رخ بدلے زمانے کا وہ طوفان اٹھا دو
ہر سمت اٹھی ظلم کی بنیاد ہلا دو
تم حق کے اگر واقعی سچے ہو پرستار
باطل کے ہر اک نقش کو دنیا سے مٹا دو
ہو جائے نہ یہ خاک کہیں جل کے گلستاں
اب اور نہ بھڑکے ہوئے شعلوں کو ہوا دو
اس عہد کی بدحالی سخنور سے ہے کہتی
افکار کے منصور کو صولی پہ چڑھا دو
جو اپنے اجالوں سے رعونت کو مٹا دے
طوفان کی راہوں میں چراغ ایسے جلا دو
کیا بات ہے میخانے کا ساقی بھی یہ کہتا
پیاسا ہوں کئی دن سے مری پیاس بجھا دو
بن پائے نہیں سرخئ اخبار کبھی جو
جاوید وہ اشعار سر بزم سنا دو
فکروخیال: جاوید سلطانپوری