#
معاشرے میں طلاق اور ازدواجی ناچاکی عام سی بات ہوگئی ہے۔
آپسی موافقتadjustment اور باہمی مفاہمتunderstandingکی کمی نےطلاق، خلع، علیحدگی کو بڑھاوا دیا ہے- کم عمر میں بیوگی، بیوی کے انتقال widowman کے نکاح ثانی کو بہت الگ الگ پہلو سے دیکھا جاتا ہے-بیوہ شادی کرے تو بچّے اور خاندان ناخوش- Widower مرد کم عمر کی عورت یا کنواری لڑکی سے نکاح کو ترجیح دے تو خاندان اور سماج کےطنزوتشنع، طعنے
"بوڑھی گھوڑی لال لگام "
بیوی کو طلاق دینے والا مرد پہلے کنواری لڑکی تلاش کرتا ہے، پھر بغیر بچّوں والی کم عمر بیوہ یا مطلقہ ۔
عہد نبویؐ میں نکاح بھی آسان تھا اور ایک سے زائد بیوی (two wives)کا ہونا کوئی عیب نہ تھا، وہاں طلاق بھی مشکل نہ تھی، نہ مطلقہ بُری نظر سے دیکھی جاتی تھی نہ بیوہ-ایسی عورتوں کے نکاح بھی آسانی سے ہو جاتے تھے اور وہ معاشرے میں Adjust ہو جاتیں تھیں- مرد ان کےحقوق ادا کر تا ان کے ساتھ عدل وانصاف کرتا تھا-
آج کے جنس زدہ معاشرے میں جبکہ عریانیت اپنے عروج پر ہے صارف کلچر اور مغربی تہذیب کے اثرات اور نقالی نے عورت کو جو آزادی بخشی اس کے نتیجے میں عریانیتpronography، فیشن پرستی نے مردوں کے جذبات کو برانگیخته Exited کیا ہے-اس کےمنفی اثرات سے مردوں کو اپنے ایمان، غض بصر(نگاہیں بچانا)، عصمت وعفت کی حفاظت کے لیے ایک سے زائد نکاحThe second wife in the presence of one کی ضرورت ہے- مرد کے پاس کسی وجہ سے بیوی نہ ہو تو مجرّد(bachelor) زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہوں ۔دوسرا نکاح مرد ، عورت دونوں کے لیے آسان ہو- رکاوٹ اور دشواری نہ ہو-
تعددازدواج(polygame (1)بیوی قربانی اور ایثار کا معاملہ کرے تو اس سے شوہر خوش اور کھونٹے سے بندھا رہے گا-
(2) شوہر کے لئے نیکی اورآسانی ہوگی –
(3)معاشرے میں عورتوں کے نکاح ثانی کی سنت کا چلن ہوگا-
(5) گھر گرہستی میں ایک مددگار ساتھی کے اضافے سے جہاں ایک پیٹ بڑھےگا ساتھ دو ہاتھ بھی آئیں گے –
(6) معاشرتی مسائل کا حل نکلے گا –
(7) لڑکیوں کے رشتوں کی کمی کے سبب بین مذہبی شادیوںInter cast marriageکے چلن میں کمی واقع ہوگی۔
(8) بہت ساری بہاتائیں بے جوڑ نکاح، شوہر کے تشدّد، اور سسرال کے ظلم کی شکار ہیں -شوہروں نے بے تعلقی اختیار کرلی ہے، جانوروں کی طرح پیٹی جاتی ہیں، کھانے اور علاج کے لیے محتاج ،مجبور وبے بس ہیں –
(9)ایسی کتنی عائشائیں ہیں جو ظلم وجبر سے تنگ آکر اور کوئی متبادل راستہ نہ پا کر خودکشی کر لیتیں ہیں!!!۔یا پھر گُھٹ گُھٹ کر اِسی گھر میں بے عزّت،بے وقار بے حیثیت بن کر جینے پر مجبور ہیں-
(10)ایک جھونپڑا بستی کے 1320 گھروں کے سروے میں معلوم ہوا کہ 300 لڑکیوں کے شوہروں میں ایک یا دو بچّے کی پیدائش کے بعد علاحیدگی ہوگئ ہے- وہ بوڑھے غریب والدین پر بار ہیں ۔
(11) چھوڑ دی گئیں عورتوں کے ساتھ ان کے بچّوں کو Adjust کرنا بھی ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے –
(13) کچھ نیک نفس بندے اس لیے بھی نکاح ثانی (second marriage)کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ بیوی کے ساتھ بچّوں کی بھی وقار کے ساتھ پرورش ہو جائے گی-
(13)یتیم ویسیر باپ کی محبّت سے محروم بچوں کو سایہء عاطفت نصیب ہوگا اور پرورش کرنے والے کو اجر وثواب ملے
گا-
ہم خزاں ہی کے شاکی رہے اے ہنر
ساری دنیا میں دور بہار آگیا
(14)بعض لاولد جوڑے اگر اس طرح بھی کوشش کریں گے تو معاشرے سے مسائل کو کم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں –
کاؤنسلنگ میں ایسے جوڑوں کی فہمائش کی گئی تو کچھ بیویوں نے خوشی سے اپنے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت بھی دی اور رشتہ کی تلاش میں آگے بڑھ کر کاؤنسلنگ سینٹر پر نکاح ثانی کی خواہش مند خواتین سے ملاقات کر کے آگے کے معاملات اور ان کی توقعات کو کاونسلر کی موجودگی میں واضح طور پرتحریری شکل دی گئی –
"انسانیت، انسان میں ہوتی ہے، نہ کہ کوٹ، پتلون یا جبّہ و دستار میں "
از: عبدالعظیم رحمانی،ملکاپوری
9224599910