مولانا محمود مدنی صاحب کا اسد اویسی کے خلاف تازہ بیان !

کل رات سے محتاط انداز میں پچاس سے زائد لوگوں نے مجھے مولانا محمود مدنی کا یہ ویڈیو بھیج کر میری رائے معلوم کی ہے۔
ویڈیو میں محترم مولانا محمود مدنی صاحب سُشانت سنہا کو انٹرویو دے رہے ہیں، جس میں انہوں نے اسدالدین اویسی بھائی کے متعلق کہا ہےکہ:
” میں اسد اویسی صاحب سے سوفیصد اختلاف کرتا ہوں، کیونکہ ان کی سیاسی حکمتِ عملی بانٹنے والی سیاست کو مضبوط کرتی ہے”
” اسد اویسی کی سیاست سے ، اسد اویسی کو کچھ فایدہ ہوتا ہے اور دوسروں کو ( غالباً بھاجپا کو) اویسی سے بھی زیادہ فایدہ ہوتا ہے۔
” جو اسد اویسی کے پیچھے تالی بجانے والوں کی بھیڑ ہے وہ پاگل لوگوں کی بھیڑ ہے ایسی ہی بھیڑ اُس طرف بھی ہے "
” میں پورے اعتماد کےساتھ کہتا ہوں کہ اسد اویسی کو لوگ اپنا لیڈر نہیں مانتے ہیں ، مسلمان ان کی طرح نہیں سوچتے ہیں ، دیکھیں اترپردیش میں وہ آئے تھے ، انہیں کتنے ووٹ مل گئے؟ لوگوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا ! "
” وہ بس بول کر فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو بولنے کا موقع ملا ہوا ہے، اسد اویسی ابھی تلنگانہ کے انتخابات میں کھڑے ہوئے تھے کتنی زور وشور سے کھڑے ہوئے تھے لیکن کیا حیدرآباد کے علاوہ کہیں بھی وہ ووٹ دلوا سکے ؟ "
” ہم تو بہت پہلے سے اسد اویسی کو کہہ رہے ہیں کہ آپ وہیں ( حیدرآباد) میں ہی رہیے لیکن وہ مانتے نہیں، سنتے نہیں اس بات کو "
” سشانت سنہا نے کہا کہ اسد اویسی کے بیانات بھڑکاؤ ہوتے ہیں اس پر مولانا محمود مدنی صاحب نے تائید کی اور کہا کہ ۔ اسد اویسی کے بیانات نامناسب اور ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں ہم مسلمانوں کو ان سے بچنے کے لیے کہتے ہیں "

یہ بیان جمعیۃ علمائے ہند کے چیف محترم مولانا محمود مدنی صاحب کا ہے، جو انہوں نے سُشانت سنہا کے انٹرویو میں دیا ہے، ان کے احترام کے ساتھ میں اس بیان پر یہاں اپنا تجزیہ پیش کرتا ہوں ۔
سب سے پہلے تو مجھے اس بات پر ہی اختلاف ہے کہ مولانا محمود مدنی صاحب کو اتنے زیادہ نفرتی اور مسلم دشمن ریکارڈ رکھنے والے سُشانت سنہا کے پروگرام میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا یہ اتنا ذلیل مودی بھکت جرنلسٹ ہےکہ اس کے برابر بیٹھنا ہی نہیں چاہیے تھا ۔
نمبر 2:- سُشانت نے اکبر اویسی کے 15 منٹ والے بیان کا الزام اسد اویسی پر لگا دیا، یہ کتنی غلط بات ہے؟ یہ بیان تو اکبر اویسی کا ہے، پھر اس کو اسد اویسی کے سر ڈالنے کا کیا جواز؟ مولانا کو اس غلط بات کی تردید کرنا چاہیے تھی، !
نمبر 3- محترم مولانا محمود مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ اسد اویسی کی سیاست سے دوسروں کو یعنی کہ بھاجپا کو فائدہ پہنچتا ہے اس لیے انہیں حیدرآباد تک ہی محدود رہنا چاہیے، میرا سوال یہ ہے کہ اب تو سَنگھ پریوار اور بھاجپا ہمارے مسلمان ہونے کا بھی فائدہ اٹھانے لگے ہیں تو کیا ہم اسلام چھوڑ دیں ؟ جبکہ ہماری نظر میں مسئلے کی جڑ پر نگاہ ہونی چاہیے، کہ بھاجپا مسلمانوں کا نام لےکر فایدہ کیسے اٹھاتی ہے؟ تو یہ بات سامنے آتی ہےکہ وہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے ڈراتی ہے اور مسلمانوں کے نام پر بھڑکاتی ہے، تو اس کا نتیجہ تو یہ نکلا کہ یہ تو بھاجپا اور آر ایس ایس کے بہکاوے اور پروپیگنڈے کا شکار ہونے والے ہندوؤں کی بیوقوفی ہے نا، کسی کی بےوقوفی کے لیے اسد اویسی اپنا سیاسی کیرئیر کیوں محدود کردیں ؟ جبکہ ہندوؤں کی یہ بیوقوفی مسلمانوں کی جان کے لیے خطرہ بن چکی ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو پر ہر دن حملہ ہورہا ہے۔ !
نمبر 4- محمود مدنی صاحب نے فرمایا کہ : اسد اویسی کے بیانات بھڑکاؤ اور ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں یہ بات مجھے صحیح نہیں لگتی کیونکہ ان کے بیانات سے آج تک کسی ایک فساد یا دنگے کی واردات رونما نہیں ہوئی ہے، البتہ نریندر مودی، امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ جیسے ہندوتوادی سیاستدانوں کے مسلم دشمن بھڑکاؤ بیانات کی وجہ سے کتنا کچھ مسلمانوں کے خلاف ہوچکا ہے، کیا یہ سشانت سنہا مودی یوگی اور شاہ کے بیانات کو بھڑکاؤ کہے گا ؟ لیکن اویسی کے بیانات سے مسلمانوں میں اپنی سیاسی قوت اور۔ سیاسی اتحاد کا شعور بیدار ہورہا ہے تو اسے آپ بھڑکاؤ بیان کہہ رہے ہیں ؟ کیا مولانا صاحب مودی، یوگی اور امیت شاہ کو دنگے بھڑکانے والا کہیں گے جوکہ حقیقت بھی ہے؟
اسد اویسی بھائی سے کچھ چیزوں میں اختلاف رائے مجھے بھی ہے لیکن میرا تجربہ اور مشاہدہ یہ ہےکہ انہیں بھاجپا کا ایجنٹ سمجھنا یا بھاجپا کو فائدہ پہنچانے والا سمجھنا یہ غیر حقیقی الزام ہے۔ نیز اسد اویسی کی حد تک یہ الزام بالکل غلط ہےکہ ان کے بیانات بھڑکاؤ ہوتے ہیں !
ہمارے علماء بارہا اسد اویسی جیسے مسلم سیاستدانوں کی تردید کرتے ہیں جبکہ آج کے دور میں ہر دن اس ضرورت کا احساس شدید تر ہوتا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اپنی سیاسی قوت اور سیاسی اتحاد ہندوتوا زدہ جمہوریت میں مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل ہیں ورنہ وہ مارے جاتے رہیں گے اور ایسے مارے جائیں گے کہ کوئی ان کی آواز بھی نہیں اُٹھائے گا۔ پہلے بھی جمعیت علماء نے ہی مسلمانوں کو سیاست سے الگ کیا تھا اور آج بھی جمعیت کی یہی پالیسی ہے کہ مسلمان بھارت میں علیحدہ سیاسی قوت نہ بنائیں، جمعیت کی اس پالیسی کے پیچھے یقیناً ان کے اپنے نظریات اور اندازے ہوں گے لیکن تاریخ و نظریات اور اس ملک کے حالات کا ادنیٰ سا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ پالیسی مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچاتی ہے نہ ہی دستاویزات اس کی تائید کرتے ہیں کہ اس پالیسی نے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچایا ہے ! بلکہ مسلمان سیاسی طور پر اپاہج ہو چکا ہے، جن سیکولر ہندو پارٹیوں کی طرف جمعیت علماء نے مسلمانوں کو بھیجا انہوں نے مسلمانوں کا صرف استحصال کیا اور اپنا بدترین سیاسی غلام سمجھا ہوا ہے، آج بھی کانگریس اور انڈیا الائنس مسلمانوں کا ووٹ اس طرح ہضم کرتے ہیں کہ ڈکار بھی نہیں لیتے لیکن یہ لوگ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی بھی ختم کر رہے ہیں اور مسلمانوں پر ہندوتوا مظالم کے خلاف آواز تک نہیں اٹھاتے ، ایسے میں اگر مسلمان فطری اور نفسیاتی طور پر اویسی کے پیچھے نہ جائے تو کیا کرے؟ اس نفسیات اور فطری احساس کو پاگل پن کہنا درست تعبیر نہیں ہے۔
مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ مولانا محترم حضرت محمود مدنی صاحب نے اسد اویسی کے خلاف ایسا بیان سُشانت سنہا جیسے مسلم دشمن ہندوتوادی اینکر کے پلیٹ فارم پر دیا ۔ مولانا محترم سے درخواست ہے کہ اپنی رائے پر نظر ثانی فرمائیں۔

تحریر: سمیع اللہ خان
samiullahkhanofficial97@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے