ازقلم: عظیم اللہ خان. عمرکھیڑ. 9403457181
آزادی یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے، اور آزاد رہنا یہ ہر انسان کا حق بھی ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس انسان نے غلامی کے الگ الگ دور دیکھے ہیں، ایک دور تھا کہ انسان غلام بنائے جاتے تھے، انھیں بیچا جاتا تھا، وہ جس کسی کا غلام ہے اس پر اس کے آقا کا پورا اختیار ہوتا، اور غلام کی نہ تو کوئی اپنی مرضی ہوتی اور نہ ہی خواہش، اسی دور میں یہ بھی دیکھا ہے کہ مرد عورتوں کو غلام بناکر رکھتے، بیوی کے روپ میں اسے کوئی اختیارات حاصل نہیں ہوتے، مرد جیسا چاہے جس طرح چاہے اس کے ساتھ سلوک کرتا، پھر وہیں انسان سماجی روایتوں کا اور سماجی سوچ کا بھی غلام تھا یہی وجہ تھی کہ لڑکی کے پیدا ہونے کو برا سمجھا جاتا اور اسے زندہ دفن کردیا جاتا،ایسی غلامیوں میں انسان زندگی بسر کر رہے تھے، ایسی زندگی جس سے شاید موت بہتر ہو، اور انھیں یہ امید بھی نہیں تھی کہ اس غلامی سے انھیں کوئی باہر نکالے گا، لیکن پھر یہ ہوا کہ اللہ کے رسولٌ دنیا میں تشریف لائے اور آپ نے آزادی کا صحیح تصور دنیا کو دیا اور ان ناجائز غلامیوں سے پوری انسانیت کو نجات دلائی،..
پھر زمانہ آگے بڑھا اب انسان کے بجائے ملک غلام بنائے جانے لگے، بھلا انسان اس غلامی کو بھی کیسے پسند کرتے، ایک وقت آیا کہ لوگوں نے اپنے ملکوں کو غلامی سے آزاد کرایا،.. وقت آگے بڑھتا گیا سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور آیا جسے دور ترقی کہا جانے لگا، اس دور ترقی میں پھر سے آزادی کی صدائیں بلند ہونے لگی اور ترقی کے نام پر سب سے پہلے مغرب میں عورت کی آزادی کو لیکر نعرے لگائے گئے ، لیکن اس دفعہ جو آزادی مانگی گئی وہ کسی غلامی سے آزادی نہیں تھی بلکہ یہ وہ آزادی تھی جو غلامی کی طرف لیکر جانے والی تھی، تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ آزادی کے نام پر غلامی مانگی گئی، لیکن شاید آزادی کے نعرے لگانے والوں کو اس کا شعور نہیں تھا کہ مردوں کا بنایا گیا یہ سماج آزادی کے نام پر انھیں غلام بنا رہا ہے، وہاں تین نقات کو لیکر آزادی کے مانگ کی گئی،..
1) مرد و ذن مساوات
2) عورتوں کو معاشی آزادی
3) مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط
یہ تینوں مانگیں عورت کی آزادی کو بنیاد بنا کر مانگی گئی تھیں، اور ایسی آزادی مانگی گئی کہ عورت کو بھی مرد کی طرح ہر طرح کی آزادی ہو دونوں کا دائرہ عمل یکساں ہوں، اور پھر آزادی نسواں اور مرد و ذن مساوات کو اس انداز سے پیش کیا گیا کہ، جب تک عورت مردوں کے کئے جانے والے ہر کام کو نہ کرنے لگے تب تک اسے مردوں کے مساوی ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوگا، اور نہ ہی وہ آذاد سمجھی جائے گی،.. یہی وہ آزادی کا تصور تھا جس نے مغرب میں عورت کو تباہ کردیا، مردوں نے بڑی شاطرانہ چال کے ذریعے سے اپنے کام کے بوجھ کو بھی عورت پر ڈال کر کچھ کم کردیا، اور وہاں عورت اس کو سمجھ ہی نہ سکی، اور پھر اسی ترقی اور مساوات کے نام پر اس سے ہر گھٹیا سے گھٹیا کام لیا گیا،… اور یہ سب کرتے کرتے مغرب میں عورت اس مقام پر پہنچ گئی کہ اس کے اندر سے نسوانیت، شرم وحیا سب کچھ ختم ہو گئی، اور اب وہاں عورت برائے نام عورت رہ گئی، اور جہاں عورت اپنے معیار سے گر جائے، وہ اپنی فطرت سے ہٹ جائے تو وہاں کچھ باقی نہیں رہتا، اور پھر وہاں اس طرح عورت تباہی کے گڑھے میں گرتی چلی گئی، آزادی نسواں اور مساوات مرد و ذن سے شروع ہوئی یہ کہانی مغرب میں اس موڑ پر آ گئی کہ انھیں کوئی برائی برائی نہیں لگنے لگی، پھر چاہے وہ لیو ان ریلیشن شپ کا فتنہ ہو، یا ہم جنس پرستی کا فتنہ، اتنی بڑی برائیاں انھیں برائیاں محسوس ہی نہیں ہوتی،اب تو حالت یہ ہے کہ لوگ شادیاں کرنے کے بجائے اوپن ریلیشن شپ میں رہنا چاہتے ہیں، اور جو کوئی شادی کر بھی رہے ہیں وہ اس معاہدے کے تحت شادیاں کر رہے ہیں کہ میاں اور بیوی دونوں آزاد رہیں گے، وہ جس کسی سے چاہے تعلقات بنائیں ایک دوسرے کو کوئی اعتراض نہیں رہے گا، یہ تو ہم سنتے آرہے ہیں کہ مغرب میں نکاح وغیرہ معاملہ تقریباً ختم ہونے کو ہے، لیکن اس حد تک اخلاقی گراوٹ آجائے گی اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، شاید اسی لئے بل کلنٹن نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی،.. اور یقیناً وہاں ایسا ہی ہے وہاں کی اکثریت کو اپنے باپ کا نام معلوم نہیں ہے،.. اور یہی وجہ ہے کہ آج مغرب میں فیملی سسٹم پوری طرح سے تباہ ہو گیا ہے، اب کوئی رشتہ وہاں معنی نہیں رکھتا، اور مقدس ترین رشتوں کا بھی وہاں کوئی تقدس باقی نہیں رہا،…..
ترقی اور آزادی کے نام پر آج مغرب اس مقام پر آگیا ہے کہ اخلاقیات نام کی کوئی چیز وہاں باقی نہیں ہے،..
اور ایسا نہیں ہے کہ اس تباہی کا وہاں کسی کو احساس نہیں ہے، بلکہ مغرب میں اب کھل کر بڑی بڑی ہستیاں یہ کہہ رہی ہے کہ آزادی کے نام پر جو کچھ یہاں کیا گیا اس نے مغرب کو تباہ کردیا،..
ایک امریکی خاتون وکیل میری میزن مساوات کا حل نامی کتاب میں لکھتی ہے کہ مساوات کا نعرہ ایک عورت کے لئے دھوکا اور سرا سر گھاٹے کا سودا ہے، مرد نے بڑی چالاکی سے آزادی کے نام پر اپنے کام کا بوجھ عورت کے ساتھ بانٹ لیا ہے، ٹھیک اسی طرح فرانس کی حقوق نسواں کی سکریٹری مشل انڈیا کہتی ہے کہ فرانس میں خواتین کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا جارہا ہے اسے دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ شاید جانوروں کے ساتھ عورتوں کے مقابلے بہتر سلوک کیا جاتا ہے، اسپین کے پروفیسر سیمونس مور اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ مغرب میں عورت تاریخ کے انتہائی بدترین دور سے گزر رہی ہے، آزادی کے نام پر اسے ظاہری چمک دمک تو ملی لیکن ان کی روحانی زندگی سے سکون غائب ہو چکا ہے، اسی طرح ایک مشہور یہودی رائٹر میخائل گوربا چوف لکھتا ہے کہ معاشی فوائد حاصل کرنے کی غرض سے ہم نے جو خواتین کو گھروں سے باہر نکالا انھیں واپس گھروں میں لانے کے لئے ہمیں جلد از جلد طریقے ڈھونڈنے پڑیں گے ورنہ جس طرح ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہوا ہے اسی طرح پوری قوم تباہ ہوجائے گی.. غرض کہ آج مغرب میں خود ان کی اپنی تہذیب کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، لیکن شاید اب بہت دیر ہو گئی ہے، اور انھیں بھی اس کا احساس ہے اسی لئے اب مغرب چاہتا ہے کہ ان کی اس واہیات تہذیب کو پوری دنیا میں پہنچادیا جائے، اور پوری دنیا کو مغربی رنگ میں رنگ دیا جائے،اور ان کی تہذیب کا غلام بنادیا جائے، اور بہت بڑے پیمانے پر یہ کام کیا جارہا ہے، اور وہ بہت حد تک اپنے اس کام میں کامیاب بھی ہوئے ہیں، اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا میں اور ہمارے ملک بھارت میں بھی مغرب کی طرح آزادی نسواں کے نام سے تحریکیں چلائی گئی، اور وہی کچھ مانگا گیا جو مغرب میں مانگا گیا تھا،اور عورت کو آزادی کے نام پر مغرب ہی کی طرح یہاں بھی برباد کیا جارہا ہے، آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغرب ہی کی طرح آزادی کے نام پر یہاں بھی عورت کو در در کے چکر لگائے جارہے ہیں، وہ کلبوں، کھیل کے کورٹوں اور میدانوں کی زینت بن رہی ہے، اس کو بے لباس کرکے سوئمنگ کی دلکشی بڑھائ جارہی ہے، تو اس عورت کو کہیں ہوٹلوں کے دروازوں پر کھڑا کیا جارہا ہے، تو کہیں میدانوں پر چئیر گرل بناکر نچایا جارہا ہے تو کہیں دکانوں پر گاہکوں کو لبھانے کا ذریعہ بنایا جارہا ہے، غرض کہ آج مساوات اور آزادی کے نام پر مغرب ہی کی طرح ہر گھٹیا کام عورت کے سپرد کردیا گیا ہے، پھر چاہے وہ مرد باس کی سیکرٹری بن کر اس کے ناز اٹھانے کا کام ہو، ہوٹلوں میں مسافروں کے کمرے صاف کرنے کا کام، یا پھر کسی استقبالیہ تقریب میں اسٹیج پر شال اور پانی کے گلاس لیکر کھڑے ہونے کا کام، یا پارٹیوں میں مسکرا مسکرا کر کھانا پروسنے کا کام، غرض کہ ہر گھٹیا سے گھٹیا کام آج عورت کے سپرد کردیا گیا ہے، اور یہاں عورت یہ سوچ رہی ہے کہ اسے آزادی مل گئ، لیکن اس ہندوستانی عورت کو اس کا احساس نہیں ہے کہ آزادی کے نام پر اسے غلام بنادیا گیا ہے مغربی تہذیب کا غلام، اور آزادی کا بہلاوہ دیکر جانوروں کی طرح اس سے کام لیا جارہا ہے،.. اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سے صرف عورت ہی برباد نہیں ہوئی عورت کی اس آزادی نے گھر کے بہت سے افراد کے حقوق بھی مارے ہیں، اور اس آزادی کے چکر میں گھر کے سبھی افراد برباد ہوئے
عورت جب گھر سے آزاد ہوئی تو اس نے گھر میں موجود بزرگوں کی طرف دھیان دینا بند کیا نتیجتاً گھر کے بزرگ اولڈ ہوم کی نظر ہونے لگے، عورت جب گھر سے آزاد ہوئی تو نہ اس کے پاس شوہر کے حقوق ادا کرنے کا وقت رہا اور نہ ہی بچوں کی تربیت کا خیال رہا، اور اس کی خود اپنی اولاد ڈبوں کا دودھ پی کر آیاؤں کی گودوں میں ماں باپ کی محبت کو ترستے ہوئے پلنے لگی، اور جب اس اولاد کو گھر سے اور ماں باپ سے محبت نہیں ملنے لگی تو وہ محبت کو باہر تلاش کرنے لگے اور محبت کی اس چاہ میں وہ غلط راہ پر چل نکلے، عورت کی اس ایک آزادی نے کتنوں کے حقوق مارے اور گھر کے سارے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا،اور اس سے یہ ہوا کہ مغرب ہی کی طرح اخلاق سے آزاد ایک نسل سامنے آئی اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہاں بھی اب لیو ان ریلیشن اور ہم جنس پرستی کی اجازت کے لئے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور ہر وہ فتنے سر اٹھا رہے ہیں جس سے مغرب تباہ ہوا ، اور اگر اسے یہیں نہیں روکا گیا تو ہمارے ملک کو بھی مغرب بننے سے کوئی روک نہیں سکتا، اور وہ دن دور نہیں جب ہمارے یہاں بھی فیملی سسٹم تباہ ہوجائے،…..
تو ضروری ہے اس کے لئے ہندوستانی عوام میں شعور بیدار کیا جائے کہ جس آزادی کے نام پر مغربی تہذیب کا یہاں پرچار کیا گیا ہے، وہ اصل میں غلامی ہے، بد ترین غلامی، جو پورے ہندوستانی سماج کو غلام بناکر رکھ دے گی، اور یہ بھی بتانا پڑے گا کہ آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان خود کو اخلاقیات سے آزاد کردے ، اصل آزادی تو حسن اخلاق میں ہے، حسن اخلاق تو انسان کی فطرت میں شامل ہے، اور جب تک انسان اپنے فطرت پر قائم ہے تو وہ آزاد ہیں اور انسان جب فطرت سے بغاوت کرتا ہے تو وہ غلامی میں چلا جاتا ہے، غرض کہ اخلاقیات کے بغیر انسان کو نہ دنیا میں آزادی مل سکتی ہے اور نہ آخرت میں،…
آج سب سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کام کو کیا جائے، آج سب سے بڑا مسئلہ اخلاقیات کا مسئلہ ہے، جہاں پورا ہندوستانی سماج اخلاقیات سے آزاد ہو رہا ہے، وہیں امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ بھی مغربی تہذیب کی طرف دوڑ رہا ہے، بھلے ہی باقی اقوام کے مقابلے امت مسلمہ بہت سارے معاملات میں اب بھی مغربی تہذیب کی مخالف ہے، لیکن کہیں نہ کہیں ہم بھی اس تہذیب کے غلام بن رہے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم بھی مغربی تہذیب کے عادی ہوتے جارہے ہیں، ہمیں کیا کرنا ہے، ہمیں کیسا رہنا ہے، ہمیں کیا کھانا چاہیے، ہمیں کیا دیکھنا چاہیے یہ سب مغرب طئے کر رہا ہے، بڑی خاموشی سے مغربی تہذیب ہمارے گھروں میں داخل ہو رہی ہے، اور کہیں نہ کہیں آزادی کا وہ مغربی تصور ہمارے گھروں کے اندر بھی داخل ہو رہا ہے، اور اس کا اثر ہمارے رہن سہن میں، ہمارے طور طریقوں میں نظر آرہا ہے، تو ضرورت ہے اس سے پہلے کہ ہم بھی مغربی تہذیب کے غلام بن جائیں اور آزادی کے نام پر اخلاقیات سے آزاد ہوجائیں، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ مغرب کا دیا ہوا یہ آزادی کا تصور صرف دھوکہ ہے جو ہماری دنیا بھی تباہ کردے گا آخرت بھی، اگر ہمیں دنیا اور آخرت کی کامیابی چاہیے تو اخلاق کا دامن تھامے رکھنا پڑے گا،…
اور یہ بات صرف ہمارے سمجھنے کی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم پورے ہندوستانی سماج کو مغربی تہذیب اور آزادی کے اس تصور سے بچائیں، ہم امت وسط ہیں اور ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ جب کبھی دنیا کا قافلہ راہ سے بھٹک جائے، جب کبھی دنیا میں فساد رونما ہو، ہم نجات دہندہ بنیں،.. اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے حلقہ خواتین جماعت اسلامی ہند ملک بھر میں ایک مہم بعنوان،، اخلاقی محاسن آزادی کا ضامن،، منارہی ہیں اس مقصد سے کہ لوگوں کو حقیقی آزادی کا مفہوم سمجھا سکیں، اور آزادی کے نام پر جو مغربی تہذیب کی غلامی میں دھکیلا جارہا ہے اس کے ضمن میں لوگوں میں بیداری پیدا کرسکیں، اور بتاسکیں کہ جس آزادی کے پیچھے لوگ بھاگ رہے ہیں اور خصوصاً عورت بھاگ رہی ہیں وہ اصل میں مغربی تہذیب کی غلامی ہے جو ہمارے ہندوستانی سماج کو اور ہمارے گھروں کو تباہ کرکے رکھ دے گی…پھر اس مہم کے ذریعے سے یہ بھی کوشش کی جائے گی کہ اس وقت سماج میں جو اخلاقی برائیاں موجود ہے اس کو دور کیا جائے، اور لوگوں کو بتایا جائے کہ اخلاقی محاسن ہی اصل میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کا ضامن ہے.
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس مہم کو کامیاب کرے. آمین