تحریر: (مفتی)…محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
ہم جس سماج میں رہتے ہیں، جن دفاتر میں کام کرتے ہیں اور جن لوگوں سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے ان میں مختلف عمر، مختلف صلاحیت اور مختلف کاموں پر مامور لوگ ہوتے ہیں،ا ن میں بڑے بھی ہوتے ہیں، چھوٹے بھی، ان میں عالم بھی ہوتے ہیں، غیر عالم بھی ، ان پڑھ بھی ہوتے ہیں اور جاہل بھی ، سب کو لے کر چلنا اور سب سے رشتوں کو بر قرار رکھنا ایک مشکل امر ہے ، اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کو یاد رکھا جائے تو یہ کام آسان ہو جاتا ہے ، ارشاد فرمایا : جوچھوٹوں پر رحم نہ کرے، بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔
ساری پریشانی یہیں سے شروع ہوتی ہے اور رشتوں کے ٹوٹنے اور بننے کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھا جاتا ، دفتری جو ڈسپلن ہے اسے نہیں برتا جاتا تو رشتوں میں کھٹاس پید اہوتی ہے اور قلبی محبت جو انسانیت کے نقطہ نظر سے ایک دوسرے کے درمیان ہونی چاہیے، وہ نہیں ہو پاتی ہے ، اب شرطی اور چپراسی جنہیں ہندی میں ’’آدیش پال‘‘ کہا جاتا ہے اور جو ان کی ذمہ داریوں کو بتانے کے لیے بہت واضح لفظ ہے ، حکم کی تعمیل سے کترانے لگیں، کام بتائیے تو بڑ بڑانے لگیں، اگر آپ گیٹ سے داخل ہو رہے ہوں اور وہ کرسی پر براجمان ہو توآپ کی مدد کے بجائے دیکھ کر رفو چکر ہو جائے ، آپ کھڑے ہوں اور وہ کرسی پر براجمان ہو تودفتری ڈسپلن باقی نہیں رہتا ہے اور احساس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی کر رہے ہیں اور اگر دفتری نظام کو ڈسپلن کے ساتھ جاری رکھنا ہے، تو اس طریقہ کار کو یقینا بدلنا ہوگا۔
ایساہی معاملہ نئی نسل کے لوگوں کا ہے ، ان کے نزدیک بڑوں کے احترام کی معنویت ختم ہو گئی ہے۔ وہ اتنے زور سے آپ سے بات کریں گے ، یا مجلس میں اس طرح خوش گپی میں مشغول ہوں گے جیسے آپ ان کے ہم عمر ہوں ، آپ کا وہاں پر موجود ہونا ان کو کسی قسم کی گفتگو سے مانع نہیں ہوتا، آپ کویہ گفتگو گراں بار ہو رہی ہو تو آپ خود وہاں سے ہٹ جائیے، لیکن وہ اپنی گفتگو بلکہ غیر مہذب انداز کے شور وغل سے باز نہیں آسکتے۔وہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے مجلسیں ’’مچھلی ہٹا‘‘ کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں ، اور سارا ڈسپلین دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔
پیشہ وارانہ اور دفتری تعلق کی بات کریں تو دو الگ الگ نسل کے لوگ آپس میں مضبوط دفتری تعلق نہیں بناپاتے ، اس کی ایک وجہ آپسی بد گمانی ہوتی ہے ، سینئر کو اپنی سوپر میسی اور بر تری کی فکر ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو اوپر دیکھنا اس لیے پسند نہیں کرتے کہ اس سے ان کی نفسیاتی بر تری پر زد پڑتی ہے، جونیر کارکنوں اور افراد کو یہ بد گمانی ہوتی ہے کہ یہ ہماری ترقی کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ حفظ مراتب کا خیال رکھا جائے ، ایک دوسرے کی ذمہ داری اور عہدوں میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ رکھا جائے اور پھر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر آگے بڑھاجائے۔
اس کے لیے پہلے خود اپنا محاسبہ کریں کہ اپنے اندر کہاں کہاں کمی ہے ، ہو سکتا ہے کہ اپنے بڑوں کے بارے میں جو آپ کی سوچ ہے وہی بے بنیاد ہو یا پھر اگلا جو حرکت کر رہا ہے وہ اپنی طاقت وقوت کے اظہار کے لیے اسے ضروری سمجھ رہا ہو ، یا پھر جو باتیں آپ سے ان میں الگ ہیں وہی باتیں ذمہ داروں کی طاقت اور بڑائی کا سر چشمہ ہوں، اس لیے ہر طرح سے پہلے خود کو ہی جانچ اور پرکھ لینا چاہیے کہ کہیں آپ غلط تو نہیں ہیں۔
ایک طریقہ سماج میں یہ بھی رائج ہو گیا ہے کہ اپنے بڑوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ان کی ہاں میں ہاں ملایا جائے اور جی حضوری کی جائے، بقول مولانا مناظر حسن گیلانی بہت سارا کام ’’بمد خوش کرنی‘‘ کیا جاتا ہے ، جس سے سماج کو، تنظیم کو ،اداروں کو ،جماعت کو، جمیعت کو،کمپنیوں اور اداروں کو نقصان پہونچتا ہے، امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ کا قول ہے کہ ملت کو سب سے زیادہ نقصان خوشامد کرنے والوں نے پہونچایا ہے، ان کی خوشامد کی وجہ سے قائدین حقیقی صورت حال تک نہ پہونچ سکے، اور خلاف واقعہ احکامات جاری ہوتے رہے ، اس لیے ’’ورک کلچر‘‘ پر یقین رکھیے، اپنی خود اعتمادی میں کمی ہو تو دوسروں کی مدد لینے سے بھی گریز نہ کیجئے، خود اعتمادی ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے آپ اپنے بڑوں کو مطمئن کرسکیں گے، اگر آپ کے اندر کوئی کمی ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لیے دوسرے کی ضرورت ہے تو اس کو انا کا مسئلہ نہ بنائیے ، دوسروں سے مدد لیجیے اور ان کے مشوروں کو تجربات کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھیے۔
انسانیت کو اپنے رشتہ کی بنیاد بنائیں، ہر چھوٹے بڑے معاملات میں عزت نفس ،خودی وخود داری کو حائل نہ ہونے دیں، ہر کام میں انا اور خود داری کا جذبہ سماج ،گھراور دفتر میں آپ کی خراب تصویر پیش کرے گا، اور لوگوں کی رائے یہ بنے گی کہ آپ انتہائی مغرور اور مزاجاً متکبر ہیں۔ اپنے بڑوں سے بات کرنے میں ان کی عزت نفس کا ضرور خیال رکھیں،اور بڑے بھی آپ کے ساتھ شفقت ومحبت کا برتاؤ کریں، معاملہ دو طرفہ ہوگا تبھی آپ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو صحیح سے ادا کر سکیں گے اور ذمہ داروں کے لیے شکایت کا موقع نہیں فراہم کریں گے، اس لیے اپنی بات پورے ادب واحترام کے ساتھ رکھیے، کوشش کیجئے کہ آپ کی بات سنی جائے اگر نہ سنی گئی تو آپ عند اللہ اور عند الناس ماخوذ نہیں ہوں گے ، اگر آپ کسی مہم میں کامیاب ہو گیے ہیں تو اس پر اترا ئیے نہیں اور دوسروں کی کامیابی پر حسد نہ کیجئے کیوں کہ حاسد خود اپنی آگ میں جل کر ذہنی ، دماغی، بلکہ جسمانی طور پر بھی کبھی کبھی خاکستر ہو جاتا ہے ۔
اپنے وقت کا صحیح استعمال کامیاب زندگی گذارنے میں بڑا معاون ہوتا ہے۔ یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں، ایک وقت کی پابندی اور دوسرا وقت کا صحیح استعمال ، وقت کی پابندی سے آپ کا بھی فائدہ ہے اور دوسرے کا بھی ، آپ نے وقت کی پابندی نہیں کی، کوئی آپ کے دیے ہوئے وقت پر انتظار کر رہا ہے ، ایسے میں آپ نے اس کا بھی وقت ضائع کیا ، اگر آپ کسی اسکول میں استاذہیں اور صرف پانچ منٹ لیٹ آئے ، آپ کے لیے یقینا وہ پانچ ہی منٹ ہے، لیکن کلاس کے ہر بچے کا پانچ پانچ منٹ ضائع ہوا، سوچیے کس قدر وقت ضائع ہوا۔
جولوگ بھی آج آپ کو کامیاب نظر آتے ہیں، انہوں نے وقت کی پابندی بھی کی اور وقت کا صحیح استعمال بھی کیا ، ہم کتنا وقت فضول گپوں اور ایک دوسرے کی غیبت میں ضائع کرتے ہیں، کام بھی کچھ نہیں ہوتا ہے اور غیبت کا گناہ الگ سے سر پڑجاتا ہے۔
بڑوں کی بات سننے کا مزاج بنائیے، تمام تعلیمی نظام میں بولنا سکھایا جاتا ہے ، لیکن اسی اہمیت کے ساتھ سننا نہیں سکھایا جاتا ہے ، حالاں کہ اللہ رب العزت نے ہمیں ایک زبان دوکان عطا فرمائے ہیں، تاکہ ہم کم بولیں، زیادہ سنیں، سننے کا یہ مزاج نئی نسل میں ختم ہو تا جا رہا ہے اب وہ اپنے بڑوں کی تقریر بھی نہیں سنتے اور نہ بڑوں کی کتابوں کے پڑھنے کے لیے ان کے پاس وقت ہے ، اس لیے نئی نسل کے بیش تر جوانوں کے علم میں کمی ہوتی ہے اور جن کے پاس علم ہوتا ہے ان میں گہرائی اور گیرائی کی کمی محسوس کی جاتی ہے ۔کیوں کہ اس کے پیچھے نہ تو مطالعہ کی قوت ہوتی ہے اور نہ ہی بڑوں کے علم سے اکتساب۔
کچھ وقت تنہائی میں بھی گذاریے، صوفیا کے یہاں مراقبہ کی اہمیت اسی لیے ہے کہ آدمی خود کو تنہا محسوس کرے اور تنہائی کا یہ احساس اسے قبر کی تنہائی تک پہونچا دے تاکہ وہ اپنی آخرت سنوارلے۔حضرت امیر شریعت سابع مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانیؒ فرمایا کرتے تھے ، آپ جس کام پر مامور ہیں اور جس ادارے میں کام کرتے ہیں اس کے بارے میں فارغ وقت میں سوچتے رہیے تاکہ نئے نئے منصوبے اورکرنے کے نئے نئے کام آپ کے ذہن وخیال میں آسکیں، اس انداز میں سوچنے اور کام کو آگے بڑھانے کے لیے تنہائی سے بہتر کوئی موقع نہیں ہو سکتا۔
اس طرح زندگی کا نظام الاوقات بنائیے کہ کوئی لمحہ آپ کی زندگی کا ضائع نہ ہو ، سفر کے دوران بھی کوشش جاری رکھیے کہ کسی کام میں وقت لگ جائے ، کتابوں کے مطالعہ اور کمپوز شدہ مواد کی پروف ریڈنگ کے لیے یہ بہتر موقع ہوتا ہے ، ہمارے عہد کے بڑوں نے تو ہوائی جہاز پر بیٹھ کر کتابوں کی تصنیف کا کام کیا ہے ۔ مشہور ہے کہ علامہ اقبال کے استاذ پروفیسر آرنلڈ کا پانی جہاز بھنور میں پھنس گیا، پورے جہاز میں افراتفری مچ گئی ، ہر آدمی ہراساں وپریشان نظر آرہا تھا، لیکن پروفیسر آرنلڈ انتہائی انہماک کے ساتھ کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھے، ان کے قریب بیٹھے ایک شخص کو اس پر بڑی حیرت ہوءی ، پوچھنے پر پروفیسر آرنلڈ نے بتایا کہ ہم جہاز کو بھنور سے نکال نہیں سکتے، ڈوبنے سے بچا نہیں سکتے تو کیوں نہ اس وقت کو مطالعہ میں لگائیں، جہاز بچ گیا تو یہ مطالعہ کام آجاءےگا ، ڈوب گیا تو یہ افسوس نہیں رہے گا کہ ہم نے زندگی کے بچے ہوئے قیمتی لمحات کو ضائع کر دیا۔
یہ چند امور ہیں،جن پر عمل در آمد کرکے ہم اپنی خانگی،سماجی اور دفتری زندگی کو خوش گوار بنائے رکھ سکتے ہیں، تمام طرح کے ٹینشن سے محفوظ ہونے کی وجہ سے آپ بھی خوش وخرم رہیں گے اور آپ کی بیوی، بچے، پڑوس اور آپ کے رفقاء بھی ۔ عمل شروع کیجئے، افادیت خود سمجھ میں آجائے گی۔