اس پر لٹایا مال بھی جاہ و جلال بھی
کتنی عجیب چیز ہے حسن و جمال بھی
ہر شام آفتاب ہمیں دیتا ہے سبق
پایا ہے جب عروج تو ہوگا زوال بھی
گاہے بگاہے آتا ہے خوشیا ں لئے ہوئے
مہمان بن گیا ہے تمہارا خیال بھی
میں جاں نثار بن کے لو میداں میں آگیا
آنکھیں دکھائے اب ہے کسی کی مجال بھی
بڑھتا ہی جارہا ہے مرے دل کا اضطراب
لے لے کہیں نہ جان یہ شوق وصال بھی
یکتائے روزگار ہے وہ پیکر وفا
پھیکا ہے اس کے سامنے رنگ ہلال بھی
غفران تم پہ یونہی نہیں ہے فریفتہ
مسکان دلفریب ہے شیریں مقال بھی
نتیجۂ فکر: غفران انصاری بانکوی