خطاب جمعہ: مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ارتداد؛ اسباب وعلاج

ترتیب/ محمد قمر الزماں ندوی
استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

دوستو بزرگو اور بھائیو!
اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں پر یلغار ہے اور مسلمان ہر طرح سے باطل کے نشانے اور نرغے پر ہیں ، کفر کی طاقت متحدہ طاقت بن کر اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہے اور یہ باطل طاقتیں مسلمانوں کو ہر چہار جانب سے گھیرنے اور ان کے لیے عرصئہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ، ملک عزیز ہندوستان کا معاملہ تو اور نازک ہے ، یہاں مسلمان بہت مشکل اور فیصلہ کن مرحلے میں ہیں ، اسلامی تشخص اور مسلمانوں کے عائلی نظام کو مٹانے کی پوری کوشش ہو رہی ہے ، ہمارے اوقاف کو ہڑپنے کی پلانگ کی جارہی ہے ، مسلم پرسنل لا کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کی بات چل رہی ہے ، تو دوسری طرف ہماری بہو، بیٹیوں کو منصوبہ بند طریقے سے مرتد بنانے کی منصوبہ بند پلانگ چل رہی ہے اور اس کے لیے برابر منصوبے اور مشورے ہو رہے ہیں ، جس کا اثر یہ ہے کہ ہر روز مسلم لڑکیوں کے غیروں کے ساتھ جانے اور شادی رچانے کے واقعات پیش آرہے ہیں ، کوئی دن خالی نہیں جاتا، جس دن اس طرح کے واقعات پیش نہ آتے ہوں ۔ یہ معاملہ بہت پریشان کن ہے ،جس نے ہمارے سکون کو چھین لیا ہے اور راتوں کی نیند کو اڑا دیا ہے، گزشتہ جمعہ بھی ہم نے اس موضوع پر کھل کر بیان کیا تھا اور اس کے تدارک اور روک کی صورتیں بتائیں تھیں ۔ آج بھی اسی عنوان پر مزید باتیں ہوں گی اور فتنئہ ارتداد کے تدارک اور سد باب پر مزید وضاحت ہوگی ،امید کہ آپ سب بتائے ہوئے طریقوں پر عمل پیرا ہوں گے اور سب مل کر اس کے خاتمہ کے لیے کوشش کریں گے ۔
دوستو بزرگو اور بھائیو !!!
اسلا م میں بیٹی اللہ کی رحمت ہے ، جنت میں لے جانے کا سبب ہے ، بیٹی بیوی بن جائے تو شریک حیات بن کر گھر کو پرسکون بنانے کا ذریعہ ہے ، اور جب وہ ماں بن جائے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے ، بہن ہے تو اپنے بھائیوں اور خاندان کے لئے مونس وغم خوار ہے اور یہ عورت ہی ہے جو بڑی مصیبت اٹھا کر ہمیں دنیا میں لانے کا ذریعہ بنی ۔اسلام میں شادی کے وقت لڑکی والے پر کوئی مالی بوجھ نہیں ہے ،نان ونفقہ ، رہائش کے لئے مکان وغیرہ کی فراہمی لڑکے کے ہی ذمہ ہے ، خوشی میں بھوج دینا بھی جسے ولیمہ کہا جاتا ہے،اسی کی ذمہ داری ہے، ان سارے اخراجات کے ساتھ مہر کی ادائیگی بھی لڑکے کو ہی کرنی پڑتی ہے، جونکاح کے بنیادی لوازمات میںسے ہے ، اس لئے مسلمانوں کے یہاں دختر کشی کا عمل حمل کی حالت میںنسبتا ً کم ہے ،یہ اور بھی کم ہوسکتا ہے اگر ہم شریعت کے احکام کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے سلامی اور جہیز کے ذریعہ معیار زندگی بڑھانے کا خیال دل سے نکال دیں ، بدقسمتی سے یہ بیماری بہت سارے علاقوں میں مسلم سماج میںبھی داخل ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے بڑی عمر تک لڑکیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پارہے ہیں،مختلف شہروں اور علاقوں میں بڑی تعداد میں لڑکیاں کنواری بیٹھی ہوئی ہیں ، اس صورت حال میں دخل ’’کفو‘‘ کے نام پر غیر ضروری میچنگ Maching دیکھنے کا بھی ہے ، دین داری اصل ہے ، اس میںبرابر ی کا تصور کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ دوسری مختلف چیزوں کو’’ ناک‘‘ کا مسئلہ بنالیا گیا ہے ، شریعت کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ایسا رشتہ جس کے دین واخلاق سے اطمینان ہو ، اس کو قبول کرلینا چاہئے ، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو زمین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہماری بدعقلی ، بے شعوری اور شرعی احکام کی ان دیکھی کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوچکاہے ، اور مختلف مذاہب کے مابین غیر شرعی شادی کا مزاج بڑھتا جارہاہے اور ہماری لڑکیاں محفو ظ نہیں ہیں ۔
ان دنوں لڑکیاں ایمان وعقیدہ کے اعتبار سے بھی غیر محفوظ ہو رہی ہیں، آئے دن غیر مسلموں کے ساتھ ان کے رشتے کی خبریں آ رہی ہیں ، فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے اسے مہم کی شکل دی گئی ہے، اس مہم میں کامیاب نوجوانوں کو خطیر رقم دی جاتی ہے، پہلے وہ لوگ بھولی بھالی مسلم لڑکیوں کو پیار ومحبت کے جھانسے میں پھنساتے ہیں، ساتھ گھومانے پھرانے کے ساتھ مختلف قسم کے تحائف دے کر انہیں خود سے قریب کرتے ہیں، پھر انہیں شادی کی پیش کش کرتے ہیں، اور جب وہ شادی کے لیے تیار ہوجاتی ہیں تو ان کا مذہب تبدیل کراکر ہندو رسم ورواج کے مطابق ان سے سات پھیرے لگوائے جاتے ہیں، کچھ دنوں کے بعد جب جی بھر جاتا ہے تو ان لڑکیوں کا قتل کرادیا جاتا ہے لاش کسی ریل کی پٹری پر مل جاتی ہے اور حکومتی سطح پر اسے خود کشی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے ۔ملک کے مختلف حصوں اور بہار کے بہت سارے اضلاع سے اس قسم کی تشویشناک، المناک اور پریشان کن خبریں ہر دن موصول ہو رہی ہیں، اس طرح ان لڑکیوں کو دین وایمان سے بے زار کرکے ہندو مذہب میں داخل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے بیٹیوں کے ایما ن وعقیدہ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے انتہائی مستعدی کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے جو اسباب وعوامل ہیں اس کو دور کیے بغیر ہم بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
ہماری لڑکیاں ان کے جال میں جن وجوہات سے پھنستی ہیں، ان میں ایک بڑا سبب اختلاط مرد وزن ہے، یہ اختلاط تعلیمی سطح پر بھی ہے اور ملازمت کی سطح پر بھی، کوچنگ کلاسز میں بھی پایا جاتا ہے اور ہوسٹلز میں بھی، موبائل انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ اختلاط زمان ومکان کے حدود وقیود سے بھی آزاد ہو گیا ہے، پیغام بھیجنے اور موصول کرنے کی مفت سہولت نے اسے اس قدر بڑھا وا دے دیا ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی خلوت گاہیں ہی نہیں، جلوت بھی بے حیائی اور عریانیت کا آئینہ خانہ بن گئی ہیں، یہ اختلاط اور ارتباط آگے بڑھتا ہے تو ہوسناکی تک نوبت پہونچتی ہے، جسے محبت کے حسین خول میں رکھ کر پیش کیا جاتا ہے، والدین اور گارجین یا تو اتنے سیدھے ہیں کہ انہیں لڑکے لڑکیوں کے بے راہ روی کا ادراک ہی نہیں، یا اتنے بزدل ہیں کہ وہ اس بے راہ روی پر اپنی زبانیں بند رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں، یا تلک جہیز کی بڑھتی ہوئی لعنت، شادی کے کثیر اخراجات کے خوف سے اسی میں عافیت سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں اپنا شوہر خود تلاش لیں، کورٹ میریج کرلیں؛ تاکہ یہ درد سر ان سے دور ہوجائے، ان خیالات کے پیچھے ان کی غربت اور دینی تعلیم وتربیت سے دوری کا بڑا دخل ہوتا ہے، اگر بنیادی دینی تعلیم وتربیت والدین اور لڑکے لڑکیوں کے پاس ہو تو انہیں اس کا ہرپل احساس ہوگا کہ غربت اور شادی کے حوالے سے پریشانیاں وقتی ہیں اور ایمان چلے جانے کی صورت میں آخرت کا عذاب حتمی اور لازمی ہے تو شاید ان کے لیے ان وقتی پریشانیوں کو جھیل جانا آسان ہوجائے۔
اس بُرائی سے گذرنے والی لڑکیوں کے اندر ایک طرف تو خوف خدا نہیں ہوتا دوسری طرف عدالت کے مختلف فیصلے کے ذریعہ جس میں عورتوں کی آزادی کے نام پربے لگام جنسی تعلقات کو جائز قرار دیا گیا اور طوائفوں کی طرح ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کو قانونی حیثیت حاصل ہو نے کی وجہ سے وہ جری ہو گئی ہیں، اب وہ ایک مرد کی بیوی رہتے ہوئے دوسرے کے بستر گرم کرنے کے لیے آزاد ہیں، شوہر اس بے راہ روی پر طلاق کی عرضی عدالت میں دے سکتا ہے؛ لیکن اس پر کوئی دارو گیر نہیں کر سکتا، اس قسم کے فیصلے نے ان کے دل سے سماجی خوف کو نکال دیا ہے اور وہ اپنی من مانی پر اتر آئی ہیں، انہیں نہ اللہ رسول کا خوف ہے اور نہ سماج کا، رہ گیا قانون تو وہ ان کی پیٹھ پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑا ہوا ہے، ایسے میں بے راہ روی عام ہوتی جا رہی ہے۔
یہ بے راہ روی کنواری لڑکیوں میں تاخیر سے شادی کی وجہ سے بھی آتی ہے اور عورتوں میں شوہر کے بسلسلہء ملازمت ان سے دور رہنے کی وجہ سے بھی، یہ دوری ملکی ملازمت میں بھی ہوتی ہے؛ لیکن غیر ملکی ملازمت کے حدود وقیود کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں کام کرنے والے شوہروں کے یہاں کچھ زیادہ ہی ہوجاتی ہے۔ مجبوریاں اپنی جگہ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دوری کی وجہ سے بڑے مفاسد پیدا ہوتے ہیں،ارتداد کی اس نئی لہر سے ہر ایمان والے کا بے کل اور بے چین ہونا فطری ہے، ضرورت ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے، جس کی وجہ سے ہماری لڑکیاں مرتد ہو رہی ہیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرکے اپنی عاقبت خراب کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔
ظاہر ہے اس فتنہ کا تدارک کسی ایک شخص اور تنظیم کے بس میں نہیں ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ گاؤں اور محلہ کے مسلم اور غیر مسلم دانشورسر جوڑ کر بیٹھیں، اس لیے کہ اس مسئلہ سے سماج میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہونچتا ہے، اس کے علاوہ وقفے وقفے سے خواتین کے اجتماعات رکھے جائیں ان میں جوان لڑکیوں کو خصوصیت سے بلایا جائے، آر اس اس کی ترغیبی مہم سے آگاہ کرنے کے ساتھ انہیں اس راہ پر بڑھنے کے دنیوی اور اخروی نقصانات کو تفصیل سے بیان کیا جائے، اس کام کے لیے تمام ملی تحریکیں اور تنظیمیں آگے آئیں اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں اس فتنہ کے تدارک کی کوشش ترجیحی بنیادوں پر کریں، مسلم گھرانوں کے اندرونی حالات پر بھی نگاہ رکھی جائے اور مقامی سطح سے اصلاح کا کام شروع کیا جائے، غیر مسلم لڑکوں کے مسلم محلہ میں ٹیوشن پڑھانے اور دوسرے مقاصد سے آنے پر بھی نگاہ رکھی جائے، مرد وزن کے اختلاط سے بچا جائے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکے لڑکیوں کے سکشن الگ الگ کرنے کے لیے اداروں کے ذمہ داروں سے باتیں کی جائیں، مدارس والے بھی لڑکیوں کے لیے الگ تعلیم کا نظم کریں، تلک وجہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے، انڈرائڈ موبائل سے لڑکیوں کو بچایا جائے اور ان کی حرکات وسکنات پر خصوصی توجہ دی جائے، تاکہ پہلے مرحلہ میں ہی اس کا سد باب ہوسکے، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کی مہم چلائی جائے اور مورث کو ان کی حق تلفی سے روکا جائے۔
جن علاقوں میں ارتداد کی یہ نئی قسم سامنے آئی ہو، اس کا مقامی سطح پر سروے کرایا جائے، گارجین کی جانب سے گم شدگی کا اف آئی آر درج کرایا جائے، وکلاء سے قانونی مدد لی جائے، تاکہ ایسی لڑکیوں کی گھر واپسی کا کام آسان ہوجائے، ۔۔۔۔

دوستو بزرگو اور بھائیو ! اگر ہم فتنئہ اردتداد کے اسباب: پر غور کرتے ہیں تو اس کے وجوہات یہ نظر آتے ہیں ۔

اولاد کی تربیت و اصلاح میں والدین کی کوتاہی: بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ بلاشبہ والدین کی گود بچوں کی وہ پہلی درسگاہ ہوتی ہے ،جہاں سے شعور و آگہی اور تہذیب و اخلاق کی کرن پھوٹتی ہے اور اس کی روشنی میں بچہ شاہ راہ حیات طے کرتے ہوئے، منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔مگر صد حیف کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں والدین کی مصروفیت اور غفلت کے باعث بچے اسلامی اور معاشرتی تربیت سے محروم نظر آتے ہیں۔اسلامی نہج پر ان کی شخصی اور فکری تربیت کرنا مشکل امر ہوتا جارہا ہے۔لہذا آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایک ماں اپنے بچوں کی تربیت اور پرورش کرنے میں بزرگ خواتین اسلام کے احوال و آثار کو اپنائے۔ان کی زندگیوں کا مطالعہ کرے،اپنے بچوں اور بچیوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں مثالی کردار ادا کرے۔ماں کا مقام بہت بلند ہے،اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے،اسے چاہیے کہ وہ خود یا اسلامی تعلیم سے آراستہ خواتین سے اپنی بچیوں کے لیے کچھ وقت حاصل کریں۔
دینی تعلیم کا فقدان: آج ارتداد کی سب سے بڑی وجہ دینی تعلیم کا فقدان ہے۔عام طور پر بچے اور بچیاں جب چار،پانچ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو ہم انھیں انگریزی اور عصری علوم سے مزین کرنے کے لیے مشنری اسکولوں میں داخل کردیتے ہیں جہاں عمدہ تعلیم کے نام پر عیسائیت اور ہندوئیت کو فروغ دے رہے ہیں،اسلامی تہذیب،اسلامی اخلاق اور اسلامی تشخص کو فروغ دینے کا تو ہلکا تصور بھی ان کے ذہن و دماغ میں نہیں ہوتا، جس کی جہ سے مشرکانہ عقائد و افکار کی قباحت مسلم بچیوں کے دل سے نکل رہی ہے،بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پڑھائی جانے والی کتابیں اسلام کے خلاف ہیں اور باطل افکار پر مشتمل ہیں۔ تو ایسی صورت میں مسلم لڑکیاں کیسے دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گی؟کیسے سیرت فاطمہ کو پڑھ پائیں گی؟کیسے صلاۃ و صوم کی پابند ہوں گی؟ ظاہر سی بات ہے جب مسلم لڑکیوں کے اندر دینی تعلیم کا فقدان اور عصری تعلیم کی رغبت ہوگی، تو وہ فتنۂ ارتداد کے شکار تو ہوگی ہی۔اللہ تعالی دختران اسلام کی حفاظت فرمائے۔
مخلوط نظام تعلیم: اسکولوں اور کالجوں میں رائج مخلوط نظام تعلیم ایک ایسا سم قاتل ہے جس نے ملت اسلامیہ کے نوجوان نسل کے اندر غیرت ایمانی،حیاء اور شرافت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے،مخلوط تعلیم کی وجہ سے مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے دام محبت میں آسانی سے پھنس کر ان کی شیطانی حملے کا شکار بن جاتی ہیں اوروقتی دوستی اور معمولی منفعت کے چکر میں آسانی سے مرتد ہوجاتی ہیں،اسی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں مخلوط تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے،دین اسلام تعلیم نسواں کا مخالف نہیں ہے، بل کہ مذہب اسلام عورت کو اجنبی مردوں کے ساتھ اختلاط کو منع کرتا ہے اور پردے کے اہتمام کے ساتھ تعلیم کی اجازت دیتا ہے،صرف حصول تعلیم کے ان طریقوں سے منع کرتا ہے جس کے ذریعہ سے نسوانیت کا تقدس یا اس کی عزت و عصمت کے داغ دار ہونے کا خدشہ ہو۔ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ لڑکیاں گھر سے یہ کہ کر نکلتی ہیں کہ پڑھنے جا رہی ہوں لیکن وہ پڑھنے جانے کے بجاے اپنے Boyfriend کے ساتھ ہوٹلوں، پارکوں اور نائٹ کلبوں میں چلی جاتی ہیں اور رنگ ریلیاں مناتی ہیں،تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو مسلم شہزادیوں کو بدکرداری،فحاشی، اور عریانیت کے سمندر میں ڈبو کر انھیں نور ایمانی سے محروم کر دے اور ایمان جیسی عظیم دولت سے تہی کر کے کافروں کی گود میں ڈال دے۔
مخلوط ملازمتیں: آج دواخانہ،شفاخانہ، اسپتال، بازار،کال سینٹر،دفاتر اور کالجز وغیرہ میں خواتین بغیر شرم و حیا اور بے پردگی کے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ملازمت کی خدمات انجام دے رہی ہیں اور اپنے اہل خانہ کی پرورش کر رہی ہیں۔مسلم لڑکیاں بھی ان جگہوں پر ملازمت کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں،مخلوط ملازمت کے دوران ان کا غیروں کے ساتھ اختلاط میل جول اور گھنٹوں تک ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہتا ہے،اجنبی مردوں کے ساتھ تنہائی کی نوبت بھی آتی ہے، ایسے وقت میں بیمار ذہن و اخلاق کے لوگ موقع کا فائدہ اٹھا کر انھیں اپنا شکار بنا لیتے ہیں اور ہماری بہنیں بغیر غور و فکر اور تردد کے ان کے ساتھ شادی کر کے اپنی خاندانی وجاہت و شرافت کو بھرے بازار نیلام کردیتی ہیں۔
بے جا خرچ والی شادیاں: آج ہم جھوٹی شان و شوکت کی خاطر شادیوں میں بےدریغ رقم خرچ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے غریب اور متوسط گھرانوں کی لڑکیوں کی شادی نہیں ہورہی ہے،ان کے والدین کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون حرام ہو گیا ہے۔مہنگے لباس،قیمتی سامان،جہیز،اعلی شادی خانے کا نظم،لوازمات سے بھر پور طعام کا مطالبہ بچیوں کے گناہ میں ملوث ہونے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ ہم ان جوان بچیوں کے تئیں ذرہ برابر بھی فکر مند نہیں ہو رہے ہیں، جو اپنے والدین کی غربت اور مہنگی شادیوں کی وجہ سے باطل مذہبوں کے لڑکوں سے رشتہ ہموار کر رہی ہیں اور ان سے شادی کر کے ہندو مذہب کے مطابق اپنی زندگی گزار رہی ہیں۔
کثرت سے سوشل میڈیا کا استعمال: آج موبائل ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے،ہرشخص کے پاس قیمتی اسمارٹ فون موجود ہے۔آج سوشل میڈیا نے صارفین کو اپنا ایسا دیوانہ بنا لیا ہے کہ اب اس سے ان کا نجات پانا بے حد مشکل ہو گیا ہے۔ کیا جوان کیا ضعیف؟کیا مرد کیا عورت؟ کیا لڑکا کیا لڑکی؟ہر شخص سوشل میڈیا کا زلف اسیر ہو چکا ہے۔مسلم لڑکیاں کثرت کے ساتھ فیس بک،ٹویٹر،انسٹاگرام،ٹک ٹاک، واٹس ایپ استعمال کر رہی ہیں اور اپنی ویڈیو بناکر شیئر کر رہی ہیں اور لائک وغیرہ حاصل کر رہی ہیں،ذرا سوچیے جس باپ کی پوری زندگی بیٹی کو کپڑا پہنانے اور سنوارنے میں گزر گئی آج وہی بیٹی سوشل میڈیا میں اپنے جسم کی نمائش کر کے چند رقم اور لائک حاصل کر رہی ہیں اور اپنی عفت و پاک دامنی کو چاک کر رہی ہیں۔
والدین کی بیٹیوں پر بے انتہا شفقت و محبت، ان کی تمام خواہشات کی تکمیل اور سوشل میڈیا کے کثرت استعمال نے لڑکیوں کو ارتداد کے سمندر میں غرقاب کرنے میں ایک اہم کلیدی رول ادا کیا ہے۔
دوستو ،بزرگو اور بھائیو ایسے موقع پر ہماری ذمے
داریاں کیا ہیں، اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے ،،

فتنہ ارتداد کے سدباب کے لیے ہمیں غور و فکر کرنی چاہیے کہ آخر اس دجالی فتنہ کو کیسے روکا جائے؟ کیسے اس فتنہ کی بیخ کنی کی جائے؟ کیسے اس فتنہ سے مسلم بچیوں کی حفاظت کی جائے؟جب ہم ان چیزوں پر غور و فکر کرتے ہیں تو چند باتیں ذہن میں آتی ہیں جن سے لڑکیوں کو مرتد ہونے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

(١) والدین کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین انداز اور اسلامی ماحول میں اصلاح و تربیت کریں،انھیں عمدہ طور پر تعلیم و نصیحت کریں،ہر قدم پر ان کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں،ان کی ذہنی و نفسیاتی تربیت پر کامل توجہ دیں، اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں،سیرت رسول،اسوۂ صحابہ، صالحین و صالحات کے سچے واقعات سنائیں،پڑھائیں اور احکام شریعت پر مکمل کار بند کریں۔ نیز اسلامی تعلیمات و تربیت سے مزین کرنے کے لیے علماے کرام سے قرآن عظیم اور دینی کتابوں کے درس کا بھی اہتمام کریں۔

(٢) مخلوط نظام تعلیم سے بچیوں کو حتی الامکان بچایا جائے۔ جو لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہی ہیں والدین کو چاہیے کہ ان کے ہر اٹھنے والے قدم اور عادات و اخلاق پر گہری نظر رکھیں اور کوشش کریں کہ سایہ کی طرح ہمہ وقت ان کے ساتھ رہیں۔ ٹیوشن کے نام پر اجنبی لڑکوں سے اختلاط کا موقع ہرگز نہ دیں اور کالج کی آمد و رفت کا انتظام خود کریں۔

(٣) موبائل ریچارج،زیراکس،کریم پاؤڈر،صابن،فیس واش کی خرید و فروخت یا کسی اور کام کے لیے لڑکیوں کو ہرگز غیر مسلموں کی دکان پر جانے کی اجازت نہ دی جائے،اسی طرح کالج کے اندر یا اس سے قریب غیر مسلموں کے کینٹین سے بچنے کی ہدایت کی جائے۔

(٤) لڑکیوں کو موبائل اور لیپ ٹاپ سے دور رکھا جائے، اگر کوئی لڑکی کسی تعلیمی ضرورت کے تحت انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے، تو ان کی مکمل نگرانی کی جائے،ان کو ایسی نششت دی جائے، جہاں سے ہر شخص کا گزر ہو اور اس کی نظر اس پر پڑ سکے کیوں کہ بھٹکنے اور بہکنے کے اکثر دروازے انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی کھلتے ہیں۔

(٥) وقفے وقفے سے خواتین کے اجتماعات کیے جائیں، لڑکیوں کی بے راہ روی اور دینی بگاڑ کی اصلاح کی جائے،خصوصاً جوان لڑکیوں کو اجتماع میں لانے کی مکمل کوششیں کی جائے اور انھیں سیرت مصطفوی اور سیرت صحابیات اور خصوصاً سیرت عائشہ اور سیرت فاطمہ سے روشناس کرایا جائے، ازواج مطہرات کی زندگی سے انہیں باخبر کیا جائے۔ مزید برآں ایں کہ انھیں فتنۂ ارتداد کے سخت عذاب سے باخبر کیا جائے اور یہ بھی بتا دیا جائےکہ انتہا پسند کٹر ہندتوا کے حامی لیڈران غیر مسلم لڑکوں کو باضابطہ تربیت دے رہے ہیں کہ وہ مسلم لڑکیوں کے پیچھے پاگل کتے کی طرح پڑ جائیں اور انھیں سبز خواب دکھا کر ان سے شادی کرکے ان کی زندگی کو اجیرن کر دیں اور ان کے عوض داد و تحسین،موٹی رقم،جاب اورفلیٹ وغیرہ بشکل انعام حاصل کریں۔

یہاں پر یہ بھی بتاتا چلوں کہ جو لڑ کیاں اپنی قوم اور مذہب کو چھوڑ کر کافروں کے مذہب میں داخل ہو جاتی ہیں ان کی زند گیاں جہنم بنا دی جاتی ہیں،ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے بلکہ زد و کوب کر کے ان کی جان تک لے لی جاتی ہے۔اس طرح کے دل دہلا دینے والی کئی خبریں ہم اخبارات میں پڑھ چکے اور ویڈیوز میں دیکھ چکے ہیں۔

اگر کوئی لڑکی اس طرح کی ناپاک حرکت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو انھیں ہوش کا ناخن لینا چاہیے اور اپنی جان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ورنہ ان کا بھی وہی انجام ہوگا جو دوسری لڑکیوں کا ہوا ہے۔ اگر ماری نہیں جائے گی تو بے یارو مدگار چھوڑ دی جائے گی اس کے بعد نہ وہ گھر کی رہے گی نہ کہیں اور کی بلکہ ذلت بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے گی۔

(٦) ذمہ داران قوم و ملت کو اس فتنہ کے اسباب و عوامل پر غور و خوض کرنا چاہیے جس سے اس فتنہ کی جڑوں تک آسانی سے پہنچا جا سکے۔

(٧) فتنۂ ارتداد کے خلاف ملک گیر یا علاقائی سطح پر ایک کامیاب مہم چلانا چاہیے،جس سے مسلم سماج میں حتی الوسع بیداری لائی جاسکے۔

( ٨) جو مسلم بچیاں اس فتنہ کا شکار ہو چکی ہیں یا اس کی زد پہ ہیں،اس علاقہ کے علما،مشائخ اور با اثر شخصیات کو فوری ان کے گھروں پر جاکر ان کی بہتر اصلاح و تفہیم کرنا چاہیے اور انھیں یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ جو کر رہی ہیں وہ جہاں سماج و معاشرہ کی حیثیت سے غلط ہے،وہیں اسلام و شریعت کے بھی منافی ہیں۔اس کی اس غلط حرکت کی وجہ سے اس کے افراد خاندان کی سماج و معاشرہ میں عام ذلت و رسوائی تو ہوگی ہی ساتھ ہی ساتھ اس کی آخرت بھی برباد ہو جائے گی۔

(٩)ملک گیر یا ریاستی اور ضلعی سطح پر ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو ان تمام حالات پر گہری نظر رکھ سکیں اور ان کا تدراک و حل نکال سکیں۔

(١٠)جو بچیاں شادی کی عمر کو پہنچ جائے تو فوری طور پر ان کی شادیوں کا انتظام کر لیا جائے ،یاد رہے کہ تاخیر کی صورت میں اس طرح کے فتنہ خیز حالات پیش آسکتے ہیں لہذا اس بات کا بخوبی خیال رکھیں۔

(١١)سماج سے جبری جہیز کی لعنت اور شادیوں میں من مانی مطالبات کو یکسر طور پر ختم کریں،کیوں کہ بچیوں کا غیروں کے ساتھ شادیاں کرنے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔اس طرح کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں جو بعد والوں کے لیے درس عبرت بنیں۔(٦ نمبر سے لے کر ١١ نمبر تک”سوغات جمعہ” خطبہ نمبر٨٦ سے ماخوذ ہے)

نوٹ/ اس خطاب جمعہ کو متعدد تحریروں کی روشنی میں تیار کیا گیا ہے ، خاص طور پر مولانا مفتی ثناء الھدیٰ قاسمی اور مفتی زاہد رضا دھنباد کی تحریر کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے