عصمت دری کے بڑھتے واقعات

تحریر: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

کولکاتہ میں 31 سالہ جونیئر ڈاکٹر کا عصمت دری کے بعد سنجے رائے نامی پولیس کے ایک رضاکار نے قتل کر دیا، سی سی کیمرے کی مدد سے اسے گرفتار کر لیا گیا ,مودی جی کی زبان میں کہیں تو لباس اور چہرے سے پہچانا جا سکتا ہے کہ کون ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ واردات کے انجام دینے کے بعد وہ آرجی کر میڈیکل کالج کے قریب ہی ایک پولیس بیرک میں سو گیا، اس دردناک واقعہ پر ملک میں ڈاکٹروں نے ہڑتال کر دی، کولکاتہ میں خاص کر احتجاج اور مظاہرے کا سلسلہ جاری ہے، بعض احتجاج میں مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی بھی شریک ہوئیں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا، اس معاملے کو جانچ کے لیے کلکتہ ہائی کورٹ کے حکم پر سی بی آئی کے سپرد کر دیا گیا ہے اور عدالت عظمی (سپریم کورٹ) نے اس کا از خود نوٹس لے کر سہ رکنی ایک بینچ ترتیب دیا ہے، جو اس واقعہ سے متعلق امور کی سماعت اور تحقیقی کام کررہی ہے۔سپریم کورٹ نے مغربی بنگال کو ڈانٹ پلائی اور ایک ٹاسک فورس کی بھی تشکیل کر دیا ہے۔
واقعہ 9 اگست 2024 کا ہے، جونیر ڈاکٹر ابھی تربیت کے مرحلہ میں تھی، اسی لیے اس کی شناخت چھپانے کے لیے میڈیا والے اسے ٹرینی ڈاکٹر کے نام سے یاد کرتے ہیں، وہ رات کا کھانا کھا کر ہسپتال کی تیسری منزل پر واقع سیمینارہال کی ایک کرسی پر سو گئی تھی، صبح اس کے لاش ملی تو حادثہ کا علم ہوا، ابتدا میں یہ معاملہ قتل کا قرار دیا گیا، بعد میں پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد اس کی اندام نہانی سے 1.51 گرام لسسے دار مادہ برآمد ہوا، تب اسے اجتماعی عصمت دری کا معاملہ قرار دیا گیا اور تفتیش شروع ہوئی، ریاستی حکومت ایس آئی ٹی کے ذریعے تحقیق کروا رہی تھی، لیکن عدالت کے حکم سے اب سی بی آءی مجرموں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے اس قدر جدوجہد کے باوجود آر جی کر میڈیکل کالج میں توڑپھوڑ ہوئی اور اس کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اس واقعے نے دہلی میں ہوئے واقعہ کی یاد دلادی، اس واقعے کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے ممتا بنرجی نے صحیح کہا کہ مجرم کو موت کی سزا دینی چاہیے۔
اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں لاشوں اور کفن پربھی سیاست ہوتی ہے، چنانچہ ٹی ایم سی کو بدنام کرنے اور مغربی بنگال میں قانون کے حکمرانی کے فوت ہونے کی بات کہہ کر صدر راج لگانے کی پلاننگ ہو رہی ہے، بہت ممکن ہے کہ گورنر ممتا بنرجی پر مقدمہ چلانے کی منظوری بھی دے دیں ، جیسا کہ کرناٹک کے گورنر نے وزیر اعلی پر مقدمہ چلانے کی اجازت دے کر کیا ہے۔
سیاست سے اوپر اٹھ کر دیکھیں تو سی سی کیمرے سے اجتماعی عصمت دری کے اور مجرمین کیوں نہیں کھنگا لے جا سکے، اسپتال کے ذمہ داروں کا کیا رول رہا یہ سب تحقیق کے موضوعات ہیں ڈاکٹروں کا No work no sefty کا مطالبہ بھی صحیح ہے، لیکن پورے ملک میں علاج معالجہ کے کام کو روک دینا، ڈاکٹروں کے اخلاقی روایت کے خلاف ہے، کتنے مریض دوا علاج کے لیے تڑپ رہے ہیں، اسپتالوں کے وارڈ مریضوں سے خالی ہو رہے ہیں، اور بہت سارے انسانی جانوں کے علاج نہ ملنے کی وجہ سے جانے کا خطرہ ہے، اس لیے مطالبہ کی حمایت کے باوجود انہیں انسانی بنیادوں پر کام پر لوٹنا چاہیے ، جس کا سلسلہ اب دھیرے دھیرے شروع ہو گیا ہے۔اور دھیرے دھیرے اسپتال کا کام کاج معمول پر آرہا ہے بلکہ بڑی حد تک آگیا ہے
ہندوستان میں عصمت دری کے روزانہ تقریباً 90 واقعات ہوتے ہیں نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق سن 2021 میں 3777، 2020 میں 28064، 2019 میں 32033 واقعات سامنے آئے تھے، اقوام متحدہ کے ذریعے اس جرم کا سروے سنتاون ملکوں میں کیا گیا تھا اس کی رپورٹ کے مطابق عصمت دری کے صرف 11 فیصد معاملات کی ہی رپورٹ درج ہوتی ہے، تمام متاثرین بعض مصلحتوں سے اس معاملے کو پولیس میں لے جانا پسند نہیں کرتے، 2006 میں نیشنل کرائم بیورو نے بتایا تھا کہ ہندوستان میں عصمت دری کے 71 فیصد معاملات کی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔
عصمت دری کے زیادہ تر واقعات شناشا لوگوں کے ذریعہ ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں، اس لیے شریعت نے سختی سے غیر محرم مردوں سے پردے کا حکم دیا ہے اور مرد و زن کے اختلاط کو گناہ کے دائرے میں رکھا ہے، اس لیے کہ رشتوں کے نام پر بے مہابا ملنا عصمت دری تک پہنچا دیتا ہے
2021 میں عصمت دری کے جو معاملات سامنے آئے ،ان میں 28147 واقعات میں رشتہ دار ہی اس جرم کے مرتکب پائے گئے، ان میں 10 فیصد وہ لڑکیاں تھیں جن کی عمر 18 سال سےکم تھی اس کا مطلب ہے کہ 89 فیصد عصمت دری اپنوں کے ذریعے ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ رشتوں میں پردے کے اہتمام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بڑھایا جائے اور بلوغیت کی عمر سرکاری 18 سال کو نہ سمجھا جائے، ان کا جنسی شعور اس سے بہت قبل بالیدہ ہو جاتا ہے اور اپنی اس حس کی وجہ سے کبھی خود بھی وہ آبرو ریزی کے واقعات کی شریک کو سہیم ہو جاتی ہیں۔
ہندوستان سے باہر نکل کر دیکھیں تو 13 اکتوبر 2020 کی بزنس اسٹینڈرڈ کی رپورٹ کے مطابق سب سے بد ترین صورت حال جنوبی افریقہ کی ہے، وہاں ہر ایک لاکھ پر عصمت دری کے 132.4 فیصد واقعات درج ہوتے ہیں، جنوبی افریقہ کا پڑوسی ملک ہیروں کے لیے مشہور ربوٹ سوانہ دوسرے نمبر پر ہے، جہاں پر ایک لاکھ پر عصمت دری کے 92.90 فیصد واقعات رونما ہوئے، لسوتھونےاس جرم میں تیسرا مقام حاصل کیا، وہاں پر ایک لاکھ پر 82.70 عورتوں کو عصمت دری سامنا کرنا پڑا، سواززیلینڈ (اسواتینی) کے یہاں عصمت دری کی شرح ہر ایک لاکھ پر 77.50 رہی، اس طرح ہر ایک لاکھ پر بومودا67.30 ، سویڈن 63.50، سرینام 45.20 کواریکا 36.70، نکارا گوا 31.60، گریناڈا 306 علی الترتیب پانچویں سے دسویں نمبر پر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں 35 فیصد خواتین کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلہ میں جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جہاں تک ہندوستان میں عصمت دری کے ملزمین کو سزا دینے کے بات ہے تو 1973 میں 44.3 فیصد واقعات میں مجرمین نے سزا پائی تھی لیکن یہ تناسب دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ 2019 میں صرف 27.8 فیصد مجرمین پر سزا کا نفاذ ہو سکا، جبکہ 1983 میں 37.7، 2010 میں 26.6، 2012 میں 24.2، 2013 میں 27.1، 2017 میں 32.2 فیصد مجرمین سزا پا چکے، کچھ پر الزامات ثابت نہ ہو سکا اور کچھ متاثرین نے مقدمات واپس لے لیا اور صلح کر لیا۔
یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ عصمت دری کے جن واقعات کا اندراج ہوتا ہے، اس میں کئی واقعات فرضی بھی ہوا کرتے ہیں مقصد اپنے مخالف کو ذلیل و رسوا کرنا۔ اور عدالت کی دوڑ لگانا ہوتا ہے، اسلام میں فرد کی عزت اور آبرو ریزی کی بڑی اہمیت ہے۔ اس لیے اس نے غلط تہمت لگانے والے کو 80 کوڑے لگانے کی سزا تجویز کی ہے یہ زانی اور زانیہ کو دی جانے والی سزا سے صرف 20 کوڑے کم ہیں تاکہ کسی کی عفت و عصمت پر کوئی انگلی نہ اٹھائے جو واقعتاً مجرم ہیں، ان کے جرم کے ثبوت کے لیے چار ایسے گواہوں کی شہادت کو ضروری قرار دیا، جنہوں نے اس واقعہ کو سرمہ کی شیشی میں سرمہ لگانے والی تیلی کی طرح دیکھا ہو۔ شہادت کا یہ نصاب دوسرے جرائم سے دو زیادہ رکھا گیا، تاکہ تہمت لگانے کا سدباب کیا جا سکے۔
البتہ جو لوگ واقعتاً مجرم ہیں، اگر وہ غیر شادی شدہ ہیں تو سو کوڑے لگائے جائیں گے، اور اگر وہ شادی شدہ ہیں تو انہیں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جائے گا۔ آج کا دانشور طبقہ ایسے مجرمین کو گھٹ گھٹ کر مارنے کی وکالت کرتا ہے، پتھر مار مار کر ہلاک کرنا گھٹ گھٹ کر مارنے کی ایک شکل ہے کاش میری قوم اسے سمجھ سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے