ملک کےسیاسی حالات پر اگر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو خورد بین کی طرح صاف نظر آتاہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامے سے مسلم سیاسی طاقت کو جس سازشی طریقے سے چرمرایا گیا ہے اور مسلم قیادت کو کمزور کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے وہ بھی ہندوستان کی سیاست کا مکروہ چہرہ ہے 74 سالوں میں جب جب کسی مسلم قیادت نے سر ابھارا یا کسی مسلم لیڈر کو سیاسی قوت حاصل ہوئی تو اسے کمزور کرنے کا ہر حربہ استعمال کیا گیا کبھی اکثریت کو مسلم قیادت کا خوف دلاکر ، کبھی اسے بھاجپا کی بی ٹیم کہہ کر تو کبھی ووٹ کٹوا کہہ کر کبھی اس پارٹی میں مخالفین و غدّار پیدا کرکے، اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج تک کوئی مضبوط مسلم قیادت یا کوئی رہبر ابھر کر سامنے نہ آسکا جو آیا بھی وہ وقتی طور پر برسات کے موسم میں آسمان پرنظرآنے والے بادلوں کی طرح ٹھوڑی دیر گردش کرکے غائب ہوجاتاہے آپ اگر منظر نامے پر نظر دوڑائیں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کتنی ہی پارٹیاں اپنا وجود بچانے میں ناکام رہیں کتنی ہی دم توڑ چکی ہیں کتنے ہی سیاسی رہبر دوسری پارٹیوں کے ساتھ اپنی زندگی کا بیش قیمت وقت گذار کر آج کسمپرسی کا شکار ہیں لیکن اخلاص سے بھر پور قوم وملت کا درد رکھنے والے بلا تفریق مذہب وملت غریبوں بے روزگاروں مظلوموں کی آوازایوان زیریں سے ایوان بالا تک ٹی وی ڈبیٹ سے لے کر عوامی اجلاس تک کرنے والے اسد الدین اویسی کی پارٹی AIMIM نے اویسی کی قیادت میں حیدرآبادی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اوردیکھتے ہی دیکھتے حیدرآباد مہاراشٹر اور بہار کے بعد اب یوپی میں بھی اپنے وجود کا ستون کھڑا کردیا ہے اور ابھی اترپردیش کے حال میں یعنی مئی میں ہونے کے ضلع پنچایت الیکشن میں بہت ہی نمایا کامیابی اور قابل تعریف کاگردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور کل 22 سیٹوں پر فتح کا پرچم لہرایا اور کئی سیٹوں پر دورری تیسری پوزیشن رہی
اور بس اسی کامیابی سے اترپردیش کی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے پیٹ میں آئندہ 2022 کےالیکشن کے پیش نظر درد ہونا شروع ہوگیا ہے
اسد الدین اویسی کے ساتھ بھی وہی سب کچھ ہوا جو ماضی میں دیگرپارٹیوں اوررہنماؤں کے ساتھ ہوچکا ووٹ کٹوا بی جے پی کی بی ٹیم وغیرہ وغیرہ کہی کر مجلس اتحاد المسلمین کے وجود اور اس کی ترقی پر پٹہ لگانے کا تمام حربہ استعمال کیا اورہندستانی عوام خصوصا مسلمانوں میں اس کو بدنام کرکے اس کے تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئے سیاسی رتھ کو روکنے اور عوامی سطح پر قوم کے بڑھتے ہوئے شوق وجزبہ مجلس واویسی کے تیئں سرد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی اور حیرت یہ کہ باطل طاقتوں نے اس سازش کے لئے میر جعفر ومیر صادق کی طرح خود اسی قوم کے افراد کا انتخاب کیا اور اس طرح اپنوں ہی میں مخالفین پیدا کرکے دشمنان دین نے اپنی توانائی اس کام صرف کرنے سے بچا کر اپنا دامن بچا لیا تاکہ یہ خود آپس میں دست وگریباں ہوں
لیکن بلا لومت لائم اسد الدین اویسی نے کسی کی طعن وتشنیع کو خاطر میں لائے بغیر مسلم امہ کو ظلم وستم کے بھنور سے نکالنے اور مظلوموں کی دارسی کرنے اورسیاست کی گمنام کھائی سے نکال کرملک میں اپنی حصہ داری، اپنے حقوق کے حصول میں مسلسل اپنی توانائیاں صرف کیں اور آج ایک بڑی تعداد کا وہ منظور نظر ہے
اب جو حالات ہیں اس کے پیش نظراگر مسلمانوں نے فہم وفراست سے کام نہ لیا اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے سیاسی لالی پاپ کے چکر میں اپنی سیاسی طاقت نہ بنائی اتحاد واتفاق کا مظاہرہ نہ کیا اورآپس میں منتشر ہوتے بکھرتے رہے مظلوموں کا ہاتھ روکنے والی طاقت کو کمزورکیا تو یاد رکھیں۔
اپنے وجود کو بچانا مشکل ہو جائے گا اور دیگر پارٹیوں میں ہم صرف دم چلّے کی طرح رہ جائیں گے حالات آنے پر اعظم خان کی طرح یا تو ہم بےیارومددگار ہوں گے ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہوگا یاپھراپنی زندگی کے لیل ونہار بی ایس پی کی ترقی میں صرف کردینے والے نسیم الدین صدیقی کی طرح آنٹے سے بال کی طرح نکال کر پھینک دیئے جائیں گے یا پھر سیوان کے شہاب الدین کی طرح بے موت مارے جائیں گے
اس لئے میں ایک بار پھر یہ بات دہراتا ہوں کہ فراست کو کام میں لائیں دانشمندی کا ثبوت دین اور پورے اتر پردیش میں جہاں کہیں بھی امید کی کرن بنتے مجلس کا امیدوار نظر آئے اسے بالکل بھی نظر انداز نہ کریں ہاں اگر کہیں مجلس کا ممیدوار کمزور نظر آئے یا جہاں اس کا امیدوار نہ ہو تو اس صورت میں بھی ہوشیاری کے ساتھ اس کے متبادل کو کمیاب بنانے کی کوشش کریں۔ (جاری)
ازقلم: محمد عظیم فیض آبادی، دیوبند 9358163428