غزل: مرے غموں کا سمندر کچھ اتنا گہرا تھا

وہ جس کے حسن عمل کا جہاں میں چرچا تھا
ہمیشہ غم کے سمندر میں غرق رہتا تھا

جمال یار کو ممکن نہیں بیاں کرنا
کوئی مثال بھی ہو تو بتاؤں کیسا تھا

ہواءے عقل و خرد اس جگہ نہیں پہنچی
جہاں پہ اہل جنوں کا چراغ جلتا تھا

ندی خوشی کی کہاں گم ہوئی پتہ نہ چلا
مرے غموں کا سمندر کچھ اتنا گہرا تھا

مرے وجود کی وسعت سما نہیں پائی
ترے خیال کا کشکول اتنا چھوٹا تھا

وہ جس کو شہر میں پہچانتا نہ تھا کوئی
اسی کا نام ہی دیوار ودر پہ لکھا تھا

جو اس جہان کو پر نور رکھتا تھا ساحر
وہ خود زمانہ کے ظلمت کدہ میں رہتا تھا

نتیجہ فکر: فصیح احمد ساحر
کولکتہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے