تحفظ ایمان کے لیے نواقض ایمان سے واقفیت ضروری

ایمان کی اہمیت :اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے عظیم اور اہم ترین نعمت ‘‘نعمت ایمان’’ ہے،اس نعمت عظمیٰ پر ساری نعمتیں قربان ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جن بندوں کو ایمان کی نعمت سے سرفراز کیا ہے وہ تمام انسانوں میں خوش نصیب انسان ہیں ، ان کی خوش نصیبی پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے، اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے قدر دان ہیں ،صاحب ایمان کے ایمان کی وہ بڑی قدر کرتے ہیں اور ایمان کے بعد کئے جانے والے ہر عمل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس پر اپنے فضل کی مہر لگاکر انعام واکرام سے نوازتے ہیں ، دنیا اور اس کا خوبصورت نظام صاحب ایمان کے دم سے قائم ہے ، صاحب ایمان کی اہمیت اور قدر منزلت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جب تک اس دنیا میں ایک بھی ایمان والا سانس لیتا رہے گا تو اس کے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس دنیا کا خوبصورت اور بے مثل نظام چلارتے رہیں گے اور جب یہ دھرتی صاحب ایمان سے خالی ہوجائے گی تو اس نظام کائنات کو ختم کردیا جائے گا اور قیامت برپا کردی جائے گی ۔ آخرت میں کامیابی ایمان کی سلامتی میں مضمر : اس بات سے ہر صاحب ایمان بخوبی واقف ہے کہ دنیا اور اس کا قیام عارضی اور فانی ہے ،اس کے برعکس آخرت اور وہاں کا قیام مستقل اور دائمی ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے دنیا کو مسافر خا نہ اور اس میں قیام کرنے والے کو مسافر سے تشبیہ دی ہے اور اس مثال کے ذریعہ انسانوں کو آخرت اور وہاں کی دائمی زندگی کی طرف متوجہ کیا ہے اور نہایت خوبصورت انداز میں ان کی ذہن سازی کرتے ہوئے بتایا کہ بھلا کوئی بھی مسافر دَورانِ سفر حسین مناظر کو دیکھ کر اپنی منزل اور اپنے مستقل جائے قیام کو بھول سکتا ہے ؟جس طرح ایک مسافر اپنی منزل سے بے خبر اور بے فکر نہیں رہتا اسی طرح صاحب ایمان کو بھی چاہئے کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی چیزوں سے بقدر ضرورت فائدہ تو اٹھاتا رہے مگر آخرت کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھے ،دنیا سے دل لگانا اور اس کی رنگینی میں گم ہوکر آخرت سے غافل ہوجانا بڑی ناسمجھی و نادانی کی بات ہے،صاحب ایمان سے اس کا تصور بھی مشکل ہے بلکہ اپنے دل میں شمع ایمان رکھ کر دنیا کی تاریکی میں گم ہوجانا اور ٓاخرت سے غافل ہوجانا ایمان کے کمزور ہونے کی نشانی ہے ، ایسے شخص کو اپنے ایمان کی فکر اور سلامتی کی کوشش کرنا چاہئے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے وہ طریقے اختیار کرنا چاہئے جس کی صاحب ایمان کو تعلیم دی گئی ہے کیونکہ آخرت میں کامیابی ،نعمتوں کی حصولیابی اور دائمی راحت کے لئے دنیا سے ایمان کے ساتھ رخصت ہونا ضروری ہے ،ایمان کے بغیر آخرت کی کامیابی ممکن ہی نہیں ہے ۔ صحابہ ؓ اور حفاظت ایمان: ایمان کی اہمیت اور اس کی قدر قیمت سے سب سے زیادہ اگر کوئی واقف تھے تو وہ صحابہؓ تھے ،رسول اللہ ؐ کی صحبت وتربیت اور تعلیم وتلقین نے ان کے دلوں میں ایمان کو ایسا راسخ ومضبوط کردیا تھا گویا ایمان ان کے دلوں کا حصہ اور جزو ہے ،یہی وجہ تھی کہ وہ مبارک ہستیاں ہر وقت ایمان کا جائزہ لیتے رہتے تھے اور ہر لمحہ اس کی حفاظت کی فکر کرتے تھے ،ان حضرات پر سخت سے سخت ترین حالات آئے لیکن انہوں نے ہر حال میں چٹانوں کی طرح ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور حالات کے رخ کو موڑ کر ہی دم لیا ، جب کبھی دشمنوں نے مال وزر کے ذریعہ ان کے ایمان کا سودا کرنے کی حماقت کی تو انہوں نے مال وزر دے کر اپنے ایمان کا تحفظ کیا ،کبھی سخت ترین حالات میں وطن وخاندان کو خیرباد کرتے ہوئے ایمان کی حفاظت کی تو کبھی دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے جان تو دے دی مگر ایمان کو بچاکر دنیا سے رخصت ہوگئے اور جاتے ہوئے قیامت تک ہر صاحب ایمان کو یہ پیغام دیا کہ ایمان کے مقابلہ میں مال ودولت تو کیا چیز ہے جان عزیز بھی بہت سستی ہے ،اگر کبھی ایسے حالات سے دوچار ہونا پڑے تو بخوشی جان دے کر بہر صورت اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اس کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کریں کیونکہ جان کے جانے سے دنیا چھوٹ جاتی ہے مگر ایمان کے چلے جانے سے آخرت تباہ ہوجاتی ہے اور صاحب ایمان کے لئے اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے اور وہ ایمان کی سلامتی میں مضمر ہے ، صحابہؓ کا دین وایمان کی حفاظت کی خاطر دشمنوں سے مقابلہ ہوتا اور شہادت کا وقت آتا تو ان کی زبان پر یہ خاص جملہ ہوتا تھا‘‘فزت ورب الکعبہ’’ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ ایمان کی حفاظت کے لئے دو اہم چیزیں : ایمان کی اہمیت واضح ہوجانے کے بعد ہر صاحب ایمان کا ایمانی تقاضہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کی فکر کریں اور حفاظت ایمان کے لئے ان تمام ذرائع کو اختیار کریں جن سے ایمان کی حفاظت ہوتی ہے ،اہل علم کا کہنا ہے کہ ایمان کی حفاظت کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں (۱)زبان کی حفاظت(۲) نواقض ایمان سے واقفیت،عموماً ان سے بے توجہی کی وجہ سے صاحب ایمان کا ایمان خطرہ میں پڑ جاتا ہے ، ان میں ایک زبان یہ تویقینا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک قیمتی نعمت ہے،قرآن مجید میں بطور خاص اس نعمت کا ذکر کیا گیا ہے ، متعدد احادیث میں رسول اللہ ؐ نے زبان کی حفاظت کی طرف توجہ دلائی ہے ، ایک موقع پر رسول اللہؐ نے سیدنا معاذ بن جبلؓ کو نصیحت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: أمسک علیک لسانک(ترمذی:۲۶۶۱) ‘‘ اپنی زبان کو قابو میں رکھو’’، ایک حدیث میں آپؐ نے زبان سے نکلنے والے الفاظ کی خطرناکیوں کو بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:ان العبد لیتکلم بالکلمۃ مایتبین فیھا یزل بھا فی النار أبعد مما بین المشرق ( بخاری: ۶۴۷۷) ‘‘بسا اوقات انسان ایسی بات کہہ دیتا ہے جس کے نقصان کو وہ نہیں جانتا مگر اس بات کی وجہ سے وہ جہنم میں اتنی دور جاگرتا ہے جتنی دوری مشرق اور مغرب کی ہے’’،ان ہی باتوں کے نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے بطور خاص زبان کی حفاظت کی جانب توجہ دلائی جاتی ہے کہ کہیں زبان سے کوئی ایسا جملہ نہ صادر ہوجائے جو کہنے والے کے لئے کسی شدید نقصان کا باعث بنے۔اسی طرح ایمان کی حفاظت کے لئے نواقض ایمان (یعنی اسلام سے خارج کردینے والے امور) کا جاننا بھی ضروری ہے تا کہ ان سے دور رہ کر اپنے ایمان کو بچایا جاسکے، نواقض ایمان سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے بعض ناواقف لوگوں کی زبان سے کفریہ جملے نکل جاتے ہیں جو انہیں اسلام سے خارج کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ یہ کہ ان کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں بلکہ اگر اس جملے پر انہیں توجہ نہ دلائی جائے اور ایمان کی تجدید نہ کروائی جائے تو کفر پر ان کی موت واقع ہوتی ہے اور آخرت تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے ،اسی وجہ سے اہل علم کا کہنا ہے کہ اہل ایمان کے لئے ایمان کی بنیادی باتوں کے جاننے کے ساتھ ان باتوں کا جاننا بھی ضروری ہے جن سے ایمان رخصت ہوجاتا ہے ۔ اسلام اور ایمان کے ارکان: جس طرح افعال کے ارکان ہوتے ہیں جن کے پائے جانے سے عمل وجود میں آتا ہے ،اسی طرح کچھ نواقض بھی ہوتے ہیں جن کے پیش آنے کی وجہ سے عمل ٹوٹ جاتا ہے جیسے وضو کے لئے مخصوص اعضا کا دھونا ( چہرہ،ہاتھ،پیر )ضروری ہے ان اعضا میں سے کسی ایک کے چھوٹ جانے سے وضو نہیں ہوتا ہے اسی طرح بعض عمل وہ ہیں جن کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسے استنجا کرنا ،بدن کے کسی حصے سے خون یا پیپ کا نکل کر بہہ جانا وغیرہ ، اسی طرح نماز بھی چند مخصوص ارکان پر مشتمل ہے جیسے قیام ،رکوع ،سجود ،تلاوت وغیر ان میں سے کوئی ایک بھی چھوٹ جائے تو نماز نہیں ہوگی اور چند چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے جیسے نماز میں بات کرنا،قرأت نہ کرنا،نماز میں کھانا پینا وغیرہ ،بالکل ایسے ہی ایمان کے بھی چند مخصوص ارکان ہیں جن کی تصدیق سے آدمی ایمان میں داخل ہوتا ہے اور ان میں سے کسی ایک کے انکار سے ایمان سے خارج ہوجاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے صفات پر ایمان،فرشتوں پر ایمان،تمام آسمانی کتابوں پر ایمان ،تمام رسولوں پر ایمان،رسول اللہؐ کی نبوت ورسالت پر ایمان،رسول اللہؐ کے آخری نبی ورسول ہونے پر ایمان،آخرت کے دن پر ایمان ،تقدیر پر ایمان ،مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان اور جنت وجہنم اور وہاں کے غیبی نظام پر ایمان،نماز،روزہ،زکوۃ اور حج پر ایمان ،ان میں سے کسی ایک کے انکارکرنے سے آدمی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے ۔ ایمان کی تعریف کیا ہے؟ :ایمان کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب صاحب ایمان کو یہ معلوم ہو کہ ایمان کہتے کسے ہیں اور اس کی تعریف کیاہے؟ لغت میں ایمان کے معنیٰ تصدیق اور تسلیم کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو باتیں رسول اللہؐ لے کر آئے ہیں اور جو قطعیت (یقین) کے ساتھ ثابت ہیں ان سب باتوں کی سچے دل سے تصدیق کرنا ایمان کہلاتا ہے۔(شامی:۴؍۲۲۱)۔ایمان کی ضد کفر: جس طرح بہت ساری چیزیں ایک دوسرے کی ضد اور مقابل ہوتی ہیں اسی طرح کفر بھی ایمان کی ضد اور اس کا مخالف ہے ، یہ دوچیزیں بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی ہیں ،چونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اس لئے دل میں یا تو ایمان ہوگا یا کفر جس کی بنا پر آدمی یا تو مسلمان ہوگا یا کافر ہوگا ،جو آدمی ارکان ایمان کی تصدیق کرے گا وہ مسلمان اور مومن کہلائے گا اور جو ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرے گا اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔ کفر کے لازم ہونے کی شرطیں: ایک مسلمان کے لئے اس کا ایمان اس کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے، اس کی نگاہ میں ایمان سے بڑی کوئی چیز نہیں اور ایمان سے قیمتی کوئی اور دولت نہیں ہے ،ایمان ہی اسے آخرت کی سزاؤں سے نکال کر وہاں کی دائمی زندگی کا پروانہ عطا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی کے متعلق کفر کا حکم صادر کرنے کے لئے اہل علم نے بہت ہی محتاط راستہ اختیار کیا ہے بلکہ اس کے لئے چند شرطیں متعین کی ہیں یعنی اگر کوئی آدمی بنیادی ارکان ایمان کا انکار کرتا ہے تو اس پر کفر کا حکم لگانے کے لئے تین چیزیں ضروردیکھی جائیں گی (۱) وہ شخص حالت نشہ اور حالت بیہوشی میں نہ ہو(۲) قصد اور اردے سے الفاظ کہیں ہوں غلطی اور سہو سے کہیں نہ ہوں (۳) اپنے اختیار سے الفاظ کفر کہے ہوں ،اس پر کسی نے قتل وغیرہ کی دھمکی دے کر وہ الفاظ نہ کہلوائیں ہوں۔ وہ باتیں جن سے کفر لازم ہوتا ہے: پہلی قسم :جن چیزوں کی فرضیت قرآن مجید کی آیات اور آحادیث متواترہ سے ثابت ہو جیسے نماز،روزہ ،زکوۃ اور حج ، کسی حلال کو حرام جاننا اور کسی حرام کو حلال سمجھنا وغیرہ (البحر الرائق:۵؍۲۰۵۔فتاوی عزیزی :۱؍۴۴۱)۔ دوسری قسم : وہ کلمات جن سے اشارۃ انکار ثابت ہو تا ہوجیسے کسی نجومی اور کاہن کی باتوں کو سچا جاننا(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح :۷؍۲۹۰۴)۔ تیسری قسم :وہ کلمات جن سے صراحتاً شک ثابت ہوجیسے قیامت کے واقع ہونے میں شک کرنا،فرشتوں کے وجود میں شک کرنا ،مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر شک کرنا وغیرہ(ابن ماجہ: ۴۲۶۸)۔چوتھی قسم:وہ کلمات جن سے اشارۃ شک ثابت ہو جیسے کسی نے کہا کہ جنت میں مومنوں کو نعمتیں اور جہنم میں کافروں کو سزائیں ملیں گی ،اسے سن کر کہا کہ معلوم نہیں کیا ہوگا کچھ خبرنہیں ہے۔(پانچویں قسم:وہ افعال (کام) جن سے انکاریا صراحتا اور اشارۃ شک سمجھاجائے جیسے کسی نے توہین کی غرض سے قرآن مجید کو جلادے یا اہانت کی غرض سے کعبہ کی طرف رخ کرکے پیشاب کردے وغیرہ (الفتاوی الھندیہ:۲؍۱۶۷)۔ کفر لازم ہونے پر احکام:اگر کسی سے وہ باتیں سرزد ہوجائیں جن سے کفر لازم آتا ہے تو ایسے شخص کے لئے چار احکام ہیں(۱) ایسے شخص پر اس کی بیوی حرام ہوجاتی ہے۔(۲)اس شخص کا ذبیحہ حرام ہے۔(۳)شرعی قاضی مرتد ہونے پر اسے سزا دے گا۔( ۴)اس کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔توجہ کی ضرورت: بڑی معذت خواہی کے ساتھ یہ بات عرض ہے کہ ہم لوگ دین کی بنیادی تعلیم دیتے وقت طہارت،وضو،نوقض وضو،نماز اور مفسدات نماز اور اس کے احکام تو بڑی تفصیل کے ساتھ پڑھاتے ، سمجھاتے اور یاد دلاتے ہیں جس سے دینی احکام سیکھنے والے کو بڑی سہولت ہوتی ہے اور وہ آسانی کے ساتھ جان لیتا ہے کہ کس عمل کی وجہ سے اس کی طہارت چلی جاتی ہے،کس سے اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کس عمل سے اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے مگر اس کے برخلاف عموماً ایمان وعقائد کے بارے یہ نہیں بتاتے کہ فلاں فلاں چیزیں ایمان میں داخل ہیں اور یہ دین کے بنیادی عقائد ہیں جن کی تصدیق کرنا ضروری ہے اور فلاں فلاں باتیں ایمان میں شامل ہیں اور فلاں فلاں باتوں کی وجہ سے آدمی ایمان سے محروم ہوجاتا ہے ،ضرورت ہے کہ ایمان کے ساتھ نواقض ایمان اور افعال اسلام کے ساتھ اسباب کفر کی بھی تعلیم دیں اور اسے ذہنوں میں خوب اچھی طرح سے بٹھائیں تا کہ آگے چل کر کوئی مسلمان کسی بھی فتنے کا شکار نہ ہوں۔ دشمنوں کے ناپاک عزائم اور ہماری ذمہ داری : اس وقت چاروں طرف سے فتنوں کی یلغار اور ارتداد کی ہلاکت خیز ہوائیں چل رہی ہیں،دشمنان اسلام مسلمانوں کے گنجینہ ایمان میں آگ لگانے اور انہیں ارتداد کی طرف لے جانے کے لئے کمر بستہ ہیں ایسے نازک ترین حالات میں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اور اپنے متعلقین اور حسب استطاعت دوسرے مسلمانوں کے ایمان کے حفاظت کی فکر کریں ، تحفظ ایمان کے لئے ہر ممکن کوشش کو اپنے سعادت دارین کا ذریعہ سمجھیں ، مسلمانوں کی دینی تنظیمیں جو اس وقت گمراہ فرقوں کے تعاقب میں لگی ہوئیں ہیں ان کا مکمل تعاون کریں کیونکہ اس وقت مختلف گمراہ فرقے مختلف انداز سے گمراہی پھیلانے میں مصروف ہیں اور خصوصا جدیدتعلیم یافتہ نوجوانوں ، مغرب سے متاثر لوگوں اور دینی ماحول سے دور مسلمانوں کو اپنے گمراہ افکار ونظریات کی دعوت کے ذریعہ گمراہی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ اپنی گمراہی پھیلانے کے لئے انٹر نٹ کا سہارا لے رہے ہیں ، مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس وقت بہت سے مسلمان ان کا شکار ہوکر گمراہی کے دلدل میں گرچکے ہیں ، بعض گمراہ ہوچکے ہیں تو بعض اسلام سے خارج ہو کر ارتداد کی ذلت کو گلے لگا چکے ہیں ،ان حالات میں ہماری دینی وایمانی ذمہ داری ہے کہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اس جانب توجہ دیں اور اپنے ان دینی بھائیوں کی فکر کریں جو دشمن کی سازشوں کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کی طرف بھی توجہ دیں جو گرچہ اب تک ان کی گمراہیوں سے محفوظ ہیں مگر ایمان کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں اسی طرح جن چیزوں سے ایمان رخصت ہوجاتا ہے ان سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں ،اگر خدانخوستہ وہ باطل عقائد رکھنے والے اور گمراہ لوگوں کے ہاتھ لگ کر گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا پھر ارتداد کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس پر ہم خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں تو قیامت کے دن عدالت الٰہی میں ہم کو مجرم بننے سے کوئی روک نہیں سکتا، دور صحابہؓ سے لے کر آج تک ہر دور میں وقت جید کے علما ئے کرام اور داعیان دین متین نے جہاں ایک طرف گمراہ فرقوں کا تعاقب کیا ، ضرورت پرنے پر زبان و قلم اور میدان عمل میں طاقتور قدم کے ذریعہ ان کے قدم اُکھاڑ دئے وہیں اہل ایمان کے ایمان کی حفاظت کے لئے دینی مجلسوں کا اہتمام کیا اور اپنے وعظ ونصیحت کے ذریعہ ایمان کی حفاظت کا بھر پور سامان فراہم کیا ، ماضی قریب میں ہمارے اکابرؒ نے درس وتدریس،دعوت وتبلیغ ،تزکیہ وتصفیہ کے علاوہ باطل اور گمراہ فرقوں کا مستقل تعاقب کرتے ہوئے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی اور ان کے مٹی کے قلعہ کو زمین دوز کردیا ،خصوصا ملعون قادیانی ،منکرین حدیث اور گستاخ صحابہ ؓ کا نہایت شدت کے ساتھ تعاقب کیا اور ان کے دلائل کا دندان شکن جواب دے کر انہیں ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا،چنانچہ فرقہ قادیانی اور اس جیسا مزاج رکھنے والی گمراہ جماعتوں سے مستقل نبرد آزما ہوئے اور ان کے تابوت میں کیل ٹھوکنے کے لئے مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام عمل میں لایا ،الحمد للہ روز اول سے ہی یہ تنظیم اکابر علمائے کرام کی سرپرستی میں تحفظ ختم نبوت کا فریضہ انجام دیتی آرہی ہے اور جو گمراہ لوگ مسلمانوں کے عقائد کو بگاڑ نے کی کوشش کر رہے ہیں لوگوں میں ان کی گمراہی کو واضح کرنے اور گمراہی سے بچانے کا اہم ترین کام انجام دے رہی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مجلس تحفظ ختم نبوت اور اس جیسی تنظیموں کا بھر پور ساتھ دیں اور مال وزر اور وقت وطاقت کے ذریعہ ان کا مکمل تعاون کریں اس کے علاوہ وقت نکال کر علمائے کرام کی مجالس سے استفادہ کریں اوراپنے متعلقین کو اس میں جوڑنے کی فکر کریں اور یاد رکھیں اگر ہم نے اس جانب توجہ نہیں دی اور گمراہی کے سد باب کی فکر نہیں کی تو آگے چل کر دشمنان اسلام کے حوصلے مضبوط ہوں گے جس کا اثر براہ راست مسلم معاشرہ پر پڑے گا جس کی وجہ سے ہماری نئی نسل اور آنے والی نسلوں کو اس خمیازہ بھگتنا پڑے گا ،اس لئے اپنے اور اپنی نسلوں کے دین و ایمان کے حفاظت کی فکر کریں ،یا د رکھیں دین پر استقامت اور ایمان پر موت سب سے قیمتی چیز ہے اور ہر مومن کو اسی فکر کے ساتھ زندگی گزارنا ہے اور ہر وقت یہی دعا کرتے رہنا ہے کہ ؂

کچھ رہے یا نہ رہے بس یہ دعا ہے میری
نزع کے وقت سلامت میرا ایمان رہے

تحریر: (مفتی) عبدالمنعم فاروقی
9849270160

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے