ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر غور کریں!!

تحریر: جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

جتنی چاہیں جذباتی تقریریں کرلیں ، کانفرنسیں کرلیں، آج وقف کی جائیداد کی اہمیت وفضیلت بیان کرلیں ، سوشل میڈیا پر لائک و کمنٹ کے ساتھ شیئر کرلیں اور ای میل کرلیں مگر ایک سچائی یہ بھی ہے کہ راستہ تو ہم نے ہی دیکھایا ہے-
وقف کی ہوئی اراضیات کو غریبوں میں تقسیم کر دیا جاتا تو اج ایسی بدترین صورتحال سامنے ہرگز نہ اتی اور مسلمانوں کا موقف مستحکم ہو جاتا۔۔۔۔۔۔بے دینی، پسماندگی ، غریبی، بیروزگاری اور جہالت کی وجہ سے بھی مسلم طبقہ مسائل سے دو چار ہے۔۔۔۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ بعض مسلم قائدین نے اوقاف کی اراضی پر اپنے قبضے جمائے ہوئے ہیں اور بعض نے ان املاک کو غیر مسلم سیاست دانوں کو حقیر سیاسی مفادات کی بناء پر کوڑیوں کے دام فروخت کر دیا ہے۔
بھارت میں ریلوے کے بعد سب سے زیادہ پراپرٹی وقف کی ہے اور یہ مسلمانوں کی ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس سے ہم بیواؤں کو پینشن دیں گے مدارس ، اسکول و کالج اور یونیورسٹیاں قائم کریں گے ،قبرستانوں کو سدھاریں گے ، اسپتالوں کی تعمیر کریں گے اور غریبوں کا مفت میں علاج کا انتظام کریں گے ، غریبوں کی مدد کریں گے وغیرہ وغیر –
اب سینے پر ہاتھ رکھ کر غور کریں کہ وقف کی جائیداد سے ہونے والی آمدنی سے ہم نے کوئی یونیورسٹی بنوائی ؟ اسکول و کالج اور مدرسہ بنوایا ؟ اسپتال بنوایا؟ وقف کی اراضی کی آمدنی سے زکاۃ و خیرات کے مستحق افراد کی امداد کرکے اسے زکاۃ و خیرات کی رقم لینے کے بجائے خود زکاۃ و خیرات دینے کے قابل بنایا؟ وقف کی آمدنی سے کیا بیواؤں کو پینشن دیاگیا ؟ ریاکاری کے بغیر غریبوں کی بیٹیوں کی اجتماعی شادی کا انتظام کیا گیا ؟ بڑی بڑی درگاہوں خانقاہوں میں مریدین کے علاج کے لئے اسپتال بنوایا گیا ؟ کہیں کچھ تو نظر نہیں آتا ہے ،، اگر یہ سب کچھ کیا گیا ہوتا تو آج ہر جامع مساجد کے دروازے پر نقاب پوش خواتین بھیک مانگتی نظر نہیں آتیں ، آئے دن نقاب و حجاب کا مسلہ کھڑا نہیں ہوتا ، مسلمان تعلیم میں پیچھے نہیں ہوتا ، غیروں کو بھیک مانگنے کے لئے مسلمانوں کا حلیہ اختیار کرنے کا موقع نہیں ملتا ، معاشرے میں اتنی برائیاں نہیں پھیلی ہوئی ہوتیں ، جوان بہن بیٹیاں گھروں میں بیٹھ کر رشتوں کے لئے آنکھوں سے آنسو نہیں بہاتیں –

ایک اور بہت خاص بات یہ ہے کہ جس کی آبادی زیادہ ہے ظاہر بات ہے کہ اس کے ای میل کی تعداد بھی زیادہ ہوگی مسلمانوں کی تعداد 20 سے 25 کروڑ بتائی جاتی ہے اور ہنگامہ کیا جارہاہے کہ مسلمانوں کا ای میل بہت کم ہے ہندؤں کا ای میل بہت کافی ہے جبکہ ایک ایک مسلمان ای میل کردے تب بھی مسلمانوں کے ای میل کی تعداد کم ہی ہوگی کیونکہ مسلمانوں کی آبادی ہندو کے مقابلے میں کم ہے تو ایسی صورت میں جب جے پی سی تشکیل دی گئی اور رائے مانگنے کی بات جب آئی اسی وقت اعتراض کرنا چاہئے تھا کہ وقف کا معاملہ صرف مسلمانوں کا ہے تو پھر ایسے میں ہندؤں سے رائے مانگنے کا کیا مطلب ؟ اس سے تو حکومت کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے یہ مسلمانوں کے وقف کی جائیداد کو نقصان پہنچانے کا پہلے ہی ثبوت دیا جارہاہے، یہ بے ایمانی کی ابتداء ہے کوئی ایسی چیز ہو جس پر کسی ایسے شخص ،ایسی جماعت اور ایسے لوگوں سے رائے مانگا جائے کہ بتاؤ اس منصوبے میں آپ کی کیا رائے ہے جبکہ اس چیز سے اس کا دور دور سے واسطہ ہی نہیں ہے ، اس کا حق نہیں ہے تو یہ سراسر ہٹ دھرمی ہے اور غاصبانہ قبضہ کئے جانے کی سازش ہے، اور مسلمانوں کا سرمایہ لوٹنے کی سازش ہے ،، اسی دوران ایک مولانا صاحب کا ویڈیو وائرل ہوا وہ کہتے ہیں کہ جے پی سی کو رائے دینے کا حق ہر ہندوستانی کو ہے یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے ،،اب آگے کچھ تلخ باتیں جو سچائی پر مبنی ہیں اور سوالیہ انداز میں ہیں یاد رکھیں میں جو دیکھتا ہوں وہی لکھنے کا عادی ہوں اب چاہے کسی کے خلاف جائے یا موافقت میں جائے یہ بات چیخ چیخ کر کہا جارہا ہے کہ وقف سے متعلق نیا قانُون نافذ ہونے کی صورت میں بہت سارے مدارس و مساجد اور خانقاہوں پر حکومت قبضہ کرلے گی تو اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اب تک کتنے مدارس میں ای میل مہم چلایا گیا؟ کتنے مدرسین نے اپنے شاگردوں سے ای میل کرایا؟ کتنے مدارس کے ذمہ داران نے عوامی رابطہ کرکے ای میل کرنے کی اپیل کیا؟ اب تک کتنی خانقاہوں کے پیروں ، جانشینوں؟ سجادہ نشینوں نے حجرے سے باہر قدم نکالا؟ اور اپنے مریدین سے ای میل کرایا ہر طرف تو خاموشی نظر آتی ہے کیا صرف چند دانشوروں کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ آواز اٹھائیں باقی لوگ اپنے حجرے کو آباد رکھیں اپنی مسند کو آباد رکھیں ،، حقیقت بات تو یہی ہے کہ جب وقف کے معاملے کو شریعت اور مذہب کا معاملہ بتایا جارہا ہے تو جہاں اوقاف کی املاک کے تحفظ کی ذمّہ داری ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے تو وہیں جو جتنی بڑی شخصیت ہے اس کے اوپر اور زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وقف کی جائیداد کو برباد ہونے سے بچانے کے لئے اپنے آپ کو وقف کردے ورنہ یاد رکھیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی اور صرف غریب کمزور مزدور مسلمان ہی بارگاہ خداوندی میں جوابدہ نہیں ہوگا بلکہ آپ بھی جوابدہ ہوں گے،، دوسری بات کہ آج وقف کی زمین پر جو دفاتر بنے ہوئے ہیں یہ کس نے اجازت دی؟ کون لوگ وقف کی جائیداد پر قبضہ کئے ہوئے ہیں اور کس کی شہ پر کس کے اشارے پر قابض ہیں کون لوگ ہیں جو ضمیر فروشی کررہے ہیں قوم کو اندھیرے میں رکھ کر جذباتی رو میں بہاتے رہتے ہیں مزدور کل بھی مزدور تھا اور آج بھی مزدور ہے ان تمام سوالوں کا جواب کون دے گا ؟ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ای میل مہم قابل خیر مقدم ہے مگر مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی وقف کی جائیداد کے نگراں و متولیان کی خبر گیری کرنا چاہئے۔
میں جانتا ہوں کچھ لوگ کہیں گے کہ آج اس طرح کی بحث و مباحثہ کرنے کا موقع نہیں ہے بس وقف کی جائیداد کو بچانے کے لئے ای میل کریں ،، میں ای میل کرنے کا مخالف نہیں ہوں بالکل ای میل کریں مگر ذہن میں یہ بات بھی رکھیں کہ ہماری ہی ایک تنظیم کے علماء نے ملک کی آزادی کے بعد اپنا جھنڈا ڈنڈا ایک سیاسی پارٹی کے حوالے نہ کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے کا موقع نہیں ملتا اور آج بھی یہ بات ذہن میں جمالیں کہ اوقاف کے تحفظ کے لئے ، ہجومی تشدد روکنے کے لئے ، مساجد ومدارس کی حفاظت کے لئے ، دینی و ملی تشخص بچانے کے لئے سیاست میں حصہ لینا ہوگا ، آئین نے جو حق دیا ہے اس کی روشنی میں خود کا جھنڈا بینر ہاتھوں میں تھامنا ہوگا اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے