وقف ترمیمی بل پرمرکزی حکومت کا داؤ الٹا ہوتا نظر آرہا ہے، مسلمانوں نے اپنی بیداری سے ثابت کردیا کہ ابھی وہ زندہ ہے

ہندوستان جمہوری ملک ہے ، اس میں آئین کو بالا دستی حاصل ہے ، آئین کی پابندی ہر شہری پر لازم ہے ، ساتھ ہی یہاں کی حکومتوں پر بھی لازم ہے ، کوئی اس کے خلاف نہیں کر سکتا ہے ، اگر کوئی خلاف کرے تو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے آواز بلند کرنے نیز قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے۔
ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں ، ملک کے آئین میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا تفصیل سے ذکر ہے ، بنیادی حقوق کے کئی دفعات اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ، ملک کا آئین آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مذہبی آزادی دیتا ہے ، اپنی پسند کی تعلیم اور اس کے لئے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کو چلانے کا حق دیتا ہے ، اور بھی بہت سے حقوق ہیں ، جو اقلیتوں کو دیئے گئے ہیں۔
موجودہ وقت میں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کے ساتھ بھید بھاؤ کا برتاؤ کیا جارہا ہے ، مرکزی اور بعض ریاستی حکومتوں کی جانب سے ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں ، جو ملک کے آئین اور مسلم اقلیت کے مذہبی حقوق سے متصادم ہیں ، ان ہی قوانین میں سے ایک قانون وقف ترمیمی بل 2024 بھی ہے ، جو وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کر کے پیش کیا گیا گیا ہے ، میں نےمجوزہ ترمیمی بل 2024 کا مطالعہ کیا ہے ، اور بہت سے تجزیہ نگاروں نے بھی اس کا مطالعہ پیش کیا ہے ، تجزیہ نگاروں کے مطابق وقف ترمیمی بل 2024 ملک کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے ، اور مسلم اقلیت کے پرسنل لا سے بھی متصادم ہے ، چنانچہ جب یہ بل مرکزی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ، تو عوام اور اپوزیشن پارٹیوں نے سخت مخالفت کی ، جس کے نتیجہ میں مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہوسکا ، اور جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی یعنی جے پی سی میں مطالعہ کے لئے بھیج دیا گیا، جے پی سی میں اکثریت مرکزی اور اس کی حلیف پارٹیوں کی ہے ، حکومت یہ سمجھ رہی تھی کہ جے پی سی میں آسانی سے موافقت میں رائے بنالی جائے گی ،جے پی سی کی کئی میٹینگیں ہوئیں ، مگر ان میں مجوزہ بل پر کوئی رائے نہیں بنی ، اس لئے جے پی سی نے عوام سے رائے طلب کرنے کا شوشہ چھوڑا ، اور اس مجوزہ وقف ترمیمی بل کے بارے میں عوام سے مشورہ طلب کرلیا ، یہ ایک جمہوری طریقہ ہے ، چونکہ وقف ترمیمی بل پر مشورہ کا معاملہ تھا ، انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اس پر صرف مسلم سماج کے لوگوں سے مشورہ طلب کیا جاتا ، مگر ایسا نہیں ہوا ، بلکہ تمام لوگوں سے مشورہ طلب کر لیا گیا ، چنانچہ اسی کے مطابق مشورہ بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے ، اس موقع پر ملک کی ملی تنظیموں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا ،اور تقریباً تمام ملی تنظیمیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ اس پر متفق ہیں کہ مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 ملک کے آئین اور مسلم پرسنل لا کے خلاف ہے ، اس کے نافذ ہونے کے بعد مساجد ، مدارس ، خانقاہیں سبھی خطرے میں پڑ جائیں گے ، اس لئے یہ بل منظور نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت اس مجوزہ ترمیمی بل 2024 کو واپس لے ، اس بل کے واپس لینے کے سلسلہ میں جے پی سی کے پاس ایک کروڑ سے زائد مشورے بھیجے جا چکے ہیں ، اس طرح ملت اسلامیہ نے اپنی یکجہتی کا ثبوت پیش کردیا ہے ، اور اب مرکزی حکومت کو اپنی تدبیر الٹی پڑتی نظر آرہی ہے۔
جہاںتک جے پی سی کی جانب سے بل پر مشورہ کی بات ہے تو چونکہ اس کا تعلق مسلمانوں سے ہے ، اس لئے مسلمانوں سے ہی مشورہ طلب کرنا چاہئے تھا ، مگر جے پی سی نے مسلمانوں کے علاوہ دیگر طبقات سے بھی مشورہ طلب کرلیا ، جس پر بہت تبصرے ہو رہے ہیں ۔ میرے مطالعہ کے مطابق یہ جمہوری نظام کا حصہ ہے ، اللہ تعالیٰ اس میں خیر کا پہلو نکالے ، ویسے جے پی سی میں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ میں بڑے بڑے وکلاء ہیں ، ان میں سے ایک اہم بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب بھی ہیں ، جو ہر معاملہ میں نہایت حساس رہتے ہیں ،اور وہ اس وقف ترمیمی بل کے سلسلہ میں نہایت ہی متحرک ہیں ، وہ بھی جے پی سی کے ایک ممبر ہیں ، اگر مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو شامل کرنا غیر آئینی ہوتا ،تو وہ اس کو منظور ہی نہیں ہونے دیتے ، اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک جمہوری طریقہ ہے ،البتہ موجودہ وقت میں اس کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران اور جے پی سی ممبران سے رابطہ مضبوط رکھا جائے ، تاکہ جے پی سی میں اس مسئلہ پر بحث کے ذریعہ اس فتنہ کا دفاع ہوسکے ۔ اس موقع پر اس کی بھی ضرورت ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک موقر وفد محترم وزیر اعظم ہند اور دیگر اہم عہدیداروں سے بھی ملاقات کرے اور ان کو اس بل کے نقصانات اور مضر اثرات سے باخبر کرے اور میمورنڈم پیش کرے۔ جمہوری نظام میں اس کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے
موجودہ وقت میں اس کی سخت ضرورت ہے کہ مسلم سماج کے لوگ آپسی اتحاد مزید مضبوط کریں ، مسلم سماج کو توڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ خبر کے مطابق بعض درگاہ کے سجادہ نشین اس بل کی حمایت میں آئے ہیں ، جبکہ ان میں سے کچھ لوگ ترمیم کی بات بھی کر رہے ہیں ، یہ کسی بھی کسی طرح مناسب نہیں ہے ، اس سے آپسی اتحاد کو نقصان پہنچے گا ، ملت نے بیداری کا ثبوت دیا ہے اور اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ یہ مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 کو سرکار واپس لے، تو پھر کچھ لوگوں کے ذریعہ اس بل کی موافقت یا ترمیم کی بات مناسب نہیں ہے۔
جے پی سی کو مشورے بھیجنے کے لئے اب صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں ، اس تحریک کو تیز کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ مشورہ بھیجنے کا مجوزہ نشانہ پورا ہوسکے۔
حکومت یہ سمجھتی تھی کہ ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو آپس میں الجھا کر اور اپوزیشن پارٹیوں کو دھوکہ میں رکھ کر مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 کو پاس کرالیں گے ، مگر مسلمانوں اور اپوزیشن کے عمل سے مرکزی حکومت کا داؤ الٹا ہوتا نظر آرہا ہے ، مسلمانوں نے اپنی بیداری سے ثابت کردیا ہے کہ ابھی وہ زندہ ہے ، اللہ تعالیٰ مزید حوصلہ عطا فرمائے۔

ازقلم: (مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے