آج کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی درجہ بحال کرنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ حقیقت کی بنیاد پر ہے ۔ 57سال پرانے فیصلے پر سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ اپنی جگہ اہم ہے۔اس میں یہ اشکال بھی رکھ دیا گیا ہے کہ ایک سہ رکنی کمیٹی اس کے اقلیتی کردار پرکام کرے گی کہ کیا واقعی یہ ادارہ اقلیتوں کا قائم کردہ ہے یا نہیں ؟ مسلمانوں کے مدارس ادارے،جماعتیں عدالت میں زیر بحث کیوں لائے جاتے ہیں ۔ادارے تو دوسری کیمو نیٹی کے بھی ہیں لیکن مسلم تعلیمی ادارے ہی کیوں کھٹکتے ہیں آنکھوں میں۔
جبکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں نے ہی محمڈن کالج کی بنیاد رکھی اور اے ایم یو 1920 اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء نے مسلم یونیورسٹی بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر تحریک چلائی تھی ۔عمارتوں کی تعمیرات کے لیے مسلم نوابوں اور جاگیر داروں نے بھی بڑھ چڑھ کر چندہ دیا تھا ۔
سر سید احمد خان کی ساری زندگی اس یونیورسٹی کے قیام، انتظام وانصرام میں ختم ہوئی۔ مسلمانوں نے اپنی پاک کمائ سے، پیٹ کاٹ کر اور اسے مذہبی فریضہ سمجھ اپنی جائیداد وقف کیں اور خطیر چندے سے نوازہ۔
دراصل مسلمانوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں پر بھی گدھ کی نظریں رہی ہے ۔اپنے آقاؤں اور ووٹ بنک کو خوش کرنے کی سیاست نے ہمیشہ سے مسلمانوں کو الجھا کر رکھا۔
مسائل میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کی ضرورت ہی پیش نہ آتی جبکہ واضح ہے کہ اس یونیورسٹی کے قائم کرنے والے مسلمان ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ کبھی شہروں کے مسلم ناموں کی تبدیلی سے ،کبھی اقلیتی کردار کے ختم کرنےسے ،کبھی عائلی نظام ،مسلم پرسنل لاء میں دخل اندازی سے،طلاق ثلاثہ پر قوانین، سیاسی مشغلہ اور ایشو بنا کر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنادیا جاتا ہے ۔اقتدار میں براجمان پارٹی ہو یا اپوزیشن سب اپنے ووٹ بیک کو مظبوط کرنے کے لیے مسلمانوں کو بلی کا بکرا بنا نے میں لگے ہوئے ہیں۔ کبھی کسی کمیٹی کی سفارشات کو، جس سے مسلمانوں کو کچھ حق مل جائے سنبجدگی اور ایمانداری سے نافذ العمل نہیں کیا جاتا ۔ سچر کمیٹی کی سفارشات آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سرد خانے میں کیوں پڑی ہے۔لاگو کیوں نہیں ہوتی۔
اس راز کو کیا جانیں ساحل کے تماشائی
ہم ڈوب کے سمجھے ہیں دریا تری گہرائی
واقعہ ہے کہ اس وقت کوئ سیاسی پارٹی بھی مسلمانوں کی سچی ہمدرد نظر نہیں آتی ۔مسلم لیڈران بھی خود مسلمانوں کےمفادات کے دشمن بنے منافقت کی تصویر نظر آتے ہیں۔ کسی کو راجیہ سبھا دے کر منہ بند کردیا جاتا تھا کسی کو کچھ اور۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،جامعہ ہمدرد،عثمانیہ یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ،جوہر یونیورسٹی معدودے چند مسلم ادارے بیس کروڑ مسلمانوں کے ہیں جو ان کے اسلاف نے بڑی قربانیوں سے قائم کیے تھے ۔
راہ کی دھوپ میرے کام آئی
چھاؤں ہوتی تو سوگیا ہوتا
اگر واقعی حکومتیں اور سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی دور کرنا چاہتی ہیں تو صاف صاف کرنے کے بہت سے سکیولر کام ہیں۔پچھتر سالوں میں کئی کمیشن بنے ،کئی سرکاری بنی بگڑی ۔حکومت نے مسلمانوں اور اقلیتوں کی بہبود کے لیےکمیٹیاں بٹھائیں۔ان کی سفارشات آئیں۔سچر کمیٹی نے بتایا کہ مسلمانوں کی ہر سطح پر حالت بہت ابتر ہے ان کی فلاح و بہبود کے لیے یہ اور یہ کام کرنا چاہیے۔
اگر آپ انھیں ریزرویشن نہیں دے سکتے توکم از کم ان کے اسلاف کے خون پسینے سے بنائے اداروں ،مدارس ،مکاتب ،اوقاف ،درگاہوں سے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کی کھلے دل سے کوشش کیجیے ۔ ان کو ان کا دستوری حق دیجیے۔
کیوں الجھا کر رکھا جاتا ہے مسلمانوں کو؟
کیوں ان کی املاک برباد کی جاتی ہے؟
۔کیوں خوف اور نفرت کی فضا کو پروان چڑھایا جاتا ہےان کے خلاف؟۔
کیوں چلائے جاتے ہیں ان کی املاک پر بلڈوزر۔
ملک کی پیاری ,مٹھاس بھری عوامی زبان اردو جو یہاں جنمی پھلی پھولی اس کے ساتھ کیوں کیا جاتا ہے سوتیلا سلوک؟۔
سیکولر ملک میں دستور وآئین کے تحت مسلمانوں کو ان کا جائز حق ملنا چاہیے ۔بالخصوص تعلیم کے میدان میں آسانیاں اور مدارس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی سہولیات میں مدد ملتی چاہیے۔
مسلمانوں کی تعلیم گاہیں ،مدارس محفوظ نہیں تو ان کی ترقی کے امکانات بھی غیر محفوظ ہیں ۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی 67سال بعد بحالی کے فیصلے کا مسلمان خیر مقدم کرتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ اب مختلف حیلوں ،بہانوں، اور چور دروازوں سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کو الجھائے رکھنے کا سلسلہ تھمے گا۔عصبیت،نا انصافی،نفرت کی جگہ مساوات،عدل،حقوق کی ادائیگی اور محبت کو جگہ ملے گی ۔
ملک کی طویل تاریخ ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کو مسلسل مسائل میں الجھا کر رکھا جاتا ہے۔ایک مسئلہ کسی کروٹ بیٹھا تو دوسرا سر اٹھائے تیار ہے ۔
چین سے ہم کبھ بھی نہ گھر میں رہیے
ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910