دینی مزاج و دینداری :ایک معروضی مطالعہ

تحریر : عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے

اس سچائی کودل میں جگہ دیجئے کہ دینداری کا براہ راست تعلق ،ایمان وعقیدےسے ہے اور ایمان و عقیدے کا بلاواسطہ تعلق، اللہ تعالی اور اس کے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق ومحبت سے ہے ،اللہ تعالی اور اس کے پیارے نبی سے حقیقی عشق ومحبت کی بنیاد اللہ اور اس کے آخری پیغمبر کی معرفت وطاعت اور کامل پیروی سے ہے اور کامل معرفت وطاعت۔ دیندار ی،سچی پکی طلب اور دینی مزاج واحساس کے بغیر ناممکن ہے۔

یہ احساس بھی زندہ رہنا چاہئے کہ جو دین، پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کے ذریعےہمیں ملا ہے وہ برحق ومکمل ہے "ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا "اور اس کامل ترین دین کی ہدایات پر سولہ آنہ عمل کرنا ایمانی واخلاقی ایسافریضہ ہے جس سے ہم ایک دن توکیا, ایک لمحہ وسکنڈ بھر کے لئے بھی خود کو آزاد نہیں رکھ سکتے ۔دینی ہدایات کی کامل پیروی، ہماری زندگی کے ایک ایک حصے پر حاوی ہے ،اس سے بالکل الگ ہونا تو دور،لمحہ بھر کے لئے آزاد تصور کرنا بھی بہت بڑا خسارہ ہے ۔دین رحمت سے” آزادی” کی ایسی جسارت بندہ مومن کبھی نہیں کرسکتا ،ہاں وہ کیوں نہیں کرے جس کی زندگی خیر وہدایت سے خالی ہواور جوطاعت ربانی وپیروئ رسول امی صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم ہو۔

خوب سمجھ لیجئے کہ دینی مزاج اور دینداری، ہماری اولین بنیادی ضرورت ہے،اس کے بغیر ہماری نرے”زندگی”تو گذر سکتی ہے ،مگر "اسلامی زندگی” نہیں گذرے گی ،جب کہ اسلامی معاشرت میں ہر کلمہ مومن بندے سے” دینداری” مطلوب و مقصود ہے۔دینداری کے ساتھ زندگی گذارنے کے لئے مزاج بھی” دینی” بنانا ہوگا اور خیال رکھئیے! کہ "دیندار "آپ تب کہلائیں گے جب آپ ایمان کے ساتھ عملی سطح پر”مخلص” بھی ہوں گے، اس لئے کہ جہاں اخلاص نہ ہوگا وہاں بالیقین نفاق وانحراف ہوگا ،مخلص لوگ ہی مقبول ترین بندے کہلاتے ہیں ،جب کہ نفاق ومنحرف ہونےوالے اللہ اور اس کے رسول کی نگاہ کے ساتھ سماج کی نگاہ میں بھی ملعون ومردود کہلاتےہیں ۔ قرآن کریم نے واضح طور پر مخلصین کو احساس دلایا ہے: الاالذین تابو اواصلحوا وعتصمواباللہ واخلصو ادینھم للہ فاولئک مع مؤمنین وسوف یؤت اللہ المؤمنین اجرا عظیما(نساء۔4.146)
"یعنی ہاں وہ لوگ جنہوں نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی اور اللہ سے رشتہ مضبوط کرلیا اور اپنا دین اللہ کے لئے خالص کرلیاتو وہ مومنو ں کے ساتھ ہوں گےاور عنقریب اللہ تعالی مومنوں کو اجر عظیم سے نوازے گا "
ایک حدیث میں سرکار ذی وقار ،کونین کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ان اللہ لا یقبل من العمل الا ماکان لہ خالصا وابتغی بہ وجہہ(نسائی۔3140)
"بے شک اللہ تعالی کوئی عمل قبول نہیں کرتا سوائے اس کے جو خالص ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی رضا طلب کی گئی ہو "
قرآن کریم اسی "رضا "و”طاعت خالص ” کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین (مائدہ )یعنی میری نماز وقربانی اور زندگی وموت سب اللہ کے لئے ہے ۔

جناب نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا وبمحمد نبیا .(مشکواۃ )۔یعنی ایک دین دار مسلمان کو ہر لمحہ ،خوشی وغم ،اجتماعی وانفرادی اور مجمع وتنہائ کے اندر دل میں یہ احساس تازہ رہنا چاہئے کہ وہ اللہ سے راضی ہے چوں کہ وہی اس کا رب ہے اور مذہب اسلام سے خوش رہے کہ اسلام ہی اس کا کامل ترین دین ہے اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں راضی و خوش رہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نبی برحق ہیں اور وہ اس نبی آخر الزماں کی امت ہے۔
مذکورہ بالا بنیادی معروضات کے بعد اس جہت کو بھی سمجھ لیجئے کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین ٫صرف مذہب اسلام ہے ،جو لوگ بھی اسلامی معاشرت سے پہلو تہی کرے گا وہ سرتا پا خسارے میں رہے گا ،قرآن کریم نے اس پہلو کو بھی پوری وضاحت سے صاف صاف بیان کیا ہے :ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلم یقبل منہ وھو فی الآخرۃ من الخاسرین (آل عمران ،3.3)
"یعنی جو کوئی بھی مذہب اسلام کے علاوہ دوسرے کسی بھی دین کو اپنائے گا وہ دین عند اللہ ہرگز مقبول نہیں ہوگا ،بلکہ ایسا کرنے والاآخرت میں خسارے میں ہو گا”
ہمارے سماج میں اسلامی شریعت پر عمل کرنے کے حوالے سےعام طور پر کچھ لوگوں میں ڈنڈی مارنے کا مزاج ہواکرتا ہے ،یعنی” جب جیسا تب تیسا” بھیس بدلنے کا یہ مزاج، کبھی تمنائےغیر کی تکمیل یاخارجی دباؤ کی وجہ سے اور کبھی ذاتی خواہش وچاہت کی وجہ سے بنا کرتا ہے ،لوگ دل کو بہلالیا کرتے ہیں کہ تھوڑی دیر یا تھوڑے دن کا یہ "عذر نامعقول قبول افتد” اس کے پیچھے غرض ،وقتی عزت وکامیابی ہواکرتی ہے ،جب کہ اس سچائی سے منھ نہیں چھپایا جاسکتا ہے :ایبتغون عندھم العزۃ،فان العزۃ للہ جمیعا(آل عمران ،3٫3)
وہ غیروں کی دل جوئی یااندرون ذہن ،عزت نفس کے متلاشی ہوتے ہیں ،حال آنکہ وقتی اور دائمی تمام تر عزتوں کا مالک ایک اکیلا اللہ ہے ،اس کے درکو ٹھکرا کر ،اس کے قوانین و ضوابط کو پس انداز کراور نفاق کی جرئت کے ساتھ دین حنیف سے منحرف ہونے کی بے جا جسارت ۔دیر پا ناکامی ،سراپاذلت اور بدترین مذہب بیزاری ہے۔ایسے ہی ڈنڈی مار مزاج لوگوں سے قرآن مخاطب ہے :ولاتکونوا کالذین نسواللہ فانساھم انفسھم ،اولئک ھم الفاسقون ۔(حشر)جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ "آدھا ادھر آدھا ادھر ” کی خمدار پکڈندی پر چل کر ہم نے اللہ کو چکما دیدیا ،وہ خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ انہوں نے اللہ کو دھوکہ نہیں دیا ہے ،انہوں نے درحقیقت اپنی ذات کو دھوکہ دیا ہے اپنے نفس کو چکما دیا ہے اوراپنی ذات ونفس کے ساتھ چارسوبیسی کی ہے ۔ایسے لوگ جنہوں نے اپنے نفس وذات کو دین طلبی کے تئیں دھوکے میں ڈالا ہے وہ فاسق ومجرم ہیں ،ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔یادرکھئے کہ صاحب جنت اور صاحب دوزخ کبھی برابر نہیں ہوسکتے ،بلکہ صاحب جنت تو بانصیبوں میں ہوں گے،جنت کے بالا خانوں میں ناز ونعم کے ساتھ جئیں گے۔
مسلم معاشرے کی موجودہ صورت حال ،انتہائی ناگفتہ بلکہ نازیبا ہے کہ مسلمان ،دو "ناؤ” پر سوار ہے اور زندگی اور حیات مستعارکی پوزیشن ایسی کہ "رہے نام اللہ کا ” میں یہ نہیں لکھ سکتا کہ وہ منافق ہیں ،مگر یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ نفاق کی راہ پر چل رہے ہیں، ایسے لوگوں کا ذہن صبح کچھ ،شام کچھ ،تنہائی میں کچھ ،مجمع میں کچھ ،دن میں کچھ ،رات میں کچھ ۔اور لکھنے کی یہ جرئت دیجئے کہ ایسے لوگ ہر آبادی میں محض دوچار فیصد نہیں ہیں ،بلکہ آبے کا آبہ یہی کیفیت ہے ،وہ مسلمان ہیں ،مگر اسلام کا پتہ نہیں ،وہ دفن کفن کے وقت”مرتا کیا نہ کرتا” اصل اسلام کے مطابق تجہیز وتکفین کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ورنہ عمومی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ مدارس سے تعلیم،مساجد سے تبلیغ خانقاہوں سے تربیت اورکتب خانوں سے کتابوں کی نشر واشاعت کا کام برابر ہو رہا ہے ،مگر اصلاح وعمل کاحقیقی اور مخلصانہ داعیہ ،عام مسلم آبادیوں میں دن بہ دن ناگفتہ ہوتا جارہا ہے۔
لوگوں کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ” دینی بیداری” کا رجحان پہلے سے کئی گنا بڑھا ہے ؟ یقین کیجئے کہ مدارس ومساجد کی تعداد ،مدرسوں میں بچے اور مساجد میں نمازیوں کی تعدا د یا دیگر مواقع پر حج وعمرہ وغیرہ میں "جھکاؤ "ہوا ہے ,دینی مزاج یا اندرون خانہ دین دارانہ ماحول میں رنگ "چوکھا ” نہیں ہوسکا ہے ،دین داری اور دینی مزاج کے معاملے میں لوگ مخلص نہیں ہیں،اسی لئے اچھےاچھے "جبہ و دستار صفت ” بھی بوقت ضرورت ،حسب چاہت پلٹی مار دیتے ہیں ،اور ایسا کچھ کرجاتے ہیں کہ "سارا گن گوبر "
معاف کیجئے گا ! ہماری مسلم آبادیوں میں لوگ ولیمہ بڑی خاموشی سے کرگذرتے ہیں اور ختنہ ذرا دمدار انداز میں ،عقیقہ ندارد ،مگربچیوں کی "کن چھیدی” ذرا سلیقے اور طریقے سے ہوتی ہے،بسم اللہ خوانی خاموش پیرائے میں اور چھٹی کی رسم ،خوش کن انداز سے، شادیوں کے اندر” مہر” متعین کرتے وقت ،اسلام شدت سے یاد آتا ہےکہ اسلام نے حیثیت سےزیادہ مہر باندھنےکو ناپسند کیاہے، مگر دیگر امور انجام دیتے وقت ذہن میں یہ بات رہتی ہے کہ ” اسلام "میاں کو اپنے پالے میں کرلیں گے۔اپنی ذات سمیت بچوں کے معاملے میں بھی” دنیا ” ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی لت پڑگئی ہے،مگر باری جب "دین” اور” دینداری” کی آتی ہے توحیلے ،بہانے ،مجبوریاں ،کمزوریاں ،بےچارگی ،افسردگی اور نہ جانے کیا کیا "خاکم بدہن "

نظر اٹھا لیجئے!شادیوں ،عیاشیوں ،تعلیمی اداروں کی تنظیم وبقا،ضروت مندوں ،غریبوں ،بیماروں اور حاجت مندوں کی اشک سوئی کے مواقع کے علاوہ کہیں بھی مسلم گھرانوں کی غربت آپ کو دیکھائی نہیں دے گی،جب جب بات اسلام اور اسلام کو ماننے کی آئے گی ،بہت سے دین بیزار لوگ مل جائیں گے۔جو باتیں بناتے ،مداہنت کرتے اور آخرت سے غافل ،دنیای جمال وکمال پر جری دیکھائی دیں گے۔

زندگی میں بعض مرحلے ایسے ہوتے ہیں جہاں انسان عزیمت پر عمل کرنے سے معذور ہوتا ہے ،مگر اس کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ ہمیشہ رخصت کو بنیاد بنا کر انحراف دین سے کام چلا یا جائے ،بلکہ ڈھیٹ اور ہٹ دھرمی کی حد تک مذہب بیزاری کی راہ اپنائی جائے اور اپنے طرز عمل سے تعلیمات اسلامی کو بدنام کیا جائے ، مسلمان ہوکر تقوی پسند، پرہیز گار اور خوددار وغیرت مند ایمانداروں کامزاح بنایا جائے ۔خواہش نفس اور مکر وفریب کی راہ سے دین سے دوری اختیار کرنا یا دین اسلام کو رسوم ورواج میں جکڑ کر اس کی حقیقی شبیہ کو بگاڑنا اور حیلے بہانے سے خود کو عمل سے دور رکھنا اور بہانے بنانا کہ ہمیں دین پر عمل کرنے سے عذر ہے ،یہ اخلاص نہیں، نفاق وانحراف ہے جو موجب خسران اور رب ذوالجلال کے غضب کو دعوت دینے والامنفی عمل ہے
حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ نے کتنی قیمتی بات ارشادفرمائی ہے :
حفاظت اسلام کے نعرے تو بہت بلند کئے جاتے ہیں ،مگر عملی پہلو سے ہم خود گریزاں رہتے ہیں ،اسلام کوئی مجسمہ نہیں جس کی حفاظت کے لئے کسی لاؤ لشکر کی ضرورت ہو ،آپ اپنے اندر اسلام سمو لیجئے ،آپ بھی محفوظ ہو جائیں گے اور اسلام بھی محفوظ ہو جائے گا ۔(ڈیجیٹل امیج سے ماخوذ )
مسلمانوں کے طرز عمل کے حوالے سےحضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی بانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کرب وبے چینی کو بھی پڑھ لیجئے!” "ہمارے اعمال جن سے اسلام کی بہترین تبلیغ ہوسکتی ہے کتنے کمزور ہیں۔ عام طور پر اسلامی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ،چند رسم ورواج ہیں ،جنہیں مسلمانوں نے اپنا رکھا ہے ،دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہی اسلام ہے،ہمارے یہ اعمال ہمارے لئے نقصان دہ ہیں ،اس زندگی کے لئے بھی نقصان دہ ہیں،اور آنے والی زندگی کے لئے بھی اور ساتھ ساتھ اسلام کے لئے بھی "(خطبات امیر شریعت,ص:140)
حضرت مولانا رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی زندگیوں میں بڑی ناہمواریاں نظر آتی ہیں ،ایک طرف تو عبادات کے لحاظ سے گرچہ ان کا معیار بلند ہے ،لیکن دوسری طرف ان کے اندر ایسی خرابیاں اور برائیاں پائی جاتی ہیں ،جن کی برائی کا احساس بھی شاید ان سے رخصت ہوچکا ہے ،مسلم سماج میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن سے اس بات کو اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے ،مثلا ایک آدمی ہے جو روزہ ونماز کا پابند ہے مگر وہ رشوت بھی لے رہا ہے ،ایک طرف وہ ذکر وتلاوت کررہا ہے مگر اسی کے ساتھ وہ دوسروں کو دھوکہ بھی دے رہا ہے اور لوگوں کا مال ہڑپ رہا ہے ،ظاہر بات ہے ایسی صورت میں دین کی ظاہری صورتوں کا ذاتی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا اور نہ ہی اسلام کے حسین گلدستہ کی خوبصورتی باقی رہ سکتی ہے "( پندرہ روزہ ،تعمیر حیات ،جلد نمبر 61. شمارہ نمبر 15-16،مطبوعہ جون 2024)

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے