اخلاقی محاسن آزادی کے ضامن (بضمن ماں)

اللہ تعالی نے ادم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کو جنت میں رکھا اور شجر ممنوعہ کے پاس جانے سے منع کیا لیکن شیطان نے انہیں گمراہ کیا نافرمانی کروائی اور ان کا جنتی لباس اتروا دیا بس یہی تو وہ دشمن ہے جو ہمارے والدین کا تھا اور ہمارا بھی ہے اور ہماری نسلوں کا بھی، وہ ہمیں دنیا میں صراط مستقیم سے بھٹکانے کی کوشش کرتا ہے ،بے حیائی اور عریانیت فحاشی یہ سب راستے اسی کی طرف جاتے ہیں
اج ہم جس دہانے پر کھڑے ہیں جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے ہر طرف ٹیکنالوجی کی چمک دمک ہے اگر ہم زمانے کے اعتبار سے نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھاتے تو ترقی نہیں کر سکتے لیکن اس ٹیکنالوجی کے ساتھ چلتے ہیں تو پھسلنے کا ڈر ہےابلیس کی چالوں میں پھسنے کا ڈر ہے، جیسے کہ موبائل کا استعمال اس کے ذریعے سوشل میڈیا جو کہ اج کی ہماری ضرورت بن گیا ہے ۔ لیکن فحش پھیلنے کا بڑا ذریعہ بن رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں ازادی نہیں ہےاور ہم ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم سے دور ہو کر جہالت کی زندگی گزارے، ہرگز نہیں اس کو موثر بنانے کے لیے ہم کو اسلامی تعلیمات جو کہ اخلاقی اقدار دیتے ہیں اس پر عمل کرنا ہوگا جس پر چل کر ہم ترقی کا زینہ چڑھ سکتے ہیں ، اور یہ ہرگز پابندیاں نہیں ہیں بلکہ وہ تو ترقی کا زینہ ہے بلکہ ایسا زینہ جو حفاظت سے ہمیں ترقی کی راہوں پر گامزان کرے گا ہمارے نوجوانوں کو بھٹکنے سے روکے گا بقول امیر جماعت اسلامی ہند محترم سعادت اللہ حسینی صاحب کے” حقیقی ازادی کے لیے اخلاق ضروری ہے انسان کے وجود کی تکمیل کرتے ہیں اسے بلندی عطا کرتے ہیں”
اخلاق مومن کا بنیادی وصف ہے حضرت ابو عبداللہ جدائی رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا حضور نہ تو طبعاً فحش گو تھے، اور نا بہت بتکلف فحش بات کرتے اور نہ بازاروں میں چلاتے اور نہ شور مچاتے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے. بلکہ معاف فرما دیتے اور درگزر فرماتے.
اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت بچپن ہی سے اخلاق حسنہ پر کریں تو چاہے زمانہ پرفتنہ ہی نہیں کیوں نہ ہو ۔ جیسے کی نبی صلم کی پیشن گوئی ہے کہ اخری زمانے میں بہت فتنے رونما ہوں گے لیکن ہم فتنوں کو روک نہیں سکتے ہاں ایک مقام ایسا ہے جو نئی نسل کو اخلاق کی تربیت سے سوار کر ترقی کا زینہ چڑھا سکتی ہے ۔ جسے الللہ نے بڑا مقام عطا کیا وہ ہے” ماں "چونکہ ماں کی گود ہی بچے کا پہلا مدرسہ ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی ذمہ داریاں نہ بھولیں اور سوشل میڈیا پر بے وجہ وقت برباد نہ کریں اور اپنے اپ کو ماں کے رول میں کامیاب بنائیں تاکہ نی نسل باخلاق و باکردار بن کر دنیا میں اعلی عہدوں پر فائز ہوں اس کے لیے اخلاق ترقی کا زینہ ہے مائیں اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں اپنے ساتھ رکھیں چونکہ بچے اپنی ماں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اس لیے ماں اپنے اپ کو اسلامی تعلیم کے زیور سے سنوارے اگر تعلیم یافتہ ہو تو اپنا محاسبہ کریں ،کوتاہیوں کو دورہ کریں، اللہ تعالی نے ماں کو بڑا مقام یوں ہی نہیں دیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھی مائیں ہی ہیں جو اپنے بچوں کو اخلاقی اقدار پر تربیت کر سکتی اچھے برے کی تمیز، بڑوں کے ساتھ ادب سے پیش انا چھوٹوں کے ساتھ شفقت کا رویہ ہم جھولیوں کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھا سکتی ہے ماں ہی کی تربیت ہو سکتی ہے قران و سنت پر عمل کرنا مختلف شوق اور موبائل کا موثر استعمال بھی ماں کی تربیت کا حصہ ہے ۔سب سے زیادہ اثر بچوں پر اپنے والدین میں ماں کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے بچوں کو ڈانٹ کر یا مار کر نہیں بلکہ محبت سے سمجھا کر حکمت سے تربیت کرنی چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو میری عمر اٹھ سال کی تھی میری والدہ مجھے ساتھ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئی اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے علاوہ انصار کے تمام مردوں اور عورتوں نے اپ کو کوئی نہ کوئی تحفہ دیا ہے اور میرے پاس تحفے دینے کے لیے اس بیٹے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے اس لیے اپ اس سے میری طرف سے قبول فرما لیں جب تک اپ چاہیں گے یہ اپ کی خدمت کرے گا چنانچہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی اس عرصے میں اپ نے نہ مجھے کبھی مارا نہ مجھے گالی دی اور نہ کبھی تیوری چڑھائی ہمارے نبی بہترین نمونہ ہے ۔سنت ہی کے مطابق بچوں کی پرورش کرنی چاہیے ۔اگر ماٸیں زیادہ وقت نہیں دے سکتی تو اپنے بچوں کو کسی بااثر شخصیت کی صحبت میں دیدیں نہ کہ اپنے بچوں کو موبائل کے حوالے کر دیں تاکہ کام اسان ہو جائے شاپنگ اچھی ہو جائے یا آرام ہو جائے اس طرح بچے اہستہ اہستہ موبائل کی مرہون منت پرورش پا رہے ہیں۔ پھر کیسے ان کے اندر اچھے اخلاق پروان چڑھ سکتے ہیں کیسے وہ اپنے والدین کے مقام کو سمجھ پائیں گے اور نہ ہی وہ اسلام کی تعلیمات کو سمجھیں گے سمجھنا تو دور کی بات ان کے لیے تو یہ ایک نئی دنیا ہی ہوگی بلکہ ایک امیجنری ورلڈ جو کبھی دیکھا ہی نہیں جس فحش باتوں ، کارٹون ، ریلس اور ٹی وی سیریلس کے ساتھ انہوں نے بچپن گزارا وہی سب تو ان کے اندر پروان چڑھے گا جس سے ان کی فزیکلی اور روحانی زندگی بے انتہا متاثر ہورہی ہے۔ اعلی تعلیم تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن بدخلاقیوں کے ساتھ فواحشات کے ساتھ ان کو یہ سب برائیاں ، برائیاں ہی نہیں لگے گی اخلاق پر چلنا انہیں پابندیاں نظر ائیں گی محرم غیر محرم حلال و حرام کا فرق نظر نہیں ائے گا اس کے برعکس بچوں کے لیے ماں کی تربیت حسن اخلاق پر ہو اور ماں اپنی ذمہ داریاں نہ بھول کر اپنی ماں کے رول کو کامیاب بنائے تو وہ دن دور نہیں کہ ہر فرد ہر ،گھر اور ہر خاندان ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل دے گا جو کہ ہم کو مطلوب ہے۔
ہماری نئی نسل چاہے وہ تین یا چار سال کے ہوں یا 5 سے 20 سال کے ہوں یا اس سے زیادہ سب کے سب موبائل پر گیم میں مصروف ہیں یا سوشل میڈیا پر ریلس دیکھنے یا بنانے میں مصروف ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ چیٹنگ پر ایکٹیو ہے غرض ہمارے معاشرے میں معاشرتی برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں ازادی کے نام پر ہمارے بچے اپنا وجود کھو رہے ہیں وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ میری زندگی میری مرضی ،میرا جسم میری مرضی، جیسے خیالات نے جنم لیا ہے انہیں اخلاق و اسلامی شریعت اور اسلامی تعلیم پابندیاں نظر ارہی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ لہو لہان ہو چکا ہے ،سکون قلب ختم ہو چکا ہے اس کا ایک واحد حل آخلاقی محاسن ہے یہی صحیح معنی میں آزادی کے ضامن۔

از قلم :فہمیدہ فردوس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے