تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
خشکی اور سیلاب برسوں سے ہندوستان کا مقدر بنے ہوئے ہیں، بارش نہ ہونے کی وجہ سے جب موسم خشک رہتا ہے تو فصلیں کھیتوں میں نہیں لگ پاتیں، اوروہ غذائی اجناس جن کے پودوں کی نشو ونما کے لیے زمین کی نمی کافی نہیں ہوتی وہ یا تو لگائے نہیں جا پاتے اور کبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے لگانے کے بعد بھی سوکھ جاتے ہیں، ایسے میں غذائی اجناس کی پیداوار کم ہوجاتی ہے اور ضرورت کے مطابق آبادی کے اعتبار سے خوراک کا مہیا کرنا ذرا دشوار ہوجاتا ہے، یقیناً ہندوستان غذائی اجناس کے معاملہ میں خود کفیل ہے، لیکن موسم کا مزاج بدل جاتا ہے اور برسات کے ایام خشک گذر جاتے ہیں تو پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔
دوسرا معاملہ سیلاب کا ہے، یہ کبھی بارش کی کثرت سے ہوتا ہے اور کبھی پڑوسی ملک کے پانی چھوڑ دینے کی وجہ سے، خشک موسم کی بہ نسبت سیلاب زیادہ قہر ڈھاتا ہے، جتنے دن سیلاب رہتاہے، لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں، اونچی جگہوں پر پناہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں، عورتوں اور بچوں کا بُرا حال ہوتا ہے، ضرورت کی چیزیں، پانی، دودھ، ماچس، بسکٹ، قضائے حاجت کے لیے مناسب جگہ میسر نہیں ہوتے، سرکاری انتظام ناکافی ہوتا ہے اور جو پہونچتا ہے وہ بندر بانٹ کے بعد کم مقدار میں پہونچتا ہے، سرکاری ایجنسیوں کی نالی میں اتنے سوراخ ہوتے ہیں کہ امداد کی رقم اور سہولیات ضرورت مندوں تک پہونچتے پہونچتے چوتھائی سے بھی کم ہوجاتے ہیں، سرکاری افسران اورکارکنوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور متاثرین کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی، یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ریلیف اور امداد کی رقموں پر بھی افسران اور کارکنان قبضہ کرنے سے نہیں ہچکچاتے اور شیر مادر کی طرح اس کااستعمال کرجاتے ہیں، وہ بھی بغیر ڈکار لیے ہوئے۔
ان دنوں بھی مختلف ریاستوں، گجرات، راجستھان، بہار، ہماچل پردیش، تری پورہ، آندھرا پردیش، آسام، تلنگانہ، ناگا لینڈ، وغیرہ سیلاب اور تودے گرنے، چٹانیں کھسکنے کی وجہ سے دور کرب والم سے گذر رہے ہیں۔ 1950میں ہندوستان میں صرف ڈھائی کروڑ ہیکٹر ایسی زمینیں تھیں جہاں سیلاب آتا تھا، لیکن تمام تر ترقیاتی دعووں کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ اب تقریبا ساٹھ کروڑ ہیکٹر ایسی زمینیں ہیں جو سیلاب کی زد میں ہر سال آجاتی ہیں، اور ہماری اس مصیبت سے نمٹنے کی ساری تیاری کو ٹھینگا دکھا کر گذر جاتا ہے۔
صرف بہار کی بات کریں تو گنگا میں پانی کی سطح میں غیر معمولی اُچھال آیا ہے، جس کی وجہ سے بکسر بھوجپور، سارن، ویشالی، پٹنہ، سمستی پور، بیگو سرائے، لکھی سرائے، مونگیر، کھگڑیا، بھاگلپور اور کٹیہار میں 2.67لاکھ آبادی کو سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، گنگا کے علاوہ کوسی بوڑھی گنڈک، گھاگھرا، پن پن اور سون ندیوں کے پانی میں بھی اضافہ درج کیا گیا ہے،محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال اب تک معمول سے آٹھ فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے، دوسری طرف ملک کے ایک سو پچاس اضلاع یعنی ایک چوتھائی کو خشک سالی کا سامنا ہے ہم سیلاب کے اس پانی کو وہاں تک پہونچانے پر قادر نہیں ہیں، اگر ایسا ہو سکتا تو ملک دونوں قسم کی پریشانیوں سے بچ سکتا تھا۔
اس صورت حال کے پیدا کرنے میں ہماری حصہ داری بھی کم نہیں ہے، ترقی اور توسیع کے نام پر ہمارے منصوبوں میں پانی کی نکاسی پر دھیان نہیں دیا گیا، ہم نے نالیوں اور پانی کے نکاس کے راستوں کو گندگیوں کے ڈھیر سے بند کر دیا ہے، اس لیے تھوڑی بارش ہونے پر بھی پانی کا جماؤ ہو جاتا ہے، سڑکیں بندہوجاتی ہیں اور چلنا پھر نا دشوار ہوجاتا ہے۔ ملک میں صرف چار مہینے بارش کے ہیں، جن میں 80% فی صد برسات ہوتی ہے، کیا سرکاری سطح پر ہم اس تباہ کن پانی کو جمع کرکے خشک علاقوں میں پہونچانے کا مناسب نظم نہیں کرسکتے، پنجاب نے اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں خشک سالی کا گذر نہیں ہوتا اور بڑے بڑے ڈیم میں پانی اسٹور کیا جاتا ہے، اور ضرورت کے وقت اس کا استعمال کیا جاتا ہے، بھاکڑہ اور ننگل ڈیم سے یہی کام لیا جاتا ہے، کیا ملک کی دوسری ریاستوں میں اس تجربہ کی توسیع نہیں کی جا سکتی، ضرور کی جا سکتی ہے، بعض ریاستوں میں ڈیم بنائے بھی گیے ہیں، لیکن وہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے اور خشکی کے وقت دوسرے علاقوں میں پانی پہونچانے کے عمل کے اعتبار سے کافی نہیں ہیں، سرکار اور حکومت کو خصوصی طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے اگر ہم اس منصوبہ میں کامیاب ہو گیے تو یہ سیلاب زدہ علاقوں کے لیے بھلا ہوگا، اور ہر سال جو امداد کے نام پر سرکارکو اربوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، اس کی نوبت نہیں آئے گی۔
جو علاقے سیلاب سے متاثر ہیں، ان کی قریب کی آبادی جن کو اللہ نے اس مصیبت سے محفوظ رکھا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وسائل سے منظم انداز میں متاثرین کی خبر گیری اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے فکر مند ہوں، سرکاری سطح پر جو امدادکا کام ہو رہا ہے اس پر نگاہ رکھیں کہ وہ مکمل طور پر ضرورت مندوں تک پہونچ رہا ہے یا نہیں۔
امارت شرعیہ بھی سیلاب متاثرین کے لیے راحت رسانی کا کام کر رہی ہے، اس نے ہر موقع سے چاہے آفت زمینی ہو یا آسمانی بغیر ذات ومذہب کی قید کے امدادی رقوم اور سامان ضرورت مندوں تک پہونچایا ہے، ایسے موقع پر امارت شرعیہ پورے ملک میں کام کرتی ہے اور اس نے ماضی میں گجرات فساد، کشمیر کے سیلاب، نوح راجستھان اور مظفر نگر کے فساد وغیرہ کے موقع سے مہینوں کام کیا ہے، اور اب بھی ہمارے حوصلے بلند ہیں، البتہ کبھی کبھی وسائل کی کمی کاہمیں شکوہ ہوتا ہے، اس لیے ایسے تمام لوگ جو متاثرین تک امداد نہیں پہونچا سکتے، ان کے لیے امارت شرعیہ کی خدمات حاضر ہیں، وہ اپنی امدادی رقم بیت المال امارت شرعیہ کو ارسال کردیں، امارت شرعیہ کے خدام کو اس کام کا اچھا تجربہ ہے، اس کام کو آپ کی طرف سے انجام دیں گے، امارت شرعیہ کی ایک ٹیم کھگڑیا کے علاقہ میں ریلیف کا کام کرکے ابھی لوٹی ہے، دوسرے سیلاب زدہ علاقوں میں امیر شریعت مفکر ملت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے حکم وہدایت پر امداد رسانی کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، ہماری منصوبہ بندی کی کامیابی کا مدار آپ کے دست تعاون دراز کرنے پر ہے، ہمیں آپ کے تعاون کا انتظار رہے گا۔