تحریر: (مفتی) محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
صحت مند جسم اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے۔ البتہ مضبوط اور صحت مند جسم کے ساتھ ذہنی صحت نہ ہو تو زندگی کی معنویت ختم ہو کر رہ جاتی ہے، آپ نے بہت ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ جو جسمانی اعتبار سے انتہائی توانااور تر و تازہ ہوتے ہیں، لیکن حرکتیں پاگلوں جیسی کرتے ہیں، ان کے چہرے،چال چلن اور حرکات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہیں،بات کرتے کرتے بھول جانا، موضوع پر بات کرتے کرتے بغیر جوڑ کی باتیں شروع کر دینا،یاداشت ساتھ نہ دے رہا ہو تو پیشانی اور زمین پر زور سے ہاتھ مارنا، یہ سب غیر صحت مند ذہن کی علامتیں، آج زندگی پریشانی کن ہو گئی ہے، گھر سے لے کر باہر کارخانوں اور کمپنیوں سے لے کر دفاتر تک انسانوں کو ذہنی تناؤ اوردباؤ کا ہے، تناؤ اور دباؤ کی وجہ سے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی آتی ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ ہم ان اسباب ووجوہات پر غور کریں جس سے ہماری ذہنی صحت مندی متاثر ہو رہی ہے۔
اس کا بڑا سبب دین سے دوری اور اللہ پر اعتماد کی کمی ہے، ہم سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق کرنا چاہتے ہیں،ہم کسی بھی کام میں اللہ پر اعتماد کا سہارا نہیں لیتے،تقدیر کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتے،اس لیے جب ناکامی ہاتھ آتی ہے تو ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، اس مایوسی کی وجہ سے ہم اپنے اقدام کی صلاحیت کھو دیتے ہیں،اس لیے ہمیں بے فکر ہو کر محنت کرنی چاہیے اور تدبیر کے درجہ میں جو کچھ ممکن ہو کر گزرنا چاہیے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے، نتیجہ موافق ہو یا مخالف، مایوس نہیں ہونا چاہیے، اسے اللہ کو یہی منظور تھا کہہ کر مطمئن ہو جانا چاہیے، تقدیر میں یہی تھا کا جملہ بھی آپ کو مایوسی کے دلدل سے نکال سکتا ہے اور آپ کو ذہنی توانائی بخشنے کا کام کرے گا،ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں اور یہ ہمارے ایمان و یقین کا حصہ ہے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا،ہونا وہی ہے جو اللہ کا فیصلہ ہے،نتیجہ وہی نکلے گا جو تقدیر میں لکھاہوا ہے، ہماری تمام جدوجہد اور تدابیر کا حاصل اس قدر ہے کہ ہمیں اسباب کا پابند کیا گیا ہے، اور اللہ کی مرضی اور تقدیر میں درج فیصلوں کا ہمیں علم نہیں ہے،اس لیے تدبیر کے درجہ میں ساری توانائی لگا دینی ہے، اور پھر اللہ سے مانگنا بھی ہے کہ ہمیں کامیابی عطا فرما،یہ طریقہ کار ہمیں ذہنی طور پر صحت مند رکھے گا۔
ایک اور سبب ٹیکنالوجی کا ہماری زندگی میں بڑھتا عمل دخل ہے، اس سے سہولتیں تو بے پناہ حاصل ہوتی ہیں، لیکن ہم اپنی ذہنی صلاحیتوں سے زیادہ اس پر اعتماد کرنے لگے ہیں،اس لیے ہماری ذہنی صلاحیت ہی نہیں صحت مندی پر بھی برا اثر پڑا ہے، اور ہم موبائل، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر، ٹیب اور دوسرے آلات کے قیدی اور اسیر ہو کر رہ گئے ہیں، ان کے غیر ضروری استعمال نے ہماری آنکھوں سے نیند چھین لیا ہے، اور ان پر ڈالے گیے ہزاروں اور اق کی دید و شنید سے ہمارے جسمانی اعصاب پر بھی انتہائی بڑا اثر پڑ رہا ہے، اس نے ہمارے جذبات و خیالات اور طرز عمل کو اس قدر اور اس طرح متاثر کیا ہے کہ ہم دہنی طور پر بیمار اور انتشار کا شکار ہو گئے، اس کا حل یہ ہے کہ ان آلات کا صحیح استعمال کیا جائے، غیر ضروری چیزیں نہ سنی جائیں، اور نہ دیکھی جائیں،قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ کا ذکر اس ذہنی پر اگندگی کو دور کرنے میں کیمیا اثر ہے،اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ذکر سے اطمینان قلب ہوتا ہے۔
ذہنی صحت مندی کو نقصان پہنچانے والی ایک چیز منفی سوچ اور فکر ہے، آپ دوسروں کے بارے میں اچھا سوچیں گے، تو آپ کا ذہن صحت مند راستوں پر رواں رہے گا، دوسروں کے منفی رویے سے بھی ہماری ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے، جب کبھی دوسروں کا منفی رویے سامنے آئے،تو اسے اللہ کے حکم کے مطابق اچھے طریقے سے ٹالنے کی کوشش کیجیے، ”ادفع بالتی ھی احسن“ میں اللہ نے یہی بات کہی ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ٓاپ اپنے ذہن و دماغ کو منفی افکار و خیالات سے محفوظ رکھیں،کیونکہ منفی سوچ سے ہماری ذہنی صلاحیت پر انتہائی برا اثر پڑتا ہے اور اس کا نقصان نقد یہ ہوتا ہے کہ آپ کے اندر مثبت سوچنے کی صلاحیت کا جنازہ نکل جاتا ہے، دوسروں کے بارے میں غلط سوچنا اور اپنے فریق مخالف کو ہمہ وقت زیر کرنے کی فکر آدمی کو ذہنی طور پر بیمار بنا دیتا ہے، ممکن ہے کہ آپ اپنے دشمن کو نقصان پہنچا دیں، لیکن۴ عموما ًیہ دیکھا گیا ہے کہ نقصان پہنچانا موہوم ثابت ہوتا ہے،ہماری اچھی خاصی ذہنی صلاحیت لگنے کے بعد نتیجہ ہمارے موافق نہیں آتا تو ہمارا ذہن بیمار ہو جاتا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ مثبت سوچ کے حامل افراد میں ذہنی امراض کی شرح بہت کم ہوتی ہے، اس لیے مثبت سوچ کو اپنائیں، خوش رہنا سیکھیں،اچھی کتابوں کے مطالعہ کی عادت ڈالیں، ان اکابر کی سوانح پڑھیں جنہوں نے بڑے نامناسب اور نا موافق حالات میں کام کیا اور اپنی سوچ کو مجسم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
ذہن کو بیمار بنانے والی ایک چیز معاشی تنگی بھی ہے، بال بچوں کے مطالبات، پیٹ کی آگ تعلیم اور شادی کی ضروریات، مالیت کی کمی کی وجہ سے انسانی ذہن غیر صحت مند ہو جاتا ہے، جھنجھلاہٹ اور چڑچڑا پن اس کی بنیادی علامت ہے، تدبیر کے درجے میں آپ اپنے گردو پیش اور اپنے حالات کو سامنے رکھ کر آمدنی کے جائز ذرائع کو کام میں لائیں، یہ کام چھوٹے روزگار کی شکل میں کم پونجی سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے، پانی کی بوتلیں اور ہلکے پھلکے سامان کی تجارت شروع کر دیں، اللہ پر بھروسہ کریں،دعائیں مانگیں کہ وہ آپ کی ضروریات کی تکمیل کی راہ نکالے، توکل ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہنے کا نام نہیں ہے، اگر اونٹ کو چوری ہونے سے بچانا ہے تو اس کے پاؤں میں رسی ڈالیے،پھر اللہ پر بھروسہ رکھیے کہ وہ چوری سے بچائے گا، یہی معاملہ ہر کام میں ہے، تدبیر اختیار کیجئے اور اللہ پر بھروسہ رکھیے،انشاء اللہ کامیابی ملے گی، ضروریات کی کفالت ہوگی اور ذہن بیمار ہونے سے بچ جائے گا۔
ذہنی صحت مندی کے لیے تنہائی بھی مضر ہے، بزرگوں کی بات نہیں،عام لوگوں کی کرتا ہوں، عام لوگ جب تنہا ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں مختلف قسم کے اوہام اور ماضی کی تلخ و ترش یادیں آتی رہتی ہیں، اس سے انسان میں اقدام کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے، ماضی سے بالکلیہ کٹنا تو نہیں چاہیے، لیکن گزرے ہوئے ماہ و سال کی تلخیوں سے ذہن کو پاک و صاف رکھنا چاہیے،تبھی ذہنی صحت مندی حاصل ہوگی، ضرورت انسان کو ماضی میں جینے کی نہیں،حال میں زندگی گزارنے اور مستقبل کے روشن اور تابناک منصوبوں پر کام کو آگے بڑھاتے رہنے کی ہے۔
خدانخواستہ اگر کوئی ذہنی مریض ہو گیا ہو تو اسے نفسیاتی ڈاکٹر سے دکھانا چاہیے، دوا علاج پر توجہ دینی چاہیے، ایسے پروگرام کرنے چاہیے، جس سے مریض کو فرحت و سکون میسر ہو، مذہبی اعمال کا عادی بنانا چاہیے اور اسے تنہا قطعاً نہیں چھوڑنا چاہیے؛ کیونکہ ایسا مریض کبھی کبھی اپنی زندگی سے عاجز آ کر خود کشی کی سوچنے لگتا ہے، اسباب وعلل کی بھی تلاش کرنی چاہیے،جس کی وجہ سے وہ شخص ذہنی مریض بن گیا ہے، بیوی، بچے بھی انسان کو اپنے حسن سلوک، خوش خلقی کے ذریعے ذہنی دباؤ سے نکال سکتے ہیں،حوصلہ افزائی اور رجائیت کے کلمات بھی ذہن پر خوشگوار اثر ڈالتے ہیں، خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ گھر میں کسی ایک کا بھی ذہنی طور پر بیمار ہو نا بڑے بڑے مسائل پیدا کرتا ہے اور پورے خاندان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔بارہا یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ذہنی مریض کا علاج لوگ جھاڑ پھونک اور عاملوں کے ذریعے کراتے ہیں گھر والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ اس پر بھوت، جنات، آسیب یا خبیث کا سایہ ہے اور ساری توجہ اسی طرف دی جاتی ہے اور علاج نہیں کرایا جاتا، میں نہیں کہتا کہ جھاڑ پھونک کا اثر نہیں ہوتا ہے، جب کسی کی جانب سے دی گئی گالی ہمارے چہرے کا رنگ بدل دیتی ہے،تو اللہ کے کلام اور دعاؤں میں اس سے زیادہ تاثیر ہے کہ وہ مریض کو ٹھیک کر دے، بہت سارے ٹھیک ہوتے بھی ہیں، لیکن اصل چیز تدبیر کے درجہ میں ان اسباب و عوامل کو دور کرنا ہے، جس کی وجہ سے کسی کی ذہنی صحت متاثر ہوئی ہوتی ہے، اگر ان اسباب کو دور نہیں کیاگیا تو ذہنی صحت مندی کا وجود خواب و خیال بن کر رہ جائے گا، جس کنویں میں مری ہوئی بلی پائی گئی، پانی نکالنے سے پہلے اس بلی کو نکالنا ضروری ہے، بلی نہیں نکالیں اور پانی سارا نکال دیں تو کنواں ناپاک کا ناپاک ہی رہے گا، اسی طرح اسباب و عوامل کے دور کیے بغیر نہ توذہنی مریضوں پر دوا کام کرتی ہے اور نہ جھاڑ پھونک۔