تحریر: پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال
دنیا ابتلاء اور آزمائش کی آماجگاہ ہے، آئے دن مختلف طرح کے فتنے یہاں رونما ہوتے ہیں انہیں فتنوں میں سے دور حاضر کا ایک اہم فتنہ شکیل بن حنیف ہے جس نے چند برسوں پہلے خود کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ذیل کے سطور میں مختصرا اس کا سوانحی خاکہ اور اس کے فرسودہ عقائد و نظریات پیش خدمت ہیں۔
تعارفی خاکہ
نام شکیل اور ولدیت حنیف ہے۔
پتہ: ضلع دربھنگہ، صوبہ بہار کی ایک بستی عثمان پور کا رہنے والا ہے۔
تعلیمی پس منظر:
علمی صلاحیت و لیاقت یہ ہے کہ اس نے بعض عصری ادارے میں تعلیم حاصل کی ہے اور کمپیوٹر انجینئر ہے ، ملازمت کی تلاش میں دہلی آیا اور یہیں پر وہ ایک دینی جماعت سے بھی وابستہ ہوا ، لیکن عیاش دماغ ، ذہنی دیوالیہ پن ، عقل کا بگاڑ اور عہدہ کی حرص و ہوس کی وجہ سے اس نے بعض بھولے بھالے اورسیدھے سادے انسانوں کو اپنا ہمنوا بنانا شروع کیا اور بالآخر اپنے بارے میں طرح طرح کے دعوے کرنے لگا ، یہ شخص ۲۰۰۴ء سے اپنے گمراہ افکارو خیالات لوگوں میں پھیلا رہا ہے۔
عقائد و افکار:
(1) امام مہدی ہونے کا دعویٰ ۔
(2) عیسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ۔
(3)امریکا اور فرانس کو دجال کا اعتقاد۔
(4)مہدی اور عیسی علیہ السلام کے متعلق وارد احادیث صحیحہ کی تکذیب۔
(5) صحیح احادیث کی غلط تاویل و توضیح۔
دائرہ عمل
۱) سب سے پہلے اس نے ضلع دربھنگہ کے مختلف کالجوں اور اسکولوں میں پڑھنے والوں میں دین اور علماء سے دور رہنے والے بچوں کے مابین اپنے غلط خیالات کو پہیلانا شروع کیا
(۲) بھارت کی راجدھانی دہلی میں اس نے امام مہدی ہونے اور مسیح یعنی عیسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا۔
دہلی کے مختلف محلوں میں اس نے مہدویت یعنی امام مہدی اور مسیحیت یعنی عیسیٰ علیہ السلام ہونے کی تبلیغ کی۔
(۳) دہلی میں محلہ نبی کریم کو اس نے اپنا مرکز بنایا پہر دہلی کے مختلف تعلیمی گاہوں کے بچوں کو نشانہ بنایا لیکن جب لوگوں کو اس کی اصلیت کا پتہ چلا تو وہ دہلی کے اندر اپنا ٹھکانہ بدلتا رہا۔
(۴) اب اخیر میں اس نے مہاراشٹر (انڈیا) کے اورنگ آباد کے’’رحمت نگر‘‘میں نہ صرف اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے بلکہ مستقل ایک گاؤں بسا لیا ہے ، (جس میں وہی شخص سکونت اختیار کر سکتا ہے جو اس شکیل بن حنیف کا متبع ومنقاد ہو۔) اور پھر وہ اپنے مشن میں لگا ہوا ہے۔ لگ بھگ دس سال سے زائد عرصے سے وہ محنت کر رہا ہے۔
فی الحال دہلی، بہار، یوپی، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش اور آندھرا پردیش وغیرہ میں اس کے فتنے میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ آچکے ہیں۔ بہار اس کے فتنے سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔اور یہ فتنہ سیلاب اور طوفان کی طرح بڑھتا جارہا ہے ۔
یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ اب دس ہزار سے زائد لوگ اس فتنے کے شکار ہوچکے ہیں ۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: فتنۂ شکیل بن حنیف ،مولاثناء اللہ شبیر محمدی مدنی :صفحہ نمبر:۱تا۵)
شکیلیوں کی شکل و شباہت
شکیلی لوگ اپنا چہرہ مہرہ اور بناؤ سنگار ایسا رکھتے ہیں کہ دیکھنے والا انہیں سب بڑا متبع سنت اور اللہ والا تسلیم کرلے۔ لمبی داڑھیاں ، لباس میں لمبے کرتے ، ٹخنے سے اونچی شلوار، گفتگو میں بار بار ’’الحمد للہ، سبحان اللہ،ما شاء اللہ،ان شاء اللہ‘‘ جیسے دعائیہ جملوں کو بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
افکار اور طریقۂ دعوت
(1) شکیلی پہلے لوگوں کو اپنے فریب میں پہنسا کر پہلے انہیں صوبائی امراء کے پاس پلبھیجا جاتا ہے پہر کچھ دنوں بعد مہاراشٹر کے "اورنگ آباد” جہاں شکیل بن حنیف سکونت پذیر ہے بھیج کر ان سے شکیل بن حنیف کے ہاتھ پر بیعت کرواتے ہیں اور بیعت سے پہلے اپنا نام تک نہیں بتاتے ہیں۔
2) شکیلی اسلامی احکام اور دینی تعلیمات سے دور اسکول اور کالج کے ان طلبہ کو نشانہ بناتے ہیں جنہیں کتاب وسنت کا معمولی علم بھی نہیں ہوتا۔ ان کے سامنے سب سے بعض معمولی دینی مسائل کو پیش کرتے ہیں اور پہر دھیرے دھیرے ان میں اپنے غلط افکار نیز قیامت کی نشانیوں پر بات شروع کرتے ہیں اور قیامت کی نشانیوں سے مراد نئے نئے انکشافات، نئی نئی ایجادات بتلاتے ہیں۔
علماء اسلام کے متعلق شکیلیوں کی رائے
شکیلیوں کا کہنا ہے کہ علماء کو قیامت کی نشانیوں کے بارے میں کچھ جانکاری نہیں ہے حتي کہ علماء کو قیامت کی نشانیوں کے بارے میں پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ ان کو صرف حدیث کی کتابوں سے چند وہ حدیثیں پڑھائی جاتی ہیں جن کا تعلق نماز ، روزے، حج ، زکوٰۃ ، نکاح اور طلاق جیسے مسائل سے ہوں تاکہ وہ مسجد کے امام اور مدرسہ کے مدرس بن سکیں۔
دجال کے متعلق رائے
دجال کے بارے میں من گھڑت واقعات بیان کرکے سامنے والے کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ امریکہ اور فرانس کو دجال قرار دیتے ہیں۔
مزید کہتے ہیں کہ جب دجال دنیا میں موجود ہے تو دجال کے بعد امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام کو آنا تھا تو وہ آچکے ہیں اور دونوں (امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام ) ایک ہی آدمی ہیں، دونوں الگ الگ نہیں ہیں، اور اب نجات اسی میں ہے کہ ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں ۔
اسباب تدارک
*سب سے پہلے ہم اپنی ذاتی اصلاح کریں۔
*گھر کا ماحول دینی بنائیں۔
*خود کو اور اپنے بچوں کو شرعی تعلیم سے جوڑیں.
*علماء اسلام سے اپنے تعلقات کو مضبوط و استوار کریں.
*پڑھے لکھے حضرات اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے اپنے قلم کو حرکت دیں۔
*دینی و ملی اداروں کے ذمہ داران اور سربراہان اپنے ماتحت دعاة اور علماء اور خطباء کو جلسوں ، کانفرنسوں، دعوتی و اصلاحی پروگراموں نیز خطبہ جمعہ میں ایسے موضوعات پر خطاب اور مقالہ نویسی کا پابند بنائیں اور حتی المقدور اپنے علماء کی حوصلہ افزائی کریں.
*مساجد کے ٹرسٹیان اپنے ائمہ کو حسب بساط مساجد ہی میں دعوتی دروس کے اہتمام کی ترغیب و تشویق دلائیں۔ نیز منبر ومحراب کی زینت ہمہ شما کو بنانے سے پرہیز کریں۔
*مدارس کے طلبہ کے لئے مدراء جامعات معاصر فتنوں جیسے قطبیت ، اخوانیت و مودودیت ، پرویزیت ، احمدیت، شکیلیت وغیرہ کی آگاہی کے لئے محاضرات کا انعقاد کریں۔ نیز طلبہ کو معاصر فرقوں اور ان کے اہداف و مقاصد سے آگاہی کے لئے مذکرات کو ترتیب دے کر طلبہ کو مطالعہ کا پابند بنائیں اور طلبہ کا امتحان لے کر ان کی حسب بساط حوصلہ افزائی فرمائیں۔
*مدارس کی ذیلی انجمنیں گاہے بگاہے بچوں میں دینی تعلیم کی فروغ کے لئے وقت کے سلگتے مسائل اور باطل تحریکات کو سمجھنے کے لئے مستند علماء کی زیر نگرانی باہمی مناظرہ کا انعقاد کروائیں تاکہ بچوں میں احقاق اور ابطال باطل نیز اپنی بات کو اسلام کی صحیح تعلیمات کو رکھنے کا ہنر پیدا ہو۔
باری تعالیٰ ہم سبھوں کی نت نئے فتنوں سے حفاظت فرمائے۔