حکومت وقف ترمیمی بل واپس لے یہ بل در اصل وقف املاک کو غصب کرنے کی سازش ہے

جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کی پریس کانفرنس سے عمائدین ریاست کا پرزور مطالبہ

ممبئی -: جماعت اسلامی ہند اور تمام اہم مسلم تنظیمیں و ادارے لوک سبھا میں پیش کردہ نئے مجوزہ وقف ترمیمی بل کو وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر وقف جائیدادوں کو غصب کرنے کی ایک گھناؤنی سازش قرار دیتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آئے اور بل کو واپس لے۔
مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف، متولی کی حیثیت اور وقف بورڈ کے اختیارات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے بلکہ سینٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ممبران کی تعداد میں اضافہ کے نام پر پہلی بار اس میں غیر مسلموں کو بھی لازماممبر بنانے کی تجویز لائی گئی ہے۔ سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم ممبر رکھا جاسکتا تھا، مجوزہ بل میں یہ تعداد 13 تک ہو سکتی ہے، جس میں دو تو لازما ہونے ہی چاہئے ۔ اس طرح وقف بورڈ میں پہلے صرف چیرمین غیر مسلم ہو سکتا تھا لیکن مجوزہ بل میں یہ تعداد 7 تک ہو سکتی ہے جب کہ بل کے مطابق دو تو لازما ہوں گے۔ یہ تجویز دستور کی دفعہ 26 سے راست متصادم ہے جو اقلیتوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی ادارے نہ صرف قائم کر سکتے ہیں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا بھی سکتے
یہ بل اگر پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو مسلمانوں ، دوسری اقلیتوں اور تمام انصاف پسند لوگوں کے ساتھ اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے۔
اس طرح کا اظہار خیال جماعت اسلامی ہند حلقہ مہاراشٹر کی جانب سے منعقدہ ممبئی پریس کلب میں عمائدین ریاست نے کیا پریس کانفرنس میں
ایڈوکیٹ یوسف صدر اے پی سی آر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقف ترمیمی بل 2024 پوری طرح غیر آئینی ہے سنودھان کے کئی ارٹیکل سے یہ ٹکراتا ہے انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے اس کی ڈائیورسٹی میں ہے جس کو ہم نیچرل جسٹس کہتے ہیں تو اب جب دیگر کمیونٹیز کے لیے الگ الگ قوانین موجود ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے قوانین کے مطابق اپنی مذہبی رسومات انجام دیں تو مسلمانوں سے ان کے حقوق چھین کر حکومت کون سا نیچرل جسٹس اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ میں کرنا چاہتی ہے۔
آخر میں انہوں نے اپنی بات کہتے ہوئے کیا کہ یہ بل پوری طرح سے غاصبوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے لایا جا رہا ہے اور یہ برسوں پرانی سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور خلافت ہاؤس کے صدر جناب سرفراز آرزو نے پریس کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دستور اور وقف ترمیمی بل دونوں آپس میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ یہ ملک قانون سے چلتا ہے۔
حکومت دو قوموں کے درمیان میں نفرت پیدا کرنا چاہتی ہے نفرت کی دیواریں کھڑا کرنا چاہتی ہیں برسوں سے یہ اس طرح کی کوشش کر رہی ہے تو حکومت کا یہ اقدام اس ملک کی سالمیت کے لیے اس ملک کی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا اور اس طرح کے حربوں کو استعمال کرنے سے حکومت کو باز آنا چاہیے ہم نے کسی کی زمین نہیں چھینی ہے اور نہ ہم کسی کی زمین چھیننے کا خیال اپنے دل میں لا سکتے ہیں اس لیے کہ یہ صاف طور سے ہمارے ایمان کا حصہ ہے وقف کا تعلق شریعت سے ہوتا ہے اور شریعت ایک انچ زمین بھی کسی کی چھیننے کی اجازت نہیں دیتی
مولانا انیس اشرفی صدر رضا فاؤنڈیشن ممبئی نے پریس کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں مسلمانوں پر آئے دن نئے نئے طریقوں سے ان کو ستانے کی پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ یکطرفہ بل تھوپا جا رہا ہے یہ سراسر ظلم اور ناانصافی پر مبنی اس بل کو ہم کسی بھی قیمت پر کبھی بھی برداشت نہیں کریں گے جماعت اسلامی ہند نے ایک اچھا اقدام کیا ہے اس طرح کے جتنے اقدامات جماعت اسلامی ہند کرے گی ہم شانہ بشانہ جماعت اسلامی ہند کے ان کوششوں کے ساتھ میں رہیں گے ہم محبت کا پرچار کرتے رہیں گے نفرتوں کی دیواریں توڑتے رہیں۔
سلیم ملا وقف ایکٹی ویسٹ نے وقف امینڈمنٹ بل کے مختلف آرٹیکلز پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بات کہی کہ یہ آرٹیکلز غیر قانونی طریقے سے جو لوگ وقت پر قابض ہیں ان کو قانونی جواز فراہم کرنے کا ایک دستور اور قانون ثابت ہوگا سینکڑوں سالوں سے جو وقت پراپرٹی مسلمانوں کے قبضے میں قبرستان کی شکل میں ہے مسجدوں کی شکل میں ہے اور وہ برابر اس کا استعمال کرتے آرہے ہیں۔ یہ بھی بل اگر قانون بن جاتا ہے تو حکومت ان سے مالکانہ دستاویزات طلب کرے گی تو اب 200 سال 300 سال پہلے جو زمین وقف کی گئی ہے تو کہاں سے اس کے مالک کو ہم تلاش کر کے لائیں اور کہاں سے ان کو کاغذات فراہم کریں وقف ایکٹ 1995 میں اس کام کو پروٹیکشن حاصل تھا وقف بائے یوزرز کے آرٹیکل کی شکل میں
آغا روح ظفر صاحب امام جمعہ خوجہ جماعت ممبئی نے اس پریس کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ یہ زمین وقف کی زمین حکومت کی نہیں ہے یہ زمین ہمارے آباؤ و اجداد کی وقف کی ہوئی زمین ہے دان کی ہوئی ہے زمین تو حکومت کو یہ اختیار نہیں پہنچتا کہ ہمارے باپ دادا کی زمین کے متعلق نئے نت نئے قوانین بنائیں اور ایسے قوانین لے کر ائے جو شریعت سے ٹکراتے ہوں تو کبھی بھی ہم اس طرح کی حکومت کی کوشش کو برداشت نہیں کریں گے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پورے ملک میں ہم احتجاج کریں گے اور پیچھے نہیں ہٹیں گے جب تک یہ بل واپس نہیں لیا جائے گا
جماعت اسلامی مہاراشٹر کے سیکرٹری جناب ظفر انصاری صاحب نے پریس کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وقف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز چاہے زمین کی شکل میں ہو قبرستان کی شکل میں ہو باغ کی شکل میں ہوں جو اللہ کے لیے دے دی جاتی ہے اللہ کے نام پہ دان کر دی جاتی ہے تو اس کی مالکانہ حیثیت اب اس شخص کی نہیں رہتی کمیونٹی کی نہیں رہتی حکومت کی نہیں رہتی اس کا مالک جو ہے وہ اللہ تعالی ہوتا ہے وقف اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ وقف کی ہوئی چیزوں سے جو فوائد حاصل ہو رہے ہوں وہ ملت کے غریبوں میں پسماندہ لوگوں میں بیواؤں میں اور مجبوروں بے کس لوگوں میں اس کے فوائد کو تقسیم کیا جائے اور اس میں کہیں بھی اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے وقف کے فوائد نے صرف فوائد کے حقدار مسلمان ہوں گے اسلام انسانیت کا مذہب ہے اس لحاظ سے وقت کے جو فوائد ہوں گے اس میں تمام انسان برابر کے شریک ہوں گے
اوقاف سیل کے سیکریٹری فہیم فلائی نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ ہمارے اس دستور نے انصاف آزادی اور مساوات تینوں کو یقینی بنایا ہے کہ تمام شہری برابر ہے دستور ان کو برابر کی نظر سے دیکھتا ہے ہمارے سکھ بھائیوں کے لیے گردوارہ پربندھ کمیٹی ہے کرسچن بھائیوں کے لیے مشنریز ہیں ان کے اپنے ٹرسٹ ہیں ہمارے اپنے ہندو بھائیوں کے لیے دیوستان ہے مندروں کے ٹرسٹ ہیں جو اپنے اپنے قوانین اور قاعدے کے مطابق اچھے انداز میں اپنے مذہبی اداروں کو سنستھاؤ کو چلا رہے ہیں تو آخر ایسا کیا ہو گیا کہ وقف جو ایک مذہبی ادارہ ہے جس کا راست تعلق مسلمانوں کی شریعت سے ہے تو حکومت اس میں مداخلت کرنا چاہتی ہے تو مذہبی معاملات میں کسی بھی طرح کی حکومت کی مداخلت کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا جائے گا اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اگر بل واپس نہیں لیا گیا تو پورے ملک میں ملی سماجی مذہبی تنظیموں اور انصاف پسند شہریوں کے ساتھ مل کر ایک پوری تحریک کھڑی کی جائے گی۔ آخر میں شاکر شیخ کوارڈنیٹر مہاراشٹر ڈیموکریٹک فورم نے اظہار تشکر کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے