میڈیا انڈسٹری کا صحافتی اصولوں سے انحراف

تحریر:معین الدین رضوی شراوستی
آپ نے اب تک فلم انڈسٹری کا نام سنا تھا جس میں لوگوں کے لیے تفریح طبع کا سامان مہیا کیا جاتا ہے  عصر حاضر میں منظم لیکن غیر اعلانیہ طور پر ایک اور انڈسٹری کا قیام عمل میں آچکا ہے جسے میڈیا انڈسٹری کہنا زیادہ مناسب رہے گا کیونکہ آج کے میڈیا خصوصاً ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا کو صحافت کا نام دینا نہ صرف صحافت کا گھور مذاق اڑانا ہو گا بلکہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے شہید اشخاص کی روحوں کو دانستہ طور پر تکلیف پہچانا ہو گا
جس طرح فلم انڈسٹری میں چمکتے دمکتے خوبرو اور  اپنی دلکش اداؤں سے دلوں کو مسخر کرنے والی شخصیات کو ایکٹر کہا جاتا ہے اسی طرح میڈیا انڈسٹری میں بھی اپنی آواز کے شور میں مخالف کی آواز کو پادر ہوا کردینے والے چرب زبان پر کشش جاذب نظر چہروں کو اینکر کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے، فلم انڈسٹری میں ایک فلم کی شوٹنگ اور اسکے ریلیز میں کم از کم،2 سے تین مہینے در کار ہوتے ہیں لیکن میڈیا انڈسٹری میں ایسا نہیں ہےیہاں ہر روز ایک نئی اسکرپٹ لکھی جاتی ہے جسے سنسنی خیز بنا کر بریکنگ نیوز کی شکل میں ریلیز کیا جاتا ہے فلم انڈسٹری سے جو کہانیاں بولتے کرداروں میں ظاہر ہوتی ہیں ان کو عام انسان تفریح کے طور پر دیکھ کر ذہن سے نکال دیتا ہے لیکن میڈیا انڈسٹری سے جو کہانی بریکنگ نیوز کی صورت میں نشر کی جاتی ہے آج کل اس کے اثرات اکثریت کے اقلیت کے خلاف روز بروز بڑھتی نفرت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے 
ویسے بھی جب تمام صحافتی اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر صحافت کا مقصد عوام کو خبریں دینا کم ٹی آر پی بڑھاکر اپنی تجارت  چمکانا زیادہ مقصود ہو تو پھر صحافتی

مراکز سے خبریں کم بولتی صورت میں  پردہ سیمیں پر افسانے زیادہ ظاہر ہوتے ہیں

گزشتہ چند دنوں سے الیکٹرانک میڈیا ایک جماعت کی آڑ میں ایک خاص قوم کے خلاف جس طرح جارحانہ تیور اپنائے ہوئے ہے وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ اکثریتی طبقہ کو  اقلیت کے خلاف بھڑکانے کی ایک ناپاک کوشش کی جارہی ہے ایک جماعت کے چند افراد کورونا پوزیٹیو کیا پائے گئے گودی میڈیا نے آسمان سر پہ اٹھا لیا مسلسل عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلانے کا سبب ایک خاص قوم ہی ہے ان کی رپورٹنگ دیکھ ایسا لگتا ہی نہیں کہ مذکورہ جماعت کے سرخیوں میں آنے سے قبل ہندوستان میں کورونا کا کوئی مریض تھا جبکہ  سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تبلیغی جماعت سے پہلے ہی ہندوستان میں کورونا کے 1200 کیس سامنے آچکے تھے جس کی لپیٹ 30 سے زائد اشخاص کی موت ہو چکی تھی
کچھ چینلوں کی دریدہ دہنی دیکھ کر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے دیکھتے ہی دیکھتے اس وائرس کو بھی جہاد سے جوڑ دیا اور کورونا جہاد کی سرخی لگا کر ڈبیٹ کرنے لگے اور اس جماعت کا تار بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے جوڑ کر ا اس جماعت کے سربراہ کو کورونا کا ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اس جماعت کا تعلق القاعدہ سے تھا تو ہماری سرکاری ایجنسیاں اب تک کیا کر رہیں تھیں جب کہ اس جماعت کا ہیڈ کوارٹر
راجدھانی دہلی ہی میں ہے اب تک اس جماعت کا کوئی بھی شخص دہشت گردی میں گرفتار کیوں نہیں ہوا…  آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے!!
١٩٩٤ میں ایک غریب ملک روانڈا میں وہاں کی اقلیت توشی قبیلہ کا قتل عام ہوا تھا جس میں ٨٠٠٠ افراد کو وہاں کی اکثریت ہوتو قبیلہ نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا لاکھوں افراد نے بھاگ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لی تھی  اس حادثے کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ وہاں کے  ریڈیو اسٹیشنوں کا تھا جنہوں نے اقلیتی طبقے کے خلاف لگاتار نفرت انگیز خبریں نشر کی اور وہاں کی اکثریت کو ان کے خلاف برانگیختہ کرتے رہے جس نتیجہ میں اتنا بڑا انسانی سانحہ پیش آیا بعد میں ان ریڈیو اسٹیشنوں کو نفرت کے ریڈیو سے جانا گیا یہی حال جرمنی میں ہوا جب وہاں کے اخباروں نے لگاتار   یہودیوں کے خلاف پروپیگنڈہ چلاکر ذہنی طور پر عیسائیوں کو ہراساں کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں وہاں یہودیوں کے خلاف نفرت کی عام لہر دوڑ گئی جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ جو ہوا اسنے عالمی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیابعد میں جب جرمنی کے حالات معمول پر آنے اور تو وہاں کے اخبار ڈیر اسٹومر کے مالک کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا
کیا یہ واقعات  ہندوستانی نیوز چینلوں کے لیے درس عبرت نہیں ہیں جو دن ورات  اپنے مفاد کی خاطر ہندو مسلم کرتے رہتے ہیں  اگر اب بھی ہماری میڈیا نفرت انگیز مواد شائع کرنے سے بعض نہیں آئ تو وہ دن دور نہیں جب جرمن اور روانڈا کی تاریخ ہندوستان میں بھی دوہرا دی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے