کسبِ کمال کن کہ عزیز جہاں شوی !

تحریر: محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ -9506600725

کسی بھی فن میں مہارت، کمال، اختصاص، اور اخلاص کے ساتھ ذہنی اعتدال کسی بھی انسان کی کامیابی کے لیے بنیادی شرط ہے ، اس کے بغیر وہ عروج و ارتقاء اور ترقی و بلندی تک نہیں پہنچ سکتا ، دوسری طرف نیک نامی اور مقبولیت کے لیے نافع اور انفع بننا شرط ہے ۔
نافعیت کا احترام و اعتراف یہ مشاہدہ کی چیز ہے، لوگوں کا نافعیت و افادیت کے سامنے جھکنا، اس کی قدر کرنا اور اس کو تسلیم کرنا یہ انسان کی فطرت اور سنت ثابتہ ہے ۔نافعیت کی بقا اور اس کی زندگی اور سرسبزی کی اللہ تعالیٰ نے ضمانت لی ہے اور جو اس سے خالی ہے، اس کے لیے یہ ضمانت نہیں ،سورئہ رعد میں ہے ،، فاما الزبد فیذھب جفآء و اما ماینفع الناس فیمکث فی الارض کذلک یضرب اللہ الامثال ۔ سورت الرعد ۔۔۔۔
سو جھاگ تو سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے ،اور (پانی) جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ،وہ زمین میں ٹہرتا ہے، اسی طرح خدا (صحیح اور غلط کی) مثالیں بیان کرتا ہے ،(تاکہ تم سمجھو)
مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح لکھتے ہیں کہ ،، بقائے اصلح نہیں بلکہ قرآنی زبان و اصطلاح میں بقائے انفع کا یہ قانون ہزاروں لاکھوں برس سے چل رہا ہے اور ہزاروں تبدیلیوں کے باوجود چلتا رہے گا ،نافعیت کے لیے پنپنا ،پھلنا پھولنا اور اپنی قیمت اور اہمیت تسلیم کرالینا مقدر ہوچکا ہے ،نافع بن جانا ہزار مخالفتوں اور فتنوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے، اس کے لئے پروپیگنڈہ اور پبلسٹی کی ضرورت نہیں ،نافع کے اندر محبوبیت کی صفت ہے،اس میں رنگ و مذہب اور قوم و وطن کی بھی تفریق نہیں نافع اگر پہاڑ کی چوٹی پر بھی بیٹھ جائے گا تو دنیا اس کو تلاش کرنے وہاں پہنچے گی،اور اس کو ہاتھوں ہاتھ سر پر بٹھا کر بلکہ آنکھوں میں جگہ دے کر لائے گی ،یہ اللہ کی سنت ہے جو ہزاروں لاکھوں برس سے چلی آرہی ہے۔ آپ اپنے اندر نافعیت پیدا کرنے کی کوشش کیجئے،آپ سے زندگی کی شب تاریک میں راہ رؤں کو روشنی ملتی ہو ،آپ کی مدد سے علمی عقد حل ہوتے ہوں ،آپ کی صحبت میں بیٹھ کر ایمان میں طاقت پیدا ہوتی ہو،آپ کے پاس جاکر آدمی کچھ لے کر آتا ہو ،اس کے بعد اگر آپ اپنے اور لوگوں کے درمیان دیواریں کھڑی کر دیجئے،اپنے مکان کا دروازہ بند کرکے بیٹھ جائیے ،لوگوں کو اگر یہ معلوم ہوگا کہ یہاں نافع رہتا ہے ،اس سے فلاں قسم کا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے(روح کا فائدہ اور ایمان کا فائدہ تو بہت بڑی چیز ہے) تو لوگ دیوار پھاند کر اور دروازہ توڑ کر آپ کے پاس پہنچ جائیں گے” (دعوت فکر و عمل ،201)
معلوم یہ ہوا کہ نافعیت کا ہونا اصل چیز ہے ،جس پر لوگ پروانہ وار ہجوم کرتے ہیں ،پروانوں کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ شمع جل رہی ہے ،کون یہ اعلان کرتا ہے کہ پروانو!شمع پر ہجوم کرو،ان پروانوں اور شمع کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟ جہاں پانی کا چشمہ ہوتا ہے ،وہاں مور و ملخ ،انسان و چوپائے جمع ہو جاتے ہیں ،انقلاب کا شکوہ بے خبری ،بے بصری اور کم ہمتی کی دلیل ہے ۔۔( مستفاد از کتاب دعوت فکر و عمل, 203)
نافعیت کی قوت تسخیر کا دنیا میں کوئی انکار نہیں کرسکا، یہاں دشمن بھی سپر ڈال دیتا ہے اور ہتیار اٹھا لیتا ہے ، شہر لکھنؤ کے ایک چوٹی کے مسلمان ڈاکٹر عبد الحمید مرحوم تھے ۔ جن کی حذاقت وسیع تجربہ اور استادی کا ہندو مسلم سبھی ڈاکٹر لوہا مانتے تھے، انہوں نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ بارہ بنکی کے ایک غیر مسلم سرمایہ دار اور کاروباری شخص نے تقسیم ملک کے بعد ایک دن ان سے طنزاً کہا ڈاکٹر صاحب! آپ پاکستان نہیں گئے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ہندوستان ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے ،خدا کا کرنا ہوا کہ وہ تاجر کسی سخت مرض میں مبتلا ہوا، ہر طرح کے علاج اس نے کئے بڑے بڑے ڈاکٹروں کو بلایا، مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا ،ہار کر اس نے ڈاکٹر صاحب ( عبد الحمید صاحب) کو تکلیف اور زحمت دی ،ڈاکٹر صاحب اس کو دیکھنے گئے اور علاج شروع کیا تو کہا کہ دیکھئے اگر میں پاکستان چلا جاتا تو آپ مجھے کہاں بلاتے اور میں آپ کی خدمت کیسے کرسکتا ،اللہ کا کرنا کہ انہیں کے علاج سے اس کو فائدہ ہوا اور اس کو شرمندہ ہونا پڑا ۔۔۔
بات صاف ہے کہ اگر ہم اپنی اہمیت تسلیم کرانا چاہتے ہیں اور اپنے مقام و منزلت کو بنانا چاہتے ہیں تو اپنے اندر اخصاص نافعیت اور کمال پیدا کرنا ہوگا، ساتھ ہی اس اختصاص کے ساتھ ذہنی اعتدال و توازن اور اخلاص کی بھی ضرورت پڑے گی یعنی پیشہ کے ساتھ وفاداری بھی نرم مزاجی و خوش خلقی بھی ۔۔ بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی رح ،، میں آپ کی ہزار مشکلات کا حل یہ سمجھتا ہوں کہ آپ اپنے زمانہ سے اپنا نافع اور مفید ہونا تسلیم کرا لیجئے آپ اس سے یہ اقرار کرا لیجئے کہ آپ کے پاس جو علم ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے ،دنیا کا قاعدہ یہی ہے کہ جو سودا جس دکان پر ملتا ہے آدمی اس کی خریداری کے لیے وہیں جاتا ہے ،ایک صاحب کمال بھی اس دوسرے صاحب کمال کی طرف رجوع کرتا ہے ،جس کے پاس اپنے دل کا مدعا اور اپنے مرض کی دوا پاتا ہے” ۔۔۔۔۔ حوالہ سابق ۔۔۔۔۔
اب اگر آپ سوال کریں گے کہ بہت سے لوگوں میں اختصاص و اخلاص پایا جاتا ہے ،وہ کسی فن کے ماہر ہوتے ہیں ، ان کی صلاحیت کا لوگ اعتراف بھی کرتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود وہ مارے مارے پھرتے ہیں ، ان کی قدر نہیں کی جاتی ،لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے ، لوگ ان کے فیض سے محروم رہتے ہیں۔ افادہ و استفادہ کی کوئی صورت نہیں نکلتی ۔۔۔
وہ عسرت و بیکاری کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، تو اس کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے اس صآحب کمال کے ساتھ کوئی کمزوری یا مزاجی خرابی لگی ہوئی ہے،جس نے اس کے سارے کمالات، ساری صلاحیتوں اور ہنر پر پردہ ڈال دیا ہے، مثلا غصہ بہت آتا ہے، مزاج میں اعتدال نہیں ہے ،تلون ہے ،کاہلی ہے ،استقامت اور محنت کی کمی ہے ،صبر اور حوصلے کا فقدان ہے ، مزاج میں چڑچڑا پن ہے، لہجہ میں تلخی ہے، محنت نہیں ہوتی ،پڑھانے کو جی نہیں چاہتا ،بے ضابطگی کی عادت پڑ گئی ہے ،کسی کی کوئی بات برداشت نہیں ہوتی، اپنی صلاحیت کے زعم میں کسی کا احترام نہیں، ادب نہیں ،اس سے آگے بڑھ کر مراق ہے، سنک ہے،کسی جگہ ٹہرنے نہیں پاتے ،فورا ان بن ہو جاتی ہے ،ایسی کوئی نہ کوئی بات آپ ضرور پائیں گے جس کی وجہ سے ان کے کمال اور علم سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا اور گوشئہ گمنامی یا کس مپرسی میں دن گزار رہے ہیں ۔۔(مستفاد از کتاب دعوت فکر و عمل ،ص، 207)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ/ اگر یہ تحریر پسند آئے تو دوسروں کو بھی شئیر کریں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے