ازقلم: سمیع اللہ خان
samiullahkhanofficial97@gmail.com
آج میرے سامنے عالمی رابطہ ادب اسلامی کے چالیسویں کانفرنس کا یہ اعلامیہ ہے،
یہ حیرت انگیز ہونے کے ساتھ ہی تشویشناک اعلامیہ ہے۔ کہ کیا عالمی رابطہ ادب اسلامی کا بھی اب چل چلاؤ ہے؟
کیونکہ اس کانفرنس کا جو موضوع ہے وہ دور دور تک رابطے کے اہداف و مقاصد اور تاسیسی دستور سے ذرا بھی مناسبت نہیں رکھتا ہے ۔
کانفرنس کا عنوان ہے: ” حضرت مولانا شاہ محمد عبد الرحیم نقشبندی مجددی: حیات و خدمات "
یقیناً شاہ عبد الرحیم نقشبندی صاحب رحمہ اللہ ایک صاحبِ نسبت بزرگ تھے ، ایک مصلح اور صوفی تھے، وہ بہت ہی قابلِ احترام ، باوقار اور صاحبِ دل شخصیت تھے، ان کا وقار و احترام سر آنکھوں پر ہے،
لیکن ان کو عالمی رابطہ ادب اسلامی کے موضوعات اور اہداف سے کیا علاقہ ؟؟ وہ تو ایک علیحدہ میدان کی شخصیت تھے اور یہ ایک مستقل علیحدہ میدان ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کھلم کھلا اتنا صریح تضاد کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی ؟ کہ جس میں ذرا بھی معقولی اور منطقی ربط نہیں!
رابطہ ادب اسلامی کے بنیادی طور پر دو اہم مقاصد ہیں
نمبر 1-: ایسے ادبی نظریات جن میں باطل کی کار فرمائی ہو اور جو اسلام و قرآن کے تصور سے ٹکراتے ہوں ان کے مقابلے میں صالح اسلامی ادب کو پروان چڑھانا۔
2:- ایسے ادیبوں کی تکریم و تشجیع جو باصلاحیت اور نظریاتی ہوں، اور صالح ادبی لٹریچر کو فروغ دینے میں معاون ہوں ، اس قسم کے ادباء اسلامی کو پلیٹ فارم دینا رابطہ ادب اسلامی کا مقصد ہے ۔
رابطہ ادب اسلامی کا وجود کلاسیکی ، رموزی اور رومانی ادبی تحریکات کی مادیت انگیزی کےخلاف ہوا تھا جس کے پیشِ نظر یہ مرکزی ہدف تھا کہ مادی ادبی لٹریچر کے ذریعے جس کمیونزم ، کیپٹلزم اور مارکسزم کی تبلیغ کی جارہی ہے اس کا مقابلہ کیا جائے اور ادبی لٹریچر کو فکرِ اسلامی ، فکر قرآنی اور ایمانی نظریات کی اشاعت کا ذریعہ بنایا جائے۔
یہ عالمی رابطہ ادب اسلامی کا مرکزی محور و دائرہء کار ہے، اور مرحوم مولانا عبد الرحیم نقشبندی صاحب کی شخصیت اس دائرہء کار میں کسی بھی طرح شامل نہیں ہوتی ہے ان کا میدانِ کار بالکل مختلف تھا، وہ ایک باوقار صوفی اور واعظ تھے ان پر رابطے کے پلیٹ فارم سے سیمینار کرنے کی کوئی معقولیت نہیں ہے۔ سرے سے یہ دو بالکل الگ الگ انتہائیں ہیں کوئی بھی اصولی علمی شخصیت تو درکنار ذرا سا پڑھا لکھا شخص اس بے ربط اقدام کو محسوس کر سکتا ہے ۔
ان کی اصلاحی خدمات کو دیگر بینرز کے تحت بھی سراہا جاسکتا ہے لیکن یہ دراصل ہماری ملت کی بدنصیبی ہےکہ اب ہمارے اسلاف و مشائخ کی قائم کردہ جماعتیں ، تنظیمیں اور رابطہ ادب اسلامی جیسے علمی دائرے ایسے افراد کے تصرف میں آگئے ہیں جو بنیادی طور پر اصول پسند نہیں ہیں ، دائروں اور مقاصد میں خلط مبحث کرتے ہیں ، جماعتوں اور تحریکات کے نظریاتی مشن کو لےکر نااہل ہیں اتنے نااہل ہیں کہ ان لوگوں نے ہمارے مشائخ سے حاصل کی ہوئی جماعتوں کو کوئی ترقی تو نہیں دی بلکہ ان کی افادیت کو مزید تنگ اور محدود کردیا، مشائخ کے عہد کے باقی ماندہ نیک نفس بزرگوں سے آپ جاکر موجودہ ملی تنظیموں اور جماعتوں کے ذمہ داران کی روش پر سوال کرلیجیۓ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ جن لوگوں نے، حضرت شیخ زکریا کاندھلوی، حضرت قاری طیب صاحب، مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی صاحب جیسے مزید کئی مشائخ عظام کے ساتھ قیمتی اوقات گزارے ہیں وہ موجودہ منصب نشینوں کی اصول پسندی سے کتنے مطمئن ہیں ؟ اور رابطہ ادب اسلامی جیسے پلیٹ فارم سے مولانا عبد الرحیم نقشبندی صاحب کی خدمات پر سیمینار کرکے جہاں رابطے کے پلیٹ فارم کو بے وقار کررہے ہیں وہیں اس بے اصولی کے ذریعے حضرت مولانا عبد الرحیم نقشبندی جیسی بزرگ اور صاحبِ نسبت شخصیت کے ساتھ سیاسی کھلواڑ کررہے ہیں
یہ قدم بیک وقت بانیانِ رابطہ اور رابطہ ادب اسلامی کے وقار سمیت مولانا عبد الرحیم نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کےساتھ زیادتی ناانصافی اور اصول شکنی کا بدترین مظہر ہے
اگر رابطے کے بانی حیات ہوتے تو ایسا کبھی نہیں کرتے نہ ہی حضرت مولانا عبد الرحیم نقشبندی صاحب اس کی اجازت دیتے۔
لیکن کیا کیجیے گا کہ ہماری تنظیموں ، جماعتوں اور ایسی علمی تحریکات کے موجودہ ذمہ داران کے نزدیک اصول و ضابطے ، حدودِ اربعہ کا پاس و لحاظ ، خلط مبحث سے احتراز اور اسلاف و مشائخ کے طرز پر انتہائی محتاط انداز میں نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی کوئی اہمیت پائی نہیں جاتی ، بس کسی بھی ذمہ دار شخصیت کی کوئی بھی خواہش ہو تو سب ملکر اصول و ضابطے توڑ کر اس خواہش کو پورا کردیتے ہیں کسی کے دل میں بھی اصولی ایمانداری کا خیال نہیں آتا کیونکہ اکثر جماعتیں، تنظیمیں اور تحریکات ایسی ہی اصول شکنی کے ذریعے تعلقات نبھانے کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں ۔
کیا عالمی رابطہ ادب اسلامی کے ذمہ داران اپنی اس کوشش کو عربی دنیا میں ڈیفنڈ کرپائیں گے ؟ کیا رابطے کے ہندوستانی ذمہ داران نےانتہائی بے اصولی والا یہ کام پرسنل لا بورڈ کے نئے جنرل سیکرٹری محترم مولانا فضل الرحیم صاحب کی رعایت میں کیا ہے جوکہ موضوعِ سیمینار شخصیت رحمہ اللہ کے بیٹے ہیں ؟
کیا یہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے اصولوں اور خطوط والا رابطہ ادب اسلامی بچا ہے ؟ بزرگوں اور مشائخ کے خون جگر سے سینچی تنظیموں کو ایک کے بعد ایک ایسے بے وقار اور بے وقعت کیا جارہا ہے لیکن افسوس کہ کوئی بڑے بزرگ سامنے آکر ان عہدیداروں کو اصولی امانت و دیانت کی اسلامی حساسیت نہیں سمجھاتے ۔ اور ہم جیسے چند دیوانے جو ان تماشوں پر پُکار اٹھتے ہیں تو انہیں گستاخ اکابر کا تمغہ دیا جاتا ہے ، فالی اللہ المشتکی!
جب ایسی دھاندلی اور گڑبڑ کی جائے گی تو ان اداروں سے عام مسلمانوں کو کیا فایدہ ہوگا؟ ان اداروں کا ان تنظیموں کا غیروں میں کیا وقار و اعتبار ہوگا؟
ظاہر بات ہے کہ ایسی ہی بے اصولی ، خلط مبحث اور تعلقات نبھانے کے فارمولے برکتوں کو ختم کرتے ہیں اور امت کے وسائل ضائع کرواتے ہیں۔
عالمی رابطہ ادب اسلامی ایک عظیم ترین بزرگ شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی دردمندانہ کوششوں کا پھل ہے ، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے لائق اسکالرز نے اسے سینچا ہے ، ندوہ کے وہ اسکالرز جو آج بھی تعلقات نبھانے کے دباؤ سے آزاد ہوں یا ان کے دل میں مرحوم علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے وفا اور محبت باقی ہے تو ان پر یہ لازمی ہے کہ رابطہ ادب اسلامی کے وقار کو بچائیں اور اس ادبی تحریک کو موجودہ دورِ فتن کے تناظر میں مرتب و منظم کریں تاکہ اس کے اثرات باطل کے موجودہ عالمگیر لٹریچر کو شکست دے سکیں۔