مولانا محمد ولی رحمانیؒ نے اسد الدین اویسی کی خدمات اور قیادت کی تعریف میں کئی اہم نکات بیان کیے ہیں۔ مولانا ولی رحمانی کو مسلمانوں کے تعلیمی، معاشی، اور سیاسی مسائل پر گہری بصیرت حاصل تھی، اور انہوں نے ہمیشہ ان مسائل کو شدت کے ساتھ حکومت اور حکومتی اداروں کے سامنے اٹھایا۔
انہوں نے اویسی کی اس بات کی خاص طور پر تعریف کی کہ اویسی نے مسلمانوں کے آئینی اور سیاسی حقوق کے لیے مضبوط موقف اختیار کیا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اقلیتوں کو کئی چیلنجز کا سامنا تھا۔ مولانا ولی رحمانی اس بات کے بھی حامی تھے کہ مسلمان جمہوری حقوق اور تعلیم کے میدان میں آگے آئیں، جیسا کہ اویسی کی سیاست نے اس ضرورت کو اجاگر کیا
مولانا نے مسلمانوں کی نمائندگی اور تعلیم کو اویسی جیسے رہنماؤں کے ذریعے اہمیت دینے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ قوم اپنے حقوق کی بہتر حفاظت کرسکے
مولانا ارشد مدنی نے اسدالدین اویسی کی قائدانہ صلاحیتوں اور ان کے دینی و سیاسی کردار کی تعریف کی ہے۔ مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ اسدالدین اویسی کی بہادری اور بے باکی، خاص طور پر مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ میں ان کی آواز کو بلند کرنے میں قابل قدر ہیں۔ وہ اویسی کو ایک مضبوط اور بااثر لیڈر سمجھتے ہیں جو مسلمانوں کے مسائل کو قومی سطح پر پیش کرتے ہیں، اور ان کی جرات مندانہ سیاست کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔ مدنی کا ماننا ہے کہ اویسی جیسی شخصیات مسلمانوں کو اعتماد اور حوصلہ فراہم کرتی ہیں
مولانا ارشد مدنی نے اسدالدین اویسی کے بارے میں بھی حوصلہ افزا کلمات کہے ہیں، ان کی بے باکی اور مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے کی صلاحیت کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اویسی جیسے رہنما مسلمانوں کو اعتماد دیتے ہیں اور ان کی نمائندگی مضبوطی سے کرتے ہیں
مولانا سجاد نعمانی نے اسد الدین اویسی کی سیاست اور قیادت کے حوالے سے ایک مثبت رائے دی ہے۔ انہوں نے ایک کھلے خط میں اویسی کو مشورہ دیا کہ وہ یوپی کے انتخابات میں صرف ان سیٹوں پر زور دیں جہاں ان کی کامیابی یقینی ہو، اور باقی سیٹوں پر گٹھ بندھن کے حق میں اپیل کریں۔ مولانا نعمانی کا خیال تھا کہ اس حکمت عملی سے اویسی کی مقبولیت اور مسلمانوں کا اعتماد بڑھے گا، جس سے مسلم قیادت کو مزید مضبوطی ملے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اویسی جیسے سیاسی قائد کی ملت اسلامیہ ہند کو سخت ضرورت ہے، اور وہ خود بھی آزاد مسلم قیادت کے حق میں دعائیں اور کوششیں کر رہے ہیں۔
مولانا غلام محمد وستانوی نے اسد الدین اویسی کی سیاسی خدمات کو سراہا ہے، خاص طور پر ان کی مسلمانوں کے حقوق کے لیے مضبوط اور بے باک آواز اٹھانے کے حوالے سے۔ وستانوی نے اویسی کی قیادت اور مسلمانوں کے سیاسی مستقبل میں ان کے کردار کو اہم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اویسی ایک ایسے لیڈر ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں بلکہ دیگر محروم طبقات کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔
اویسی ناچیز کے قلم سے
اسدالدین اویسی کا تعلق بھارت کے ایک معروف سیاسی خاندان سے ہے جو "سید” ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ اسد الدین اویسی کا خاندان حیدرآباد دکن میں آباد ہے اور وہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے صدر اور ایک معروف سیاست دان ہیں۔
اور وہ لوک سبھا کے رکن بھی ہیں، جہاں وہ حیدرآباد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اویسی کی سیاست زیادہ تر مسلمانوں اور اقلیتی طبقات کے حقوق کے تحفظ پر مرکوز ہے، اور وہ ان کے سیاسی اور سماجی مفادات کی وکالت کرتے ہیں۔
ان کی تقریری صلاحیت، قانونی علم، اور پارلیمنٹ میں جارحانہ انداز سے مسائل اٹھانے کی وجہ سے انہیں کافی شہرت ملی ہے۔ اویسی کا ماننا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی شناخت، حقوق اور مساوات کے لیے مضبوط اور واضح آواز کے ساتھ سیاسی میدان میں موجود رہنا چاہیے۔
اسدالدین اویسی کا خاندان بھی سیاست میں طویل عرصے سے سرگرم ہے، اور ان کے والد، سلطان صلاح الدین اویسی، بھی AIMIM کے صدر اور لوک سبھا کے رکن رہ چکے ہیں۔
ازقلم: سیماب احمد