دہلی القاعدہ معاملہ: مولانا انظر شاہ کے مقدمہ سے ڈسچارج کے خلاف داخل پٹیشن کو دہلی ہائی کورٹ نے کردیا خارج

مولانا انظرشاہ کو بڑی راحت، جمعیۃ علماء ہند نے قانونی امداد فراہم کی

نئی دہلی: 26 ستمبر
دہلی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے آج یہاں مشہو ر رعالم دین مولانا انظر شاہ کو بڑی راحت دیتے ہوئے استغاثہ کی جانب سے ان کی رہائی کے خلاف داخل اپیل کو دفاعی وکیل کے اعتراض کے بعد خارج کردیا۔
ممنوعہ دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزامات کے تحت مقدمہ کا سامنا کرنے والے مشہور عالم دین مولانا انظر شاہ قاسمی کو سال 2017میں دہلی کی پٹیالیہ ہاؤس عدالت نے دہشت گردی کے مقدمہ سے ڈسچارج کردیا تھا جس کے بعد ان کی جیل سے رہائی بھی ہوگئی تھی لیکن استغاثہ نے سیشن عدالت کے فیصلے کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔دہلی ہائی کورٹ نے استغاثہ کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے مولانا انظر شاہ کو نوٹس جاری کیا تھا، عدالت کی جانب سے نوٹس ملنے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء کرناٹک نے ایڈوکیٹ ایم ایس خان کو مولانا انظر شاہ کے دفاع میں مقرر کیا تھا جنہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں مولانا انظر شاہ کا کامیاب دفاع کیا۔ دہلی ہائیکورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ اور جسٹس امیت شرما نے استغاثہ کی عرضداشت کو یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ انہوں نے نچلی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے میں کافی تاخیر کردی ہے اور یہ تاخیر نا قابل معافی ہے۔ بینچ نے مزید کہاکہ نچلی عدالت کے فیصلے کو 90/ دنوں کے اندر چیلنج کرنے کا قانون ہے لیکن اس معاملے میں تاخیر کافی زیادہ ہے لہذا استغاثہ کی جانب سے داخل اپیل کو خارج کیا جاتا ہے۔
اس سے قبل بھی استغاثہ نے مولانا انظر شاہ کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی تھی جسے تکنیکی بنیادوں پر ہائی کورٹ نے مسترد کردیا تھا۔ خصوصی این آئی اے عدالت سے مولانا انظر شاہ کو ملنے والی راحت کو دو مرتبہ استغاثہ نے دہلی ہائی کور ٹ میں چیلنج کیا جہاں اسے دونوں مرتبہ منہ کی کھانی پڑی۔
سال 2017 میں میں خصوصی این آئی اے عدالت کے جج سدھارتھ شرما نے مولانا انظر شاہ کو مقدمہ سے ڈسچارج کرتے وقت اپنے فیصلہ میں یہ تحریر کیا تھاکہ تحقیقاتی دستہ عدالت کے سامنے یہ ثبوت نہیں پیش کرسکا کہ مولانا انظر شاہ قاسمی نے کبھی پاکستان کا دور ہ کیا تھا لہذا ملزم کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا اور انہیں مقدمہ سے ڈسچار ج کردیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی کہا تھاکہ مولانا انظر شاہ کے جلسوں کی تقاریر میں ایسی کوئی بھی بات سامنے نہیں آئی ہیکہ وہ القاعدہ سے جڑنے کے لیئے نوجوان طبقہ کو اکسانے کا کام کررہے تھے نیز دیگر ملزمین سے ان کے تعلق بھی ثابت نہیں ہوسکے۔واضح رہے کہ مولانا انظر شاہ کو دہلی پولس نے ممنوعہ تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے الزامات کے تحت جنوری 2016میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن استغاثہ عدالت میں ان کے خلاف الزام ثابت ہی نہیں کرسکا لہذا مقدمہ شروع ہونے سے قبل ہی انہیں مقدمہ سے ڈسچارج کردیا گیا۔ مولانا انظر شاہ کے مقدمہ سے ڈسچار ج ہونے کی وجہ سے استغاثہ کو ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اسی لیئے اس نے آناً فاناً سیشن عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا جہاں دونوں مرتبہ جمعیۃ علماء کے وکیل کی بروقت مداخلت کی وجہ سے استغاثہ کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔
صدر جمعیۃ علماء کرناٹک مولانا عبدالرحیم اور جنرل سیکریٹری محب اللہ خان امین نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر مسرت کا اظہار کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے