ماہ ربیع الاول اور بعض مسلمانوں کا طرز عمل

  • افادات/ حضرت مولانا محمد منظورِ نعمانی رح ۔۔۔۔۔

ترتیب/محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ 950660075

ایک صاحب نظر بزرگ، مفکر اور عالم دین نے لکھا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
،،مسلمانوں کی موجودہ قومی سیرت کے بعض کمزور پہلو ایسے ہیں کہ اگر اس کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تو یہ امت صرف نام کی امت مسلمہ رہ جائے گی اور رسم و رواج اور خرافات میں گم ہو جائے گی ۔ مسلمانوں پر تنقید کرنا اور ان کے کمزور پہلوؤں کو نمایاں کرنا کسی مسلمان کے لئے قطعاً کوئی خوش گوار کام نہیں ہے اور اس کے لیے کوئی شخص آسانی سے تیار نہیں ہوسکتا ۔لیکن دنیا کے سب ضروری کام خوش گوار نہیں ہوتے ایک ایسی جماعت کی کمزوریوں کو خاموشی سے دیکھتے رہنا، جس نہ صرف اس کی قسمت بلکہ دنیا کی قسمت بھی وابستہ ہے اور جو انجیل کی زبان میں نمک ہے جس کی نمکینی کے ضائع ہو جانے کے بعد زمین کو کوئی چیز نمکین نہیں کرسکتی ۔ ایک ایسا ناخوشگوار کام ہے ،جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر ناگواری ،ہر تلخی،ہر طرح کی روحانی اذیت اور ہر قسم کی ذہنی کوفت ہیچ ہے اور اس کے مقابلے میں اپنی یا دوسروں کی یہ ناخوشگواری کوئی حقیقت نہیں رکھتی” ۔۔ بقول مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح ،،مسلمانوں کی کسی قوم یا ملک کا سلطنت و اقتدار سے محروم ہو جانا یا مسلمانوں کا عالمگیر سیاسی زوال بہت بڑا حادثہ ہے ۔جس پر جتنا ماتم کیا جائے وہ کم ہے اس کے جو اخلاقی اور ذہنی نتائج ہوتے ہیں وہ بھی اب کچھ پوشیدہ نہیں رہے ۔لیکن اس سے بدرجہا المناک حادثہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کی ذہنیت یا نفسیات کسی ایسے سانچے میں ڈھلنے لگے جو صحیح اسلامی تعلیم و تربیت کا سانچہ نہیں ہے ۔ اور بعض انفرادی عیوب و نقائص اور غیر قوموں کے صفات و خصائص ،مسلمانوں کی سیرت کا جز بننے لگیں اور قومی کیرکٹر کی صورت اختیار کرنے لگیں ۔ تحریف دین کی اصطلاح تو پہلے سے موجود ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عملی کوتاہیوں اور ذاتی انحراف سے بڑھ کر کوئی جماعت اصل دین،اس کی اصل کتابوں اور اس کی تعلیمات میں ترمیم و تنسیخ اور رد و بدل شروع کرے اس کے نتائج انحراف سے کہیں بڑھ کر خطرناک اور وسیع ہوتے ہیں اور اس کا علاج اور صورت حال کی اصلاح تقریباً محال ہوتی ہے ۔اس لئے کے اس تحریف سے اس قوم کے ذہن میں حقائق بدل جاتے ہیں ۔گناہ عین صواب اور بعض اوقات ثواب کار بن جاتا ہے اور ان کو دین کی اصل حقیقت سے ہٹ جانے یا دور ہو جانے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔بلکہ وہ جو کچھ کرتے ہیں وہی عین دین معلوم ہوتا ہے ، یہودیوں اور عیسائیوں میں مذہبی طور پر یہی صورت پیش آئی ۔ ( ماہنامہ الفرقان شمارہ جنوری 2014ء مولانا کی ایک پرانی تحریر کا اقتباس)
اس وقت بر صغیر کے بعض بلکہ اکثر مسلمانوں کا ماہ محرم الحرام اور ماہ ربیع الاول کے منانے کے سلسلے جو طرز عمل ہے اور اس نے جو مذہبی رنگ اختیار کرلیا ہے اور عقیدت و احترام اور عبادات کے نام پر جو کچھ وہ کر رہے ہیں اور غیروں کا جو طریقہ اختیار کرتے جا رہے ہیں ،اس کا دین و شریعت سے دور دور کا رشتہ اور جوڑ نہیں ہے ۔
ماہ ربیع الاول کی مناسبت سے ماہنامہ الفرقان کیے شمارہ 1435ہج مطابق جنوری 2014ء کے نگاہ اولین کے طور پر صاحب الفرقان حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مضمون شائع ہوا تھا ، ہم اس کو قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جس میں مسلمانوں کے اس طرز عمل پر تنبیہ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھیے اور اسکے پیغام کو عام کیجیے ۔۔۔۔ائمہ حضرات اپنی مساجد میں اسے پڑھ کر سنائیں۔۔۔۔۔۔۔

اب سے تقریباً چودہ سو برس پہلے جب کہ کائنات انسانی بحر ظلمات میں غرق تھی،اور روحانیت شیطنت سے مغلوب ہو رہی تھی،خلاق عالم نے اپنی آخری نبی اور محبوب ترین رسول حضرت محمد بن عبداللہ روحی وقلبی فداہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا تاکہ آپ نور ہدایت سے ظلمات و ضلالت کو شکست دیں،اور حق کو باطل پر غالب کردیں،ہمارے ماں باپ آپ پر نثار ہوں آپ تشریف لائے اور آتے ہی باذن اللہ دنیا کا رخ پلٹ دیا،بندوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ خدا سے جوڑا،اور جو غم نصیب حضیض ذلت میں گر چکے تھے ان کو وہاں سے اٹھا کر اوج رفعت پر پہونچایا،مشرکوں کو موحد بنایا اور کافروں کو مومن،بت پرستوں کو خدا پرست کیا، اور بت سازوں کو بت شکن،رہزنوں کو رہنمائی سکھائی، اور غلاموں کو آقائی،چور چوکیدار بن گئے اور ظالم غمخوار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جو دنیا بھر کے آوارہ تھے وہی سب سے زیادہ متمدن ہو گئے، اور جن کا قومی شیرازہ بالکل منتشر ہو چکا تھا وہ کامل طور پر منظم کر دئے گئے،روحانیت کے فرشتے شیطنت پر غالب آگئے،کفر و شرک،بدعت وضلالت اور ہر قسم کی گمراہیوں کو زبردست شکست ہوئی، شقاوت و بدبختی کا موسم بدل گیا،ظلم وعدوان اور فساد و طغیان کا زور ختم ہو گیا،حق وسعادت اور خیرو سعادت نے عالم گیر فتح پائی، اور زمین پر امن و عدالت کی بادشاہت قائم ہوگئی –
جس وقت عالم انسانی کے اس منجئ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عالم وگل میں اپنا پہلا قدم رکھا تھا وہ ربیع الاول ہی کا مہینہ تھا اور پھر جب آپ کا سن شریف چالیس ٤٠/برس کا ہوا تو اسی مہینے میں اصلاح عالم کا کام آپ کے سپرد ہوا ۔پس اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ربیع الاول ہی اس رحمت عامہ کے ظہور کا مبداء اور روحانی خیرات و برکات کے وفور کا منبع ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب یہ ماہ مبارک آتا ہے تو مسلمانوں کے قلوب میں (حتیٰ کہ ان کے دلوں میں بھی جو دوسرے موسموں میں بالکل غافل رہتے ہیں)۔ اس وجود مقدس کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور طرح طرح سے خوشیوں اور مسرتوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔
نعماء الہی کی یاد سے خوش ہونا بری چیز نہیں بلکہ حدود شریعت سے تجاوز نہ ہو تو ایک درجہ میں محمود ہے۔۔لیکن آج مجھے عرض کرنا ہے کہ۔۔۔۔۔
آپ کے جشن کی ان گھڑیوں اور شادمانی کی ان ساعتوں میں اس قابلِ ماتم حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس مقدس و مسعود وجود نے اس مبارک مہینے میں نزول اجلال فرما کر جو کچھ دیا تھا۔ آج آپ اپنی شامت اعمال سے سب کچھ کھو چکے ہیں؟؟
ربیع الاول اگر آپ کے لئے خوشیوں کا موسم اور مسرتوں کا پیغام ہے تو صرف اس لئے کہ اس مہینے میں دنیا کی خزان ضلالت کو بہار ہدایت نے آخری شکست دی تھی اور اسی مہینے میں وہ ہادئ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز عالم ہوئے تھے، جنہوں نے تم پر روحانیت کے دروازے کھول دیے اور ساری نعمتیں تم کو دلوا دیں ،جن سے تم محروم تھے۔ پھر اگر آج تم انکی لائی ہوئی شریعت سے دور اور انکی دلائی ہوئی نعمتوں سے محروم ومہجور ہوتے جارہے ہو تو کیا وجہ ہے کہ گزشتہ بہار کی خوشی تو مناتے ہو، لیکن خزاں کی موجودہ پامالیوں پر نہیں روتے؟؟
تم ربیع الاول میں آنے والے عشق ومحبت کا دعویٰ رکھتے ہو اور اسکی یاد کے لئے مجلسیں منعقد کرتے ہو، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ تمہاری زبان جس کی یاد کا دعویٰ کر رہی ہے اس کی فراموشی کے لئے تمہارا ہر عمل گواہ ہے اور جسکی تعظیم و تکریم کا تم کو بڑا ادعا ہے تمہاری گمراہانہ زندگی بلکہ وجود سے اسکی عزت کو بٹہ لگ رہا ہے۔
اگر تمہارے اس دعویٰ عشق ومحبت اور ادعائے احترام و عظمت میں کوئی صداقت ہوتی اور تم کو در حقیقت ان سے غلامی کا ادنیٰ سا تعلق ہوتا تو تمہاری دینی حالت ہرگز اس قدر تباہ نہ ہوتی، تم ان کی لائی ہوئی شریعت سے ایسے بیگانہ نہ ہوتے ،تم نماز کے عادی ہوتے اور زکوٰۃ پر عامل،تقویٰ تمہارا شعار ہوتا اور اتباع سنت تمہارا طرۂ امتیاز،حرام وحلال میں فرق کرتے،بلکہ مواقع شبہات سے بھی بچتے ۔تمہاری زندگی نمونہ ہوتی، صحابہ کرام کا اور تمہارا ہر عمل مرقع ہوتا اسلام کا۔۔۔۔
پس جب کہ تمہارا یہ حال نہیں ہے اور تم اپنے دلوں سے پوچھو وہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ ہاں نہیں ہے ،تو پھر یقین کرو کہ ربیع الاول کے موقع پر تمہاری یہ عشق ومحبت کی نمائش محض فریب نفس ہے ۔جس میں تم خود مبتلا ہو سکتے ہو۔ یا تمہارے ظاہر بیں دوست واحباب ۔ خدا وند علیم و خبیر تمہارے اس فریب میں نہیں آسکتا۔
اور نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تم ان خالی از حقیقت مظاہروں سے دھوکا دے سکتے ہو۔اس لئے میں تم سے کہتا ہوں اور اللہ کی قسم محض تمہاری خیر خواہی کے لئے کہتا ہوں کہ تم اپنی ان رسمی مجلسوں کی آرائش سے پہلے اپنے اجڑے ہوئے دل کی خبر لو اور قندیلوں کے روشن کرنے کے بجائے اپنے قلوب کو نور ایماں سے منور کرنے کی فکر کرو۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اغیار کی تقلید میں نقلی پھولوں کے گلدستے سجاتے ہو،مگر تمہاری حسنات کا جو گلشن اجڑ رہا ہے اس کی حفاظت اور شادابی کا کوئی انتظام نہیں کرتے ۔۔
تم ربیع الاول کی برکتوں اور رحمتوں کا تصور کرکے مسرت کے ترانے گاتے ہو،لیکن اپنی اس بربادی پر ماتم نہیں کرتے کہ تمہارا خدا تم سے روٹھا ہوا ہے،اس نے تمہاری بد اعمالیوں سے ناراض ہو کر اپنی دی ہوئی نعمتیں تم سے چھین لی ہیں۔ تم آقا سے غلام،حاکم سے محکوم،
غنی سے مفلس،زردار سے بے زر بلکہ بے گھر ہو چکے ہو۔ تمہارے ایمان کا چراغ ٹمٹما رہا ہے اور تمہارے اعمال صالح کا پھول مرجھا رہا ہے اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ تم غافل ہو۔
پس کیا اس محرومی اور مغضوبی کی حالت میں بھی تم کو حق پہونچتا ہے کہ ربیع الاول میں آنے والے دین ودنیا کی نعمتیں لانے والے رحمتہ اللعالمین (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آمد کی یادگار میں خوشیاں مناؤ بقول مولانا ابوالکلام آزاد ۔
،،کیا موت اور ہلاکت کو اس کا حق پہونچتا ہے کہ زندگی اور روح کا اپنے کو ساتھی بتائے؟،،کیا ایک مردہ لاش پر دنیا کی عقلیں نہ ہنسیں گی اور وہ زندوں کی طرح زندگی کو یاد کرے گی ؟ ہاں یہ سچ ہے کہ آفتاب کی روشنی کے اندر دنیا کے لئے بڑی خوشی ہے لیکن اندھے کو کب زیب دیتا ہے کہ وہ آفتاب کے نکلنے پر آنکھوں والوں کی طرح خوشیاں منائے،،
پس اے غفلت شعاران ملت !
تمہاری غفلت پر صد فغاں و حسرت اور تمہاری سرشاریوں پر صد ہزار نالہ و بکا اگر تم اس ماہ مبارک کی اصلی عزت و حقیقت سے بے خبر ہو اور صرف زبانوں کے ترانوں اور دیوار کی آرائشوں اور روشنی کے قندیلوں ہی میں اس کے مقصد یادگاری کو گم کر دو۔ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ماہ مبارک امت مسلمہ کی بنیاد کا پہلا دن ہے ۔ خداوندی بادشاہت کے قیام کا اولین اعلان ہے،خلافت ارضی و وراثت الہی کی بخشش کا سب سے پہلا مہینہ ہے ۔پس اس کے آنے کی خوشی اور اس کے تذکرہ و یاد کی لذت یہ اس شخص کی روح پر حرام ہے جو اپنے ایمان وعمل کے اندر اس پیغام الہی کی تعمیل واطاعت اور اسوہ حسنہ کی تاسی و پیروی کے لئے کوئی نمونہ نہیں رکھتا ۔۔۔۔
فبشر عبادی الذین یستمعون القول فیتبعون احسنه اولئک الذین ھداھم الله واولئک ھم اولوا الالباب
(کتابت/- حافظ محمد آفاق عادل )
نوٹ / اس مضمون کو دوسروں تک بھی پہنچائیں خصوصاً ائمہ و خطباء حضرات کی خدمت میں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے