مسلمانوں کی اصل نمائندگی شوریٰ ہی طے کر سکتی ہے

6 دسمبر 1992 کو بنیاد پرست ہندوؤں کی ایک بھیڑ نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا ۔اُتر پردیش کی اس وقت کی کلیان سنگھ سرکار نے عدالت میں حلف نامہ دیا تھا کہ بابری مسجد کی حفاظت کی ذمےداری اُسکی ہے اور مسجد پوری طرح کار سیوا کے دوران محفوظ رہے گا ۔اس وقت مرکز میں نرسمہا راؤ کی سرکار تھی اور کئی بڑے مسلم چہرے اس سرکار میں شامل تھے لیکن بابری مسجد شہید کیا گیا تو پورے ملک کے مسلمانوں میں خوف و غصّہ کے ساتھ ایک طرح کا سکوت طاری ہو گیا تھا ۔کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے ۔لیکن مسلم نمائندے جو اس وقت مرکزی حکومت میں شامل تھے یا مختلف ریاستی اسمبلی کا حصہ تھے جہاں جہاں کانگریس کی سرکار تھی ایک نے بھی غیر آئینی طریقے سے مسجد کو شہید کیے جانے پر احتجاج درج کراتے ہوۓ اپنے عہدے سے استعفی نہیں دے پائے۔
آج مسلمان رونا رو رہا ہے کہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں مسلم نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ریاستوں سے مسلم نام کا کوئی شخص کئی سال سے لوک سبھا میں منتخب نہیں ہو پا رہا ہے ۔اس میں شک نہیں ہے کہ
مسلم نمائندگی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں بتدریج کم ہوتی جا رہی ہیں ۔لیکن یہ مسلم نمائندے کب مسلمانوں کے کام آئے ہیں ۔جب بابری مسجد کی شہادت پر اُنکی ضمیر نہیں جاگی اور اس وقت اپنے عہدے سے دستبردار ہو کر قوم کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تو ایسی نمائندگی کو مسلمانوں کی نمائندگی کیسے کہہ سکتے ہیں ۔مسلمانوں کو شکایت رہتی ہے کہ نام نہاد سیکولر جماعتیں مسلم علاقے سے بھی غیر مسلموں کو ٹکٹ دے دیتے ہیں یا یہ بھی شکایت رہتی ہے کہ مسلم امیدوار کو اُسی پارٹی کے غیر مسلم ووٹرز ووٹ نہیں دیتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم نمائندگی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں کم ہوتی جا رہی ہیں ۔
نام نہاد سیکولر جماعتوں کی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے مسلم کیا مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں یا عام مسلمانوں کے درمیان یہ نام نہاد مسلم نمائندے پارٹی کے فیصلے کو جو مسلمانوں کے لیے غلط بھی ھو اُسے پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور اس کام کے بدلے اپنا ذاتی مفاد پورا کرتے ہیں ۔ یہ نمائندے قوم کی سیاست تو کرتے ہیں لیکن قوم کے لئے کچھ نہیں کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا عام مسلمان غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور کارپوریشن سطح کا سیاست دان بھی دیکھتے دیکھتے کروڑوں اور اربوں کا مالک بن جاتا ہے ۔یہ نام نہاد مسلم سیاست دان کسی غیر مسلم علاقے سے نہیں کماتے ہیں بلکہ مسلم علاقے کے ترقیاتی فنڈ سے کماتے ہیں اور عام مسلمان جو اُنہیں ووٹ دیتے ہیں اُنکے ذاتی کام کے بھی پیسے لیے جاتے ہیں ۔میں بطور مضمون نگار یہ کہنے میں ہچک محسوس نہیں کرتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کی آفس میں ایس ای او کا ٹھپہ کے علاوہ کوئی بھی کام مفت میں نہیں ہوتا ہے ۔
دراصل اس ملک کا مسلمان واقعی پارلیمنٹ اور اسمبلی میں اپنی یعنی مسلمانوں کی نمائندگی چاہتے ہیں تو یہ موجودہ اسٹرکچر میں ممکن نہیں ہے یعنی آج جس طریقے سے مسلم سیاست دان سامنے آ رہے ہیں اس اسٹرکچر کو بدلنا ہوگا۔آج جو مسلم سیاست دان بنتے ہیں اور جو مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ کے دعویدار ہوتے ہیں اُنکی سب سے بڑی قابلیت پارٹی کے کسی ایک بڑے رہنماء کے قریبی بن جانا ہے اور اُنکے نام پر پولس اسٹیشن اور کارپوریشن کا کام کرانا ہوتا ہے ۔زیادہ تر مسلم پارٹی کے بڑے اور طاقت ور رہنماء کے بیگ پکڑ کر ہی کارپوریشن یا اسمبلی پہنچتے ہیں ۔ہاں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جن کے والد سیاست دان تھے تو اُنکے بیٹے بھی سیاست دان بن گئے ہیں لیکن مسلم لیڈرشپ میں ایسے افراد کی کمی ہے جو تحریک سے نکل کر سیاست دان بنتے ہیں اور جو ذاتی مفاد سے اوپر رہ کر قوم اور ملت کے مفاد میں سوچتے ہیں ۔ایسی بات نہیں ہے کہ مسلمانوں میں قوم و ملت کے حق میں سیاست کرنے والے مخلص لوگوں کی کمی ہے؟ لیکِن اُنہیں آگے آنے کا موقع نہیں ملتا ہے ۔ساتھ ہی عام مسلمان اپنے مخلص رہنماء کی نشان دہی نہیں کر پا رہی ہے ۔
پھر مسلمان کرے کیا؟ کیونکہ آج کی تاریخ میں مسلم نمائندگی کے نام پر سبھی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں پر اپنے امیدوار تھوپتے ہیں ۔کیوں نہ ایسا سسٹم تیار کیا جائے جس میں کچھ خاص مخلص ،ایماندار اور دور اندیش علماء کا ایک شوریٰ بنایا جائے ۔اس شوریٰ کے اراکین کا تعلق کسی بھی جماعت سے نہ ہو اور نہ شوریٰ کا رکن کسی سیاسی جماعت کے رہنماء سے اپنی رقابت رکھ سکتا ہے ۔یہ شوریٰ فیصلہ کرے گا کہ یہ پانچ نام ہیں اسے جو بھی سیاسی جماعت ٹکٹ دے گی اُسے جتانے کی ذمے داری شوریٰ کی ہوگی یعنی شوریٰ میں سبھی مسلک کے نمائندے ہوں گے اور ان کے کہنے پر مسلمان اپنا نمائندہ منتخب کرے گا اور اگر اُن نمائندوں کو کارپوریشن، اسمبلی یا پارلیمنٹ سے شوریٰ استعفیٰ دینے بھی خاص حالات میں کہتا ہے تو اُنہیں کرنا پڑے گا۔ یہ سسٹم بنانا مشکل تو ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے ۔اور یہی اسلامی سسٹم بھی ہے ۔اسی سسٹم سے مسلمان حقیقی مسلم نمائندگی تیار کر سکتے ہیں ۔ورنہ پارٹی کے نمائندے کو ھی مسلمان اپنا نمائندہ سمجھ کر غلط فہمی میں جیتے رہیں گے ۔

تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے