تحریر: خالد سیف اللہ صدیقی
میں نے حالیہ اپنی دو تحریروں میں مشترکہ طور پر واضح کر دیا ہے کہ ہریانہ میں مسلمانوں کی دینی حالت کیا ہے ، اور یہ کہ وہاں قادیانیت کس طرح پھیلائی جا رہی ، اور مسلمانوں کو کس طرح مرتد کیا جا رہا ہے۔ تحریر پڑھ کر بہت سے حضرات نے فکرمندی کا اظہار کیا ، اور بعض درد مندوں نے مستقبل میں مذکورہ علاقے میں ہی خدمت سر انجام دینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسئلے کا فوری اور حقیقی حل کیا ہے ؟ اس ارتدادی مہم کو کس طرح روکا جانا ممکن ہے ؟ اس پر علماء و مصلحین کو غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے____یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہاں مسلم آبادی بہت کم ہے۔ مستزاد یہ کہ جہالت و بے دینی کا دورہ ہے۔ ایسے میں یہ توقع لگانا کہ وہیں کے لوگ اس مسئلے کو حل کر لیں گے ، اور اس معاملے سے نمٹ لیں گے ، ایک طرح کا غیر سنجیدہ خیال ہے۔ یہاں پر یہ بھی وا ضح رہنا چاہیے کہ یہ صورتِ مذکور پورے ہریانے کی نہیں ہے۔ کچھ علاقوں میں پڑھے لکھے ، دین دار اور اہل علم قسم کے حضرات بھی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب وہیں پر کچھ دین دار اور اہل علم قسم کے حضرات بھی موجود ہیں ، تو پھر ہمیں باہر سے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اگر ان علاقے کے حضرات کے بس میں اس مسئلے کا حل ہوتا ، تو اب تک یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہو گیا ؟ اس لیے کہ حالات سے یہی لگتا ہے کہ قادیانیوں کی اس علاقے میں آمد و رفت آج کا کوئی نیا معاملہ نہیں ہوگا ؛ بلکہ یہ زمانے سے یہاں آتے جاتے رہے ہوں گے۔ ایسے میں دو باتوں میں سے ایک ضرور ہوگی۔ یا تو یہ کہ علاقے کے جو بھی تھوڑے بہت اہل علم ہوں گے ، ان کے بس میں اس مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔ یا پھر یہ ہوگی کہ ان حضرات کو اس مسئلے میں دل چسپی نہیں ہوگی۔ دونوں میں سے کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوگی۔ اور دونوں صورتوں میں ہی باہر کے لوگوں کی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔ لہذا باہر کے لوگوں کو اس مسئلے میں دل چسپی لینی ہوگی ، اور اپنی ذمے داری بہ قدرِ امکان نبھانی ہوگی۔ اب مسلمان کیا کریں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ خود علاقے کے سربرآوردہ اور ذمے داران کو اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے ؛ لیکن چونکہ ان سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا ہے ؛ لہذا باہر کے حضرات مداخلت کریں اور ضرور کریں! باہر کے لوگ اس خطے کو اپنی سرگرمیوں کا میدان بنائیں! اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلا : یہ کہ یہاں آکر مکاتب اور مدارس قائم کریں! اسی طرح جماعت والے کثرت سے ان علاقوں میں آنا جانا کریں! اسی طرح کبھی علما کی ٹیم وہاں پہنچ جائے ، اور مختلف گاؤں اور بستیوں کا دورہ کرے ، اور مسلمانوں کو اکٹھے کر کر کے ان کو دین و ایمان کی اہمیت سمجھائے۔ ان کو نماز اور دین کے ضروری مسائل سے آگاہ کرے۔ اسی طرح موقع موقع سے وہاں تبلیغی اجتماعات منعقد کرائے جائیں! لوگوں کو جماعت میں مختلف مدتوں کے لیے بھیجا جائے! ان سب کے علاوہ جو قادیانی حضرات وہاں اپنے مشن کے لیے آتے ہیں ، ان کے خلاف قانونی کارروائی ممکن ہو ، تو اس سے دریغ نہ کیا جائے۔ نیز نظر رکھا جائے کہ کب کون قادیانی علاقے میں آتا ہے۔ اس کے لیے بہتر طریقہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ خود وہیں کے لوگوں کو ان معاملوں میں حساس کر دیا جائے! انہیں خود ایسے لوگوں پر نظر رکھنے کو کہا جائے! پھر جب قادیانی آئیں ، تو یہ حضرات مربوط علما کو باخبر کریں ، اور پھر علما آکر ان معاملوں کی جانچ کریں ، اور موقع کی مناسبت سے جو بھی کارروائی ان قادیانیوں کے خلاف ہو سکتی ہو ، کریں! ان شاءاللہ! جب قادیانیوں کی ہمارے علما سے بالمشافہ ملاقاتیں ہوں گی ، تو ہمارے علما قاعدے سے ان کی خبر لیں گے۔ اسی طرح علما موقع بہ موقع مرزا قادیانی ، قادیانیت اور قادنیوں کی حقیقت بیان کریں! قادیانیت اور اسلام کے درمیان فرق کو واضح کریں! اسلام کا نظریۂ ختم نبوت اور قادیانی ملعون کا دعوی نبوت و رسالت و مہدویت اور شریعت اسلامی میں ان کی حیثیت واضح کریں! امید ہے کہ اگر ہماری اس طرح کی سرگرمیاں وہاں جاری ہو جائیں ، تو قادیانیت خود بہ خود دھیرے دھیرے وہاں دم توڑنا شروع کر دے گی ، اور یہ فتنہ ارتداد دب جائے گا۔ یہ فوری چند باتیں اور طریق ہائے کار میرے ذہن میں آئے ، تو میں نے قلم بند کر دیے۔ آپ حضرات کے ذہنوں میں بھی اگر اس طرح کی باتیں ہوں ، تو بیان کیجیے ، اور غور کیجیے کہ مذکورہ خطے سے قادیانیت کا خاتمہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ میرے دوست نے دعوت دی ہے کہ آپ ہمارے یہاں آئیے ، تو ہم آپ کو علاقے کا دورہ کرائیں گے ، جس سے آپ اندازہ لگا پائیں گے کہ یہاں کس طرح بے دینی اور جہالت پنپ رہی ہے۔ میں نے دوست سے رمضان سے پہلے آنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اللہ آسان کرے ، اور ہمارے لیے خدمت دین کی راہیں ہموار فرمائے! (آمین)