جینے کی تمنّا کے ہاتھوں جینے کے سب سامان بکے

تحریر: سمیع اللہ خان
samiullahkhanofficial97@gmail.com

ایک دفعہ ایک مجلس میں دو ساتھیوں کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا موبائل ہاتھ کی گھڑی سے مربوط کیا ہوا ہے، یعنی موبائل فون کو گھڑی کے ذریعے استعمال کرتے تھے ۔
میں نے کہا بھئی ٹکنالوجی سے فایدہ اٹھاتے اٹھاتے اس کی لت اور غلامی میں کیوں مبتلا ہونا ؟ میرے نزدیک یہ موبائل فون والی گھڑی استعمال کرنا ایسا ہی ہے، اور اس درجہ ٹکنالوجی سے خود کو گھیر لینا بہت ہی خطرناک ہے چاہے آپ کو ابھی سمجھ نہ آئے ۔ ایسی غیر معقولیت دیکھ مجھ سے رہا نہیں جاتا اس لیے کھری کھری سنا دی، البتہ محبت کے ساتھ ۔
خیر ایک ساتھی نے فوراً اسے اتار بھی دیا،
گزشتہ دنوں لبنان میں اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف جنگ کےنام پر انہی الکٹرانک آلات کو ہتھیار بنایا اور کئی لوگوں کا قتل کردیا، جس کے بعد سے پوری دنیا میں یہ تشویش پھیل گئی ہےکہ کیا ہمارے الکٹرانک ٹکنالوجی کے آلات وقت آنے پر ہمارے لیے جان لیوا ہتھیار بھی بن سکتے ہیں ؟ یہ تشویش اس حد تک عام انسانوں میں بڑھ گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے اسرائیل کے اس حملے کا سختی سے نوٹس لے رہے ہیں ۔ تاکہ انسانوں کو لگے کہ کوئی نہ کوئی ادارہ ہمیں ایسے حملوں سے بچانے کے لیے کام کر رہا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ۔ ماڈرن ٹکنالوجی کو اتنا ہی استعمال کرنا چاہیے جتنی ضرورت ہو یعنی کہ جہاں ٹکنالوجی کےبغیر کام نہیں چل سکتا ہو وہیں ٹکنالوجی کا استعمال کریں، لیکن زندگی کے ہر قدم پر اپنے آپ کو ٹکنالوجی کا محتاج بنا کر رکھنا یہ اتنی بڑی غلطی ہے جس کا خمیازہ تب بھگتنا پڑے گا جب آپ کو لگےگا کہ میں تو چوطرفہ سرویلینس میں جی رہا ہوں ۔ دنیا میں ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ جن گھروں میں ہائی پاور سیٹیلائٹ ٹکنالوجی کے آلات کی کثرت تھی وہاں بآسانی گھر میں داخل ہوئے بغیر واردات انجام دی جاسکتی ہیں اور جن گاڑیوں کا بیشتر سسٹم الکٹرانک تکنیک پر منحصر ہو ان گاڑیوں کا اغواء بآسانی کیا جا سکتا ہے ۔
احادیثِ فتن اور قرب قیامت کی روشنی میں اگر آج کی ٹکنالوجی کا تجزیہ کیا جائے تو مزید وضاحت ہوگی کہ یہ ٹکنالوجی کیسے فتنوں کی شکل اختیار کر انسانوں کو کارپوریٹ غلامی اور مشینی بے حسی میں جکڑ رہی ہے۔
میں اپنے دوستوں سے بارہا کہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ایسی عادت بھی رکھیے کہ آپ ہر مہینے میں تین دن موبائل کےبغیر رہیں صرف اور صرف قدرت و فطرت کی سرسبز وادیوں میں گزاریں، فطرت کی سرگوشیاں سنیں، پہاڑوں سے باتیں کریں، سمندروں، دریاؤں اور ستاروں بھرے آسمان کا مزاج سمجھنے کی کوشش کریں، آخر زمانے میں ساری ماڈرن ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی اور ٹکنالوجی سے آزاد ایسے دیہاتی، دقیانوسی اور دہقانی لوگ کامیاب قرار پائیں گے۔ !

افلاس زدہ دِہقانوں کے ہَل بیل بکے، کھلیان بکے
جینے کی تمنّا کے ہاتھوں جینے کے سب سامان بکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے