شوق کا اندازہ کرنے کے لیے یہ واقعہ بہت کافی ہے کہ ایک ایسا شخص جو آپ کے مقابل محاذ آرا تھا اور آپ کے دشمنوں کا ایلچی بن کر آپ کے پاس آیا تھا، اصحاب محمد کو دیکھا تو اپنے رفقاء کے پاس جا کر ایک انوکھا تصور پیش کیا؛ چنانچہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے حدیبیہ کے موقع پر کفار کی جانب سے بطور سفیر آئے تھے تو انہوں نے آپﷺ سے گفتگو کے دوران جن حالات کا مشاہدہ کیا اس کا کچھ اس طرح منظر نامہ پیش کیا: "اے ابناء قریش! میں نے نجاشی کا دربار بھی دیکھا، قیصر و کسری کے دربار بھی دیکھے ہیں لیکن عقیدت و احترام اور پروانگئ عشق و ادب کا جو منظر اب دیکھ کر آیا ہوں وہ مجھے کہیں دیکھنے کو نہیں ملا محمد جب گفتگو کرتے ہیں تو سارے مجمع پر سکوت طاری ہو جاتا ہے اور سب ہماتن گوش ہو جاتے ہیں، کوئی شخص محمد کے چہرے کو نظر بھر کر دیکھنے کی جرأت نہیں کرتا، وہ وضو کرتے ہیں تو ایک قطرہ بھی زمین پر گرنے نہیں دیا جاتا، سارا مجمع اس کو اپنے چہرے اور بدن پر ملنے کے لیے ٹوٹ پڑتا ہے، محمد کا لعاب دہن بھی زمین پر گرنے سے پہلے عقیدت مند اپنے چہروں پر مل لیتے ہیں”(بخاری و احمد)
اس ایک واقعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کس درجے عشق تھا؛ کسی کی اطاعت و پیروی کے لیے عشق ہی اصل محرک ہوتا ہے، چنانچہ ذیل کے سطور میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے کچھ ایسے واقعات ذکر کیے جاتے ہیں جو ان کے عشق رسول کا مظہر اور اطاعت نبوی کے باب میں امت کے لیے باعث عبرت ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : میں نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی پھر آپ ﷺ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا : اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا؛ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔‘‘ (متفق علیہ)
نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ ﷺ نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا : تم میں سے کوئی شخص آگ کے انگارے کو اپنے ہاتھ میں لینے کا قصد کرتا ہے! رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا : جاؤ اپنی انگوٹھی اٹھا لو اور (اسے فروخت کر کے ہی) نفع حاصل کر لو، اس نے کہا : خدا کی قسم! جس چیز کو رسول اللہ ﷺ نے پھینک دیا ہو اس کو میں کبھی نہیں اٹھاؤں گا۔‘‘ (امام مسلم)
جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ میں شُرَحْبِیل بن سِمط کے ساتھ سترہ یا اٹھارہ میل کی مسافت پر ایک بستی میں گیا تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز پڑھی، میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا میں وہی کرتا ہوں جو میں نے نبی اکرم ﷺ کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (مسلم و نسائی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو ایک مقام پر اپنی اونٹنی کو گھماتے ہوئے دیکھا گیا تو آپ سے اس بابت پوچھا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو (اس مقام پر) ایسا کرتے دیکھا لهٰذا میں نے بھی ایسا کیا۔
عابس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر کہا : میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع، اگر میں نے نبی اکرم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ وہ کام ہے جسے نبی اکرم ﷺ نے ادا فرمایا ہے پس ہم نہیں چاہتے کہ اسے ترک کر دیں۔” (متفق علیہ)
حدیبیہ میں صلح نامہ مکمل ہونے کے بعد نبی کریمﷺ نے مکہ واپسی کے لیے صحابہ کرامؓ کو جانور ذبح کرنے ،حلق کروانے اور احرام اتارنے کا حکم دیا تو ان کے لیے یہ کام کسی سنگ گراں کو ہٹانے کے مترادف تھا۔ بیت اللہ دیکھنے کی جستجو لے کرآنے والے ان عشاقان الٰہی پر بغیر عمرہ کے جانا اس قدر دشوار گذار مرحلہ تھا کہ نبی کریمﷺ نے تین بار جانوروں کو ذبح کرنے کا حکم دیا؛ لیکن ایک شخص بھی نہ اٹھا۔نبی کریمﷺ نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہؓ سے بطور شکایت اس کا ذکر کیا تو انھوں نے صحابہ کرامؓ کی طرف سے صفائی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت سخت صدمے سے نڈھال ہیں،ان کی جانب سے یہ معاملہ طبعی اور فطری ہے ،اس کی وجہ سے آپ ان پر ناراض نہ ہوں۔پھر آپﷺ کو اس قضیے کے حل کے لیے ایک تجویز پیش کی کہ آپ خود ان کے سامنے جانور ذبح کر کے سر منڈوائیں تو وہ بھی تعمیل حکم کے لیے تیار ہو جائیں گے؛چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا تو سب صحابہ کرامؓ نے آپ کو دیکھ کر یکلخت قربانی شروع کر دی،چاہے جذبات کس قدر گھایل ہوں جب نبیؐ کو قربانی کرتے دیکھا تو کسی نے قربانی میں ذرا دریغ نہ کی،اور فوراً آپ کے منشأ کی تعمیل کی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سفر میں ہم لوگ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے اوپر ایک چادر تھی، جو کسم کے رنگ میں ہلکی سی رنگی ہوئی، تھی حضور ﷺ نے دیکھ کر فرمایا: یہ کیا اوڑھ رکھا ہے؟ مجھے اس سوال سے حضور ﷺ کی ناگواری کے آثار معلوم ہوئے ، گھر والوں کے پاس واپس ہوا، تو انھوں نے چولھا جلا رکھا تھا، میں نے وہ چادر اس میں ڈال دی، دوسرے روز جب حاضری ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا: وہ چادر کیا ہوئی ؟ میں نے قصہ سنا دیا، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں میں سے کسی کو کیوں نہ پہنادی ؟ عورتوں کے پہننے میں تو مضائقہ نہ تھا۔ (ابوداؤد)
فائدہ: اگر چہ چادر کے جلا دینے کی ضرورت نہ تھی، مگر جس کے دل میں کسی کی ناگواری اور ناراضی کی چوٹ لگی ہوئی ہو، وہ اتنی سوچ کا متحمل ہی نہیں ہوتا کہ اس کی کوئی اور صورت بھی ہو سکتی ہے۔
حضور اقدس ﷺ ایک مرتبہ دولت کدہ سے باہر تشریف لے جارہے تھے، راستے میں ایک قبہ ( گنبد دار حجرہ) دیکھا، جو اونچا بنا ہوا تھا،ساتھیوں سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا کہ فلاں انصاری نے قبہ بنایا ہے۔ حضور ﷺ سن کر خاموش ہوگئے، کسی دوسرے وقت وہ انصاری حاضر خدمت ہوئے اور سلام کیا، حضور ﷺ نے جواب نہ دیا۔ انھوں نے اس خیال سے کہ شاید خیال نہ ہوا ہو، دوبارہ سلام کیا، اعراض فرمایا، وہ اس کے کیسے متحمل ہو سکتے تھے؟ وہاں موجود صحابہ سے تحقیق کیا کہ میں آج حضور ﷺ کی نظروں کو پھرا ہوا پاتا ہوں، خیر تو ہے؟ انھوں نے کہا کہ حضور ﷺ باہر تشریف لے گئے تھے، راستے میں تمہارا قبہ دیکھا تھا اور دریافت فرمایا تھا کہ یہ کس کا ہے؟ یہ سن کر وہ انصاری فوراً گئے اور اس کو توڑ کر ایسا زمین کی برابر کر دیا کہ نام و نشان بھی نہ رہا اور پھر آکر عرض بھی نہیں کیا۔ اتفاقاً حضور ﷺ ہی کا اس جگہ کسی دوسرے موقع پر گزر ہوا، تو دیکھا کہ وہ
قبہ وہاں نہیں ہے۔ دریافت فرمایا ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ انصاری نے آنحضرت ﷺ کے اغراض کا کئی روز ہوئے ذکر کیا تھا ، ہم نے کہہ دیا تھا کہ تمہارا قبہ دیکھا ہے، انھوں نے آکر اس کو بالکل توڑ دیا۔(ابوداؤد)
ان واقعات کے تناظر میں ہم اپنے نفس کا محاسبہ کریں، ہمارے مسلم سماج کا جائزہ لیں تو صحابہ اور ہمارے شوق اتباع کے درمیان زمین و آسمان کا خلا اور مشرق و مغرب کا بعد نظر آئے گا، وہ سنتوں پر محض اس لیے عمل کرتے تھے کہ یہ سنت رسول ہے، اس کے برعکس ہم سنتوں کو اسی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں کہ سنت ہی تو ہے، کس قدر ہمارے زاویہ خیال میں تغیر واقعہ ہوا ہے، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ زندگی کا حقیقی چین اور روحانی سکون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی ہی میں منحصر ہے، باایں وصف مسلم معاشرہ خواہ جوان ہوں یا بوڑھے اور بچے سبھی سنتوں پر عمل کرنے اور مسنون زندگی گزارنے کو رجعت پسندی اور قدامت پرستی خیال کرنے لگے ہیں،اولاً فرائض ہی کی توفیق نہیں ملتی اگر کوئی فرض نمازوں کو ادا کر بھی لیتا ہے تو سنتوں کو بالکل غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے،اس پر مستزاد ہماری وضع و ہیئت، ہمارا رہن سہن، لباس و پوشاک، کھانے پینے کا طور و طریق، نظام تعلیم و تعلم بلکہ زندگی کے تمام گوشوں سے سنت رخصت ہو چکی ہے اور زندگی کے ہر مرحلے میں ہم نہ صرف اغیار کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں بلکہ ان سے بھی آگے بڑھنے کی سعی کر رہے ہیں، گویا آپ علیہ السلام کے فرمان "تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگ(یہود و نصارٰی) کی بالشت در بالشت گز در گز پیروی کرو گے” کے مکمل مصداق بنے ہوئے ہیں، نبی علیہ السلام کی ناراضگی اور غیرت کا بالکل پاس و لحاظ نہیں ہے،حضرت حذیفہ بن یمان کا انتہائی جذبات میں ڈوب کر کہا گیا وہ تاریخ ساز جملہ "اترك سنة حبيبي لهؤلاء الحمقاء”(میں ان بے وقوفوں کی خاطر میرے محبوب کی سنت کو چھوڑ دوں) کہاں اور ہم کہاں،تھوڑا اس وقت کو بھی یاد کریں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کے سامنے تورات کی کچھ باتیں پڑھ کر سنا رہے تھے تو غیرت اور غصہ سے نبی کا چہرہ انور سرخ ہو چکا تھا اور آپ نے نہایت شدید انداز میں حضرت عمر کو تنبیہ فرمائی تھی کہ اگر موسی بن عمران بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری ہی پیروی کرنا پڑتا اور ایک ہم ہیں کہ موسی اور عیسی علیہما السلام کی شریعتوں کو مسخ کر کے ان کی تعلیمات کو پامال کرنے والی قوم کی پیروی کرنے کو زمانہ کے ساتھ ہمآہنگی اور ترقی خیال کررہے ہیں، وہ لوگ کس قدر کامیاب ہیں کہ انہوں نے اپنے آوارہ کلچر کو ہمارے سماج پر کلی طور پر مسلط کر دیا اور ہم کس قدر بے توفیق ہیں کہ صحابہ کے ان بے مثال واقعات سے ذرا برابر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے، گویا ہم ہی نے ان کے طور و طریقہ کو باعث عز و افتخار اور نبی کی سنتوں کی پیروی کو باعث عار سمجھ لیا ہے، ہم ہی صحابہ کرام اور رسول اللہ کے بہترین اسوہ کو چھوڑ کر یورپ و امریکہ کی گندی تہذیب کے غلام بن گئے ہیں، بقول شاعر:
غیروں کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
حضرات قارئین! یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہمارا معاشرہ نہ صرف سنتوں کا تارک بلکہ ان کے استخفاف کا مجرم ہے جس کا وبال ترک سنت سے بھی کئی گنہ زیادہ ہے بلکہ سنتوں کو عار سمجھنا اور ان کو ہلکا شمار کرنا انسان کو ایمان سے بھی خارج کر سکتا ہے، لہذا ہم کو اس معاملے میں بہت سنجیدہ ہونا چاہیے،اپنے اندر نبی علیہ السلام کی کامل عظمت کو پیدا کرنا چاہیے نیز اپنی اولاد اور ارباب خاندان کی بھی دینی ذہن سازی کرنے کے ساتھ ان کے قلوب میں اللہ اور اس کے رسول کی عظمت و احترام کو بٹھانا کی فکر کرنا چاہیے، آج عالمی سطح پر مسلمانوں کے زوال اور ان کے مظلوم و محکوم ہونے کا ایک بنیادی سبب نبی سے ہماری بے وفائی اور سنتوں کے تئیں ہمارا تغافل ہے، اگر ہم مسلمان آج بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے چمٹ جائیں اور سنتوں کو اپنا شعار بنا لیں تو یقیناً اللہ تعالی نے جس طرح صحابہ کی کمزور جماعت کو عالمی شان و شوکت اور دنیا پر حکمرانی عطا فرمائی تھی ہمیں بھی ضرور عطا فرمائیں گے جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں