ازقلم: محمد صدر عالم ندوی
(مدنی نگر) مہوا،ویشالی
رابطہ: 9661819412
ڈاکٹر ممتاز احمد خاں سابق پروفیسر بہار یونیورسٹی مظفرپور ایک کامیاب مدرس،ماہر اقبالیات اور اردو ادیب کی حیثیت سے پورے ملک میں جانے پہچانے جاتے تھے،ان کی مقبولیت ہر خاص و عام میں تھی،ملنے جلنے کا انداز نرالا تھا جو ایک مرتبہ ان سے ملتا تھا وہ انہی کا ہو جاتاتھا۔ان کے اخلاق اور علم دوستی کی وجہ سے ممتاز احمد خاں کی زندگی میں ہی ان کے لائق و فائق شاگرد ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق نے اپنے استاد ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی زندگی پر اہل قلم کے مضامین کا مجموعہ”ممتاز احمد خاں ایک شخص ایک کارواں“ چھپوایا۔یہ کتاب ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی زندگی کو سمجھنے کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت سےہے۔ڈاکٹر صاحب ایک معمولی سی بیماری میں لاک ڈاؤن کے زمانے میں انتقال فرما گئے۔لاک ڈاؤن ہونے کے باوجود سارے حدوں کو پار کرتے ہوئے ان کے عقیدت مندوں کا اچھا خاصا مجمع نماز جنازہ میں تھا۔ڈاکٹر صاحب کے قریبی رفیق معروف قلم کار انوار الحسن وسطوی کے دولت کدہ پر ایک تعزیتی نشست میں ان کی زندگی پر ایک کتاب ترتیب دینے کا اعلان ہوا،جسے جواں سال،مجاہد ویشالی،متحرک،فعال،مشہور و معروف عالم دین،مدرسہ احمدیہ ابابکرپور کے موقر استاد،مدرسہ حسینیہ چھپرہ خرد،ضلع ویشالی کے ناظم حضرت مولانا محمد قمر عالم ندوی بن مولانا عبدالقیوم صاحب شمسی (اماموری،پاتے پور،ضلع ویشالی)نے بڑھ کر اپنا نام پیش کیا،جسے سامعین نے بصد شوق قبول کیا،اس طرح مولانا محمد قمر عالم ندوی کی مرتب کردہ کتاب ڈاکٹر ممتاز احمد خاں:زبان خلق کی نظر میں اسی ماہ ستمبر 2024 میں چھپ کر آئی ہے۔اس کتاب کے ناشر صاحب کتاب کے صاحبزادہ ڈاکٹر لطیف احمد خاں ہیں۔انہوں نے عرض ناشر میں مرتب کتاب مولانا محمد قمر عالم ندوی کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہیں:
”انہوں نے میرے پاپا مرحوم پر نہ صرف کتاب ترتیب دینے کا کام کیا بلکہ پاپا سے اپنے قلبی محبت کا مظاہرہ بھی کیا سچائی یہ ہے کہ مولانا موصوف محبت کے اس مظاہرے میں وہ پاپا کے عزیز شاگردوں پر بھی سبقت لے گئے اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے اور ان کے اس جذبے کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین“ (ص: 8)
مرتب کتاب مولانا محمد قمر عالم ندوی اپنی تحریر میں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں یوں طراز ہیں:
”ڈاکٹر صاحب کومیں جب بھی فون کرتا تو آپ فوراً ریسیو کرتے، فون کبھی نہیں اٹھا پاتے تو کال کا جواب دیتے، وقت لوں یا نہ لوں، آپ کے گھر پہ پہنچ جاتا تو بڑی عزت و اکرام کے ساتھ استقبال کرتے، خوب اچھی طرح خاطر مدارات کرتے، مجھے یاد نہیں کہ ان کے گھر سے بغیر بسکٹ اور چائے کے میں کبھی واپس ہوا ہوں، ڈاکٹر صاحب سے میرا اور میرے گھرانے کا والد محترم ہوں یا چھوٹے بھائی مولانا محمد صدر عالم ندوی، سبھوں سے بہت ہی قلبی لگاؤ اور تعلق رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب آپ بیمار پڑے، اور ہماری آپ سے بات ہوئی، تو آپ نے کہا کہ: ”صدر عالم بابو سے کہیے گا کہ ہمارے لیے شفایابی کی دعا کریں“۔
ڈاکٹر صاحب کی آٹھ کتابیں اردو میں مرصع نثر کی روایت اقبال شاعر و دانشور، ادب اور ادبی رویہ، متاع نقد و نظر، عبدالمغنی صدیق ایڈوکٹ اور درد تہ جام ہیں اور یہ سب کتابیں مطبوعہ ہیں اور ساری کتابوں پر تعارفی مضامین اس کتاب میں شامل ہیں۔
اقبال شاعر و دانشور کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ پہلا ایڈیشن بہت ہی جلد ختم ہو گیا اور دوسرا ایڈیشن ہندو پاک میں نکلا۔یہ کتاب ان کے لیے بہترین صدقہ جاریہ ہے۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خان زبان خلق کی نظر میں یہ کتاب چار بابوں پر مشتمل ہے۔باب اول میں 29 اہل قلم کے مضامین ڈاکٹر ممتاز احمد خان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر ہیں۔ان کی آٹھ کتابوں پر سات اہل قلم کے تعارفی مضمون ہیں، جن کے نام اس طرح ہیں محمد قمر عالم ندوی،انوار الحسن وسطوی،مفتی محمد ثنا اللہ قاسمی اور مظہر وستوی مفتی محمد ثناء الحد قاسمی کا تعارفی مضمون دو کتابوں اور ادبی رویہ پر ہے۔
تیسرے باب میں منظوم ومنثور تعزیتی بیان ہیں باب چہارم مختلف اخبارات سے ماخوذ تعزیتی بیان، کچھ تصاویر ہیں۔اخیر میں مرتب کتاب مولانا محمد قمر عالم ندوی کا اجمالی خاکہ ہے،اس کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا موصوف علم دوست انسان ہیں اور ان کا تعلق درس و تدریس اور تصنیف و تالیف سے گہرا ہے۔ان کی آٹھ کتابیں چھپ چکی ہیں اور ساتھ کتابیں زیر ترتیب ہیں،اس طرح مختلف موضوع پر ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف و مولف ہیں۔کتاب کے فلیف پر دائیں جانب پروفیسر فاروق احمد صدیقی سابق صدر شعبہ اردو بہار یونیورسٹی،مظفر پور کی تحریر ہے،آپ یوی رقم طراز ہیں:
”ڈاکٹر ممتاز احمد خاں زبان خلق کی نظر میں“ ہے،جس میں تقریبا دو درجن قلم کاروں کی قیمتی نگارشات ہیں،جن میں ممتاز صاحب کی شخصی خوبیوں اور ادبی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔کتاب کے نام میں زبان خلق کی ترکیب بہت ہی پرمعنی اور بلیغ ہے۔ہو سکتا ہے مرتب کتاب ”مولانا محمد قمر عالم ندوی استاد مدرسہ احمدیہ ابابکر پور“نے اس مشہور شعر سے استفادہ کیا ہو۔
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبان خلق، کو نقارہ خدا سمجھو
یعنی ممتاز مرحوم کی شہرت و مقبولیت میں کچھ غیبی اشارے کی کارفرمائی خارج از امکان نہیں“۔ (ص: 15)
کتاب کے بائیں جانب فلیپ پر مفسر قران مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی سابق پرنسپل مدرسہ اسلامیہ شمش الہدی پٹنہ کی تحریر یوں ہے:
”میں نے مولانا محمد قمرعالم ندوی کی کتاب ڈاکٹرممتاز احمد خاں زبان خلق کی نظر میں کے مسودہ کا مطالعہ کیا، اس کتاب میں شامل تمام مضامین اپنے عنوان کے مطابق ہیں یہ مضامین مشہور علماء ادباء اور اہم حضرات کے ہیں، جو ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے قریب تھے، انہوں نے ان کو قریب سے دیکھا اور ان سے وابستہ رہے۔
اس لئے یہ مضامین ان کی زندگی کے حقیقی پہلو پر بھی مشتمل ہیں اور ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی شخصیت اور ان کے فن کو سامنے لانے میں بھی معین و مددگار ہیں ۔ کتاب کے مرتب مولانا محمد قمر عالم ندوی نوجوان اور جید عالم دین ہیں، مطالعہ کا شوق اور تحریر و تقریر میں مہارت رکھتے ہیں، اچھا لکھتے ہیں دھن کے پکے ہیں، یہ کتاب اس پر گواہ ہے، انہوں نے اچھے اتنے قلم کاروں سے مضمون لکھوا لیا اور کتاب مرتب کر دی یہ بھی ان کا کارنامہ ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذوق و شوق کو باقی رکھے، تاکہ یہ اکابر کے کارناموں کو اسی طرح منظر عام پرلاتے رہیں“۔
کتاب کے شروع میں چار حضرات پروفیسر فاروق احمد صدیقی،مفسر قران مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی،حضرت مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی اور پروفیسر کامران غنی صبا کی تعارفی تحریر مختلف عناوین پر ہے۔
224 صفحات کی کتاب پر کہیں کوئی قیمت درج نہیں،جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے متعلقین کے لیے ہدیتا ہے قیمتا نہیں۔یہ کتاب دیدہ زیب مجلد اور کور کے ساتھ دربھنگہ ٹائمز پبلیکیشن کےبینر تلے چھپ کر آئی ہے،اس کو دیکھنے کے بعد یہ کتاب قارئین کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔
میں اس کتاب کی ترتیب پر مرتب کتاب مولانا محمد قمرعالم ندوی مقام اماموری،پاتے پور ضلع ویشالی کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں،اس امید کے ساتھ کہ ان کی اور دوسری کتابیں بھی طبع ہوکر جلد از جلد آجائیں۔