تحریر:محمد قاسم ٹانڈوی
غُلامی، اَسیری اور فقیری (تنگ دستی) کی حالت میں بھی زندگی گُزر بَسر کرتے ایک عام آدمی کو رہ رہ کر اپنی عزّتِ نفس کا خیال ہر آن ستاتا رہتا ہے، اسے ہر وقت یہی فِکر دامن گیر رہتی ہےکہ
"طوقِ غلامی سے گردن چھوٹ جانے، قید سَلاسِل سے رہائی ملنے اور فاقہ کَشی کی اس صورتحال سے اُبَر جانے کے بعد پتہ نہیں یہ ظالم دنیا اس کے ساتھ کیا معاملہ اختیار کرےگی، اُس کے پیچھے آنے والی نسل کے ساتھ کس روِیّہ سے پیش آئےگی یا اس کے بچوں کو کون کس نظر سے دیکھےگا؟ وغیرہ؛ ایسے ہی مختلف مگر بامعنی سوالات ان تین قسم کے لوگوں کو پریشان کئے رہتے ہیں۔
اور ان مذکورہ اشخاص کا ایسا سوچنا یا اپنے بعد اپنے بچوں کی طرف سے اس طرح غمگین و رنجیدہ ہونا درحقیقت ہمارے سماج کی اس گھٹیا سوچ اور نکمّے پَن کو ظاہر و آشکارہ کرتا ہے جس میں ہم جی رہے ہیں اور آئینہ میں اپنا رخ دیکھنے کی بجائے اس آئینہ کا رُخ ہی ہم نے دوسروں کی طرف کر رکھا ہے۔
جب سماج کی مجموعی صورتحال اس سطح اور پیمانے کو واضح کرنے لگ جاتی ہے تو پھر آپ کو اس بات پر یقین لانا ہوگا کہ
"ضرورت مندوں اورغلامی و اسیری میں مبتلا اشخاص کی عمیق نظریں واقعی بےحِس معاشرہ اور بےشُعور سماج کے پورے تانے بانے کو تاڑ رہی ہوتی ہیں؛ انہیں اپنی پیشانی پر موجود آنکھوں کی بَصارت اور دل کے نِہاں خانوں سے چَھنتے بصیرت کے نور میں سماج و معاشرے کی ایک ایک حرکات و سکنات کا نہ صرف مُشاہدہ ہو رہا ہوتا ہے بلکہ عقل و فہم کے ڈَربے میں ان سب چیزوں کو محفوظ بھی قبل از وقت وہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی کُھلی آنکھوں سے
یہ مَناظر بھی صاف دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ایسے مخلص و باوَفا لوگ اب اس دنیا میں نہیں ہیں جو کسی بھی اعلیٰ نیکی کو انجام دیتے ہوئے خوف و رَجا کے عالَم میں ڈوب کر "نیکی کر دَریا میں ڈال” والا تَصوُّر قائم کرتے ہوئے راہ گُزر ہو جایا کرتے تھے بلکہ حالاتِ زمانہ کے ستائے اور قانونی پیچیدگیوں کے شکار یہ لوگ جب سب کچھ نیکی کمانے کے اس ہائی پاور اصول کے بَرعَکس و بَرخلاف ہوتا دیکھ رہے ہوتے ہیں تو انہیں دور تک مایوسی اور تاریکی نظر آتی ہے۔ اس لئے کہ لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ اَیّامِ مصیبت اور عُمُومِی پریشانی کے عالَم میں بھی جب اہل ثَروَت و مُخیّر حضرات کو مخلوقِ خدا کے ساتھ شَفقَت و ہَمدَردِی سے پیش آنے یا کسی سخت اِبتِلاء و آزمائش میں گِھرے عوام کی خدمت کرنے اور ان کی دِلجوئی کی خاطر ان کی مالی اِعانت کرنے کا قُدرت کی طرف سے موقع فراہم کرایا جاتا ہے تو یہ نام و نُمود کے بھوکے اور عزت و شُہرت کے پِیاسے پہلے تو ان ضرورت مندوں اور غیرت مندوں کی غیرت و خُودداری کا جنازہ اس طور پر نکالتے ہیں کہ ان کو کیمرے کے آگے آنے پر مجبور کرتے ہیں، اِمداد کے نام پر تقسیم کئے جانے والے راشن کے پیکج اور اَناج کے تھیلوں کو اپنے نام مع پتہ مُزیّن کراتے ہیں تاکہ جہاں تک بھی یہ سفر و حضر کی مشقتیں برداشت کرتے جائیں وہاں تک ہمارے اس عطیہ اور سامان کی تشہیر میں بوجھل ہوتے چلے جائیں۔ اس کے بعد معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا ہے بلکہ بات اس سے کہیں اور آگے کی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ مال دار اور صاحبِ ثروت طبقہ "صف بہ صف ان کو کھڑا کرکے جب چند وقتوں پر محیط اشیاء خورد و نوش مانندِ "توشۂ سفر” ان غریب لُٹے پِٹے لوگوں کے حوالے کرتا ہے تو سرِعام ان کے فوٹو لینا اور ویڈیو گرافی کرا کر واہ واہی لوٹنے، نام وَری بَٹورنے اور سماج و معاشرہ میں اپنا اَثر و رُسوخ بڑھانے کے واسطے ان ضرورت مندوں کی معصوم تصویروں کو ہاتھوں ہاتھ سوشل میڈیا پر وائِرل اور ٹی وی اَخبارات کی دنیا کو ترسیل کر نہ صرف اپنے پیشے کو مستحکم کیا جاتا ہے بلکہ اپنے کھانے کمانے کے دَھندے کو مزید وسیع اور اس کو فروغ دینے کا اہم سبب بنایا جاتا ہے۔
اُدھر عزتِ نفس کے مُحافظ، اپنی نسلِ نو کے روشن مستقبل کے خواست گار اور مُنکسِرُ المِزاج حضرات کو اس بات کا بھی شدت سے احساس رہتا ہے کہ معاشرے کے اکثر لوگ خُدا داد صلاحیتیں، لیاقتیں اور ذہنی فِکری توانائِیاں صِرف اسی ایک بات پر صَرف کرنے کے عادی ہیں جو یہی تحقیق کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ
"یہ غریب و محنت کش اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود اتنی خوشحال و پُرسُکون زندگی کیوں کر گزار رہا ہے؟ آخر اس نے وہ کون سے اسبابِ زِیست حاصل کر رکھے ہیں جن کی بدولت ہر دَم اس شخص کا چہرہ بےتکان و تازہ دَم نظر آتا ہے؟ عیش و عشرت میں مست اور آرام کدہ میں پَلنے بڑھنے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ ہنسی خوشی اور حصولِ چین سکون کا تعلق مال کی امیری غریبی سے نہیں بلکہ اس کا تعلق حقیقی زندگی سے وابستہ ہوتا ہے، جنہیں صبح کے بعد شام کی اور رات کے بعد دن کی پرواہ نہیں ہوتی۔
حسد و جلن کی تپتی بَھٹّی میں مُستَغرق اس مالدار طبقے کو اس غریب کی محنت و مزدوری اور صبح سے شام تک پیٹھ پر لَاد کر مَنوں بھاری بھاری وزن کے گٹَّھر اور طبیعت کو بوجھل کر دینے والے سِ
یل بند کارٹون جنہیں یہ اکیلے دَم پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے اور دوران مزدوری مالِک کی طرف سے برتے جانے والا تحقیر و توہین آمیز رَوِیّہ، سب و شتم پر مبنی گفتگو اور زہر میں بجھے ہوئے زبانی تیروں کو برداشت کرنا نظر نہیں آتا”؟ ہاں ! اسے تو بس اپنی دنیا بنانے اور دوسروں کی دنیا اُجاڑنے سے مطلب ہے، اور یہ سب کرنے کےلئے چاہے کسی کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچائی جائے یا ذہنی طور پر کسی کو پریشانی میں مبتلا کیا جائے یا پھر نام و نمود، رِیاکارِی اور شہرت پرستی کا غلام بنا جائے؟
اس لئے خُدارا ! اِمداد و سہارا کے نام پر خود کو، دینِ اسلام کو اور تعلیمات رسول (ﷺ) کو رسوا کرنے سے بچیں اور شانِ صحابہ کے معیار کو قائم و برقرار رکھنے کی سعی کیجئے، وہی ہمارے لئے اُسوہ و نمونہ ہیں اور انہیں کے طے کردہ راستوں پر چلنے میں خیر ہے؛ جیسے کہ: "امیرالمؤمنین سیدنا حضرت عمر ابنِ خطابؓ کا وہ عملِ مبارک کہ جب ایک ضرورت مند بڑھیا کی داد رسی کےلئے سامان اپنے کاندھے پر لادے چلے جا رہے ہیں اور غلام کے اصرار کرنے پر فرمایا کہ کل قیامت کے دن اس کے بارے میں باز پرس میرے سے ہونی ہے” یا اسی طرح سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا وہ معمول مبارک جسے آپؓ لوگوں سے چھپ کر رات کی تاریکی میں بڑھیا کے کام کاز نِمٹا آیا کرتے تھے اور دیگر صحابہ کرامؓ کو آپ کے اس عمل کی ہوا تک نہیں لگتی تھی” یہ عالم تھا ان حضرات کے خلوصِ نیت اور مخلوق کے ساتھ وفاشِعاری، ہمدردی اور شفقت و محبت کا؛ کہ یہ حضرات ہر کام میں رَضائے الہی کے طالب اور ہر نیک کام کی انجام دہی میں خاص توفیقِ رب سے نوازے جانے پر شکر گزار رہا کرتے تھا۔