اخلاقی محاسن، آزادی کے ضامن

ازقلم: عارفہ خاتون
8630132500
arifakhatoon5844@gmail.com

اخلاق انسانیت کا زیور ہے کیونکہ یہ وہ وصف ہے جو انسان کو جانوروں سے الگ کرتا ہے ۔ اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں، اسی لیے تو جاہل، اجڈ اور بد اخلاق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تو بالکل جانور ہے اسے تو ذرا بھی تہذیب نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انسان کو صحیح راستے پر چلانے، اس کی ہدایت ، رہنمائی اور اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے انبیاء کرام مبعوث فرمائے ۔

معاشرت اور اخلاقیات دین اسلام کی بنیاد ہیں ۔ اسلامی تعلیمات میں اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے کیونکہ انسانی اخلاقیات پر ہی پُر سکون معاشرے کا انحصار ہے، پُر سکون معاشرہ بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے کیونکہ اچھے اخلاق و کردار کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اس سے قومیں بنتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں-

رسول اللہ ﷺ نے انسانیت کی اصلاح اور فلاح اور ان کی اخلاقیات کی تعمیر کے لیے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالا۔ اپنا سب کچھ قربان کیا، بادشاہی کا تاج اور دولت کو ٹھکرایا، اپنے آبائی اور محبوب وطن کو چھوڑا، پیٹ پر پتھر باندھے، کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا، گھر والوں کو فقر و فاقہ میں شریک رکھا، دنیا کی ہر قربانی دی اور دنیا کے ہر فائدے اور ہر لذت سے دور رہے مگر عالم انسانیت کوصراط اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کا وہ درس دے گئے کہ تاریخِ انسانی کا دھارا بدل گیا۔

اخلاقیات کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں خواہ وہ معاشرہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کیا میں تمہیں روزہ ، صدقہ اور زکوٰۃ سے بھی افضل چیز بتاؤں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ ہے باہمی خلش کو دور کرنا اور صلح کرانا ۔ موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

آج ہمارے معاشرے میں وہ کون سی برائی ہے جو موجود نہیں ، آج ہمارے معاشرے میں یہ برائیاں وائرس کی طرح پھیل چکی ہیں اور ہماری نوجوان نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہیں، ہمارے معاشرے میں اب لڑائی جھگڑا ، گالی گلوچ ، ظلم و زیادتی ، قتل و غارت ، فساد ، عیب جوئی ، حسد ، غرور و تکبر ، مفاد پرستی ، دھوکہ دہی ، دوغلا پن ، ملاوٹ ، حرص ، رشوت خوری ، زنا کاری ، سود و حرام خوری ، ذخیرہ اندوزی ، چوری ، شراب خوری ، تمباکو نوشی ، ناجائز منافع خوری ، جوا کھیلنا عام ہے ۔

ہمارے نوجوان تربیت سے محروم ہیں ، آج مسلم معاشرے کا حال اتنا خراب ہو چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کا حق مارنے کی تلاش میں ایمان کا بھی سودا کر دیتے ہیں ۔ جو تڑپ، جو درد ، بے چینی اور بے قراری ربّ کائنات کے لئے ہونی چاہیے تھی ، وہ پیسوں کے لئے ہونے لگی ہے ۔ ہماری تربیت اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ ہم ایک وقت کی نماز چھوٹ جانے پر تڑپ اٹھییں ، ہمیں تو مہینے گزر چکے ہیں نمازوں کو چھوڑے ہوئے ، ہم صبح سویرے اٹھنے کے بجائے گیارہ ۔ بارہ بجے اٹھتے ہیں ، والدین ، بھائی بہن ، بیوی بچوں کو وقت دینے کے بجائے موبائل فون کے ساتھ مشغول رہتے ہیں ، نوجوان مسجد اور مدرسے کے بجائے پارکوں اور ریسٹورنٹوں میں بیکار گھومتے رہتے ہیں۔

کسی بھی انسانی معاشرے میں تمام افراد یکساں نہیں ہوتے۔ فرشتہ صفت انسان بھی ہیں اور شیطان اور حیوان نما انسان بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں۔۔۔ قابلِ فخر انسان بھی ہیں اور باعثِ ندامت انسان بھی ہیں۔۔۔ خود غرض بھی ہیں اور جانثار بھی ہیں۔۔۔ اپنے وجود میں کل عالمِ انسانیت کے لیے قابلِ فخر بھی ہیں اور ساری انسانیت کی تذلیل کا عنوان رکھنے والے بھی ہیں۔۔۔ الغرض اس دنیا میں نور بھی ہے اور ظلمت بھی ہے۔اسی طرح یہ سارا عالم، عالمِ انسداد بھی ہے۔ ہر اچھائی کے مقابل برائی بھی ہے اور ہر برائی کے مقابل اچھائی بھی ہے۔انسان ہمیشہ سے اس تغیر پذیر معاشرے کا حصہ ہے۔

ایک منظم اور مہذب معاشرہ اپنے اجتماعی وجود میں یقین، اعلیٰ اصول اور بہترین اخلاق، اجتماعی فرض کا احساس اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر معاشرے میں اخلاقی گراوٹ آجائے، ہر شعبۂ حیات میں بے اصولی عام ہوجائے اور خود غرضی ہر جگہ اپنے ڈیرے ڈال لے، طاقت اور دولت سے مرعوبیت ایک معاشرتی حقیقت بن جائے اور معاشرے میں بزدلی اور ظلم کا چلن عام ہوجائے تو قومی زندگی کے شجر سایہ دار کو گھن لگ جاتا ہے اور پھر نئے نئے حکمرانوں اور حکومتوں کا آنا بھی قوم کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔

انسانیت کا دارومدار اخلاقیات پر ہے۔اخلاقی اقدار سے خالی شخص انسانیت کے لیے ایک وحشی درندے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔میعار اخلاقیات ہی وہ کنٹرولر ہے جو انسان کو ہر طرح کے خسارے اور کشیدگی سے محفوظ رکھتا ہے۔اسلامی تعلیمات نے اخلاقیات کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے کیونکہ انسانی اخلاقیات پر ہی پر سکون معاشرے کا انحصار ہے۔قرآن انسانوں کے لئے وہ قیمتی تحفہ ہے جس میں زندگی بسر کرنے کے ایسے منظم طریقے بتائے گئے ہیں جو کسی اور مذہب میں نہیں۔قرآن صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت کی کتاب ہے اگر اسکے اصولوں پر عمل نہیں کیا گیا تو ہمارے حق میں سوائے بربادی کے کچھ نہیں جو کہ دور حاضر میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے ۔آج معیار اخلاق میں مسلسل گراوٹ جو نظر آ رہی ہے اسکا سبب کچھ اور نہیں بلکہ قرآن و سنت سے دوری ہے۔ہم نے اسلام کے ان بنیادی اصولوں پر زندگی گزارنا چھوڑ دیا ہے جو عظیم شخصیت کا معمار ہیں۔آج بگڑتے ہوئے معاشرہ کے لیے جن اصولوں ضوابط کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے وہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی ہمارے سامنے پیش کر دئیے۔سورہ الحجرات میں مندرجہ ذیل احکامات بیان کئے گئے ہیں ۔
▪️فتبینوا:
اگر تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کیا کرو
▪️فا اصلحوا:
اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو تمام مسلمان بھائی ہیں۔
▪️واقسطوا:
انصاف کا خیال رکھو بیشک اللہ انصاف والوں کو پسند کرتا ہے۔
▪️لا یسخر:
لوگوں کا مذاق نہ اڑاو ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کی نظر میں تم سے بہتر ہو ۔
▪️ولا تلمزوا:
ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو۔
▪️ولا تنابزوا:
ایک دوسرے کو برے لقب سے نہ پکارو۔
▪️اجتنبوا کثیرا منالظن:
گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
▪️ولا تجسسوا:
سراغ مت لگایا کرو۔
▪️ولا یغتب بعضکم بعضاء:
ایک دوسرے کی غیبت نا کیا کرو۔
یہ وہ بنیادی اصول ہیں جو ایک عظیم شخصیت اور پرسکون معاشرے کی تشکیل کی ضمانت دیتے ہیں ۔اگر ہم حال کا جائزہ لیں تو مننظر مندرجہ بالا اصول کے برعکس نظر آتا ہے جس کے سبب معاشرے میں بد امنی،بے سکونی پھیلی ہوئی ہے۔معاشرہ لڑائی جھگڑا، قتل و غارت گری کی آماجگاہ بن گیا، عدل و انصاف کا تعلق محض نام تک ہی محدود ہو کر رہ گیا، طاقتور غریب و ناتواں کے استحصال کو اپنا حق سمجھنے لگے،بے حیائی عام ہونے لگی،جھوٹ سچ پر غالب آنے لگا،چھوٹے بڑوں کا احترام بھولتے جا رہے ہیں نیز اونچی آواز میں بات کرنے کو confidence (اعتماد)کی علامت سمجھا جانے لگا،مختصر یہ کہ بھلے ہی ہم نے آج سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مثال قائم کرلی ہو مگر معاشرتی لحاظ سے ہم اس دور جہالت کی طرف لوٹ رہے ہیں جسکا برسوں پہلے اسلام نے خاتمہ کیا تھا اور وہ ساری اخلاقی قدریں پامال ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے جو پر سکون معاشرے کا ستون ہیں۔
اسلام ایک پرسکون اور برائیوں سے پاک معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے۔مطلوبہ معاشرے کی تشکیل اس وقت ہی ممکن ہے جب اس میں اتحاد و اتفاق،اخوت،بھائی چارہ، عدل و انصاف،نرمی، محبت و شفقت، احترام جیسے عنصر شامل ہوں جسکی اسلام تعلیم دیتا ہے۔اخلاقی اقدار ہی وہ جز ہے جو انسان کو تمام مخلوقات سے اشرف بناتا ہے۔اسلام میں ان تمام ادنٰی سے ادنٰی پہلو مثلا ہنسنے،کھانے پینے،اٹھنے بیٹھنے، چلنے،آداب مجلس، آداب گفتگو،ملاقات کے آداب کو اجاگر کیا گیا ہے جو عظیم شخصیت کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
امام بخاری،مسلم اور ابو داؤد حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا :
"ہمیشہ سچ بولو کیونکہ سچائی نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے،جو شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچائی کی جستجو میں رہتا ہے اسے بالا آخر اللہ تعالٰی کے یہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے، جو شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے اسے بالآخر اللہ تعالٰی کے یہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔”
جھوٹ کفر کی اہم ترین بنیاد اور منافقت کی واضح ترین علامت ہے۔اخلاقی اقدار کے زوال اور معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔جھوٹ اتنی خطرناک معاشرتی بیماری ہے کہ اگر اسے قابو نہ کیا گیا تو امت ایسے تباہ ہوگی ک پھر کبھی سنبھل نہ سکے گی۔اسکے برعکس سچائی اسلام کا اہم ترین اصول ہے اور نبوی اخلاق کا اعلی ترین وصف،سچائی ملائکہ کی خوبی ہے جھوٹ شیطانی خصلت۔معاشرہ اور انسانیت کو برائی کی دلدل سے بچانے کا جو واحد راستہ ہمیں نظر آتا ہے وہ صرف اور صرف قرآنی احکامات اور سنت ہے۔اخلاقی اقدارکی بہتری اور اسکو پروان چڑھانےکے لئے قرآن و سنت پر عمل وقت کی اہم ضرورت ہے۔تمام برائیوں سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اصول و ضوابط کو عام کیا جائے نو جوان نسل کو اس طرف راغب کیا جائے تاکہ آگے چل کر یہ نسل برائیوں سے پاک معاشرے کی بانی بنے۔

آپ ﷺ نے محض 23 برس میں دنیا کی کایا پلٹ دی، دنیا کا ضمیر جگادیا، نیکی کو شر پر غلبہ مل گیا، انسانوں کو اچھے اور برے کی تمیز ہوگئی، خدا کی بندگی کا راستہ کھل گیا، انسان طبقات میں ذات پات کی اونچ نیچ دور ہوگئی، زبان و نسل اور رنگ و علاقے کا فرق ختم ہوگیا، قومی اور نسلی غرور ٹوٹ گیا، عورتوں کو ان کے حقوق مل گئے اور کمزور اور بے کسوں کی دلجوئی ہونے لگی۔

ایسے کردار کا حامل انسانی معاشرہ معرضِ وجود میں آیا جس کے افراد دشمن کے ساتھ بھی انصاف کرنے لگے، دوسروں کے آرام کی خاطرمصیبت برداشت کرنے لگے اور کمزور کو طاقتور پر ترجیح دینے لگے۔

اگر انسانی معاشرہ صدیوں کا سفر کرتے کرتے پیچھے چلا جائے تو اس انسانی معاشرے کی تعمیر میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے اسے عطا کیا ہے، وہ سب کچھ اس سے اگر لے لیا جائے تو انسانی تہذیب اور انسانی معاشرہ ہر مثبت قدر اور اخلاق سے محروم نظر آئے گا۔

آج دنیا کی موجودہ فتنہ و فسادکی حالت دین اسلام کی تعلیمات سے دوری اور اسوۂ مصطفیٰ ﷺ کو اپنے کردار و عمل کا حصہ نہ بنانے کے سبب ہے۔ عصر حاضر میں اگر انسانی اقدار اور ارفع انسانی روایات میں کوئی تباہی اور بربادی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اس موجودہ زبوں حالی پر ہمارا کردار اس شخص کی طرح ہے جو سارے درخت کاٹ کاٹ کر سایہ تلاش کرتا ہے۔

تمام پیڑ جلا کر خود اپنے ہاتھوں سے
عجیب شخص ہے کہ سائے تلاش کرتا ہے

ہمیں ایمان کے اس شجرِ سایہ دار کی حفاظت کرنا ہوگی، اسے محبت رسول ﷺ اور تعلیماتِ دین سے سیراب کرنا ہوگا، اسی صورت ہم اس شجر سے اعمالِ صالحہ کا پھل حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

مومن ہو یا کافر‘ نیک ہو یا بد‘ مصلح ہو یا مفسد‘ غرض جو بھی ہو‘ وہ اگر کارگر انسان ہوسکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ اس کے اندر ارادے کی طاقت اور فیصلے کی قوت ہو‘ عزم اور حوصلہ‘ صبر و ثبات اور استقلال ہو‘ تحمل اور برداشت ہو‘ ہمت اور شجاعت ہو‘ مستعدی و جفاکشی ہو‘ اپنے مقصد کا عشق اور اس کے لیے ہر چیز قربان کردینے کا بل بوتا ہو‘ حزم و احتیاط اور معاملہ فہمی و تدبر ہو‘ حالات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے آپ کوڈھالنے اور مناسب تدبیر کرنے کی قابلیت ہو‘ اپنے جذبات و خواہشات اور ہیجانات پر قابو ہو‘ اور دوسرے انسانوں کو موہنے اور ان کے دل میںجگہ پیدا کرنے اور ان سے کام لینے کی صلاحیت ہو۔

پھر ناگزیر ہے کہ اس کے اندر وہ شریفانہ خصائل بھی کچھ نہ کچھ موجود ہوں جو فی الحقیقت جوہرِ آدمیت ہیں اور جن کی بدولت آدمی کا وقار و اعتبار دنیا میں قائم ہوتا ہے۔ مثلاً خود داری‘ فیاضی‘ رحم‘ ہمدردی‘ انصاف‘ وسعتِ قلب و نظر‘ سچائی‘ امانت‘ راست بازی‘ پاسِ عہد‘ معقولیت‘ اعتدال‘ شائستگی‘ طہارت و نظافت اور ذہن و نفس کا انضباط۔

سب سے پہلے ٹھنڈے دل سے اس سوال پر غور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول دنیا میں کس غرض کے لیے بھیجے ہیں؟ دنیا میں آخر کس چیز کی کمی تھی؟ کیا خرابی پائی جاتی تھی جسے رفع کرنے کے لیے انبیاء مبعوث کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ کیا وہ یہ تھی کہ لوگ داڑھیاں نہ رکھتے تھے اور انہیں کے رکھوانے کے لیے رسول بھیجے گئے؟ یا یہ کہ لوگ ٹخنے ڈھانکے رہتے تھے اورانبیاء کے ذریعے سے انہیں کھلوانا مقصود تھا؟ یاوہ چند سنتیں‘ جن کے اہتمام کا آپ لوگوں میں بہت چرچا ہے‘ دنیا میں جاری کرنے کے لیے انبیاء کی ضرورت تھی؟ ان سوالات پر آپ غور کریں گے تو خود ہی کہہ دیں گے کہ نہ اصل خرابیاں یہ تھیں اور نہ انبیاء کی بعثت کا اصل مقصود یہ تھا۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ اصل خرابیاں کیا تھیں جنہیں دور کرنا مطلوب تھا اور وہ حقیقی بھلائیاں کیا تھیں جنہیں قائم کرنے کی ضرورت تھی؟ اس کا جواب آپ اس کے سوا اور کیا دے سکتے ہیں کہ خدائے واحد کی اطاعت و بندگی سے انحراف‘ خود ساختہ اصول و قوانین کی پیروی‘ اور خدا کے سامنے ذمہ داری و جوابدہی کا عدم احساس‘ یہ تھیں وہ اصل خرابیاں جو دنیا میں رونما ہوگئی تھیں۔ انہیں کی بدولت اخلاقِ فاسدہ پیدا ہوئے‘ غلط اصول زندگی رائج ہوئے اور زمین میں فساد برپا ہوا۔ پھر انبیاء علیہم السلام اس غرض کے لیے بھیجے گئے کہ انسانوں میں خدا کی بندگی و وفاداری اور اس کے سامنے اپنی جوابدہی کا احساس پیدا کیا جائے‘ اخلاقِ فاضلہ کو نشوونما دیاجائے اور انسانی زندگی کا نظام ان اصولوں پر قائم کیا جائے جن سے خیر و صلاح ابھرے اور شر و فساد دبے۔ یہی ایک مقصد تمام انبیاء کی بعثت کا تھا اور آخر کار اسی مقصد کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے