سالانہ اجلاس: جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر

حسب ایماء مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر،امیر شریعت بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ۔9نومبر 2024ءمطابق 6/جمادی الاولی 1447ھ بروز ہفتہ اتوار بعد نماز مغرب جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کاایک عظیم الشان سالانہ اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے ۔ جس میں ملک کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں لوگوں کے شریک ہونے کی خبریں آرہی ہیں ۔9نومبر کو بعد نماز عصر تا مغرب بیعت وارشاد کا بھی سلسلہ رہے گا ۔

جامعہ کے اس سالانہ پروگرام کی مقبولیت کی ایک قدیم تاریخ ہے جس کا لوگ مہینوں قبل سے انتظار کرتے ہیں ،اور مقررہ تاریخ میں تیاریوں کے ساتھ بامقصد تشریف لاتے ہیں ۔ قطب عالم مولانا محمد علی مونگیری،حضرت مولانا سید شاہ لطف اللہ رحمانی ،امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی بانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ،امیر شریعت سید شاہ مولانا محمد ولی رحمانی سابق جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ وسجادہ نشین خانقاہ رحمانی مونگیر کے زمانے سے یہ روحانی سلسلہ اپنی اپنی جہت سےچلا آرہا ہے ،بعض لوگ اسے عرس کا نام بھی دیدیا کرتے ہیں جو کہ غلط ہے ،بلکہ عام اداروں کے پروگرام کی طرح اس روحانی وعلمی مرکز کا بھی اپنا ایک پروگرام سالانہ منعقد ہوتا چلا آرہاہے ۔اجلاس پوری طرح مروجہ خانقاہوں کی روایات سے پاک ہوتا ہے ،اجلاس کی تاریخ یقینی طور سےبدلتی رہتی ہے ،البتہ مخلصین ومحبین اور منتسبین ومسترشدین کی سہولتوں کے پیش نظر ہر سال اجلاس کے اختتام پر حسب مشورہ ایک مقررہ تاریخ کا اعلان کردیا جاتا ہے ۔
یہاں سالانہ پروگرام میں ادارے کی طرف سے خواتین کی آمد کے سلسلے میں مہینوں قبل یہ اعلان بھی کردیا جاتا ہے کہ اس میں خواتین کی شرکت سخت ممنوع ہے ۔مگر اس کے باوجود قرب وجوار سے باپردہ خواتین بھی شریک دعا ہوجایا کرتی ہیں۔
اجلاس مفکر اسلام امیر شریعت سابع حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب نوراللہ مرقدہ کے زمانے میں عمومآ دس ساڑھے دس بجے تک ختم ہوجایا کرتا تھا ،بعد اختتام اجلا س عشا کی نماز ہوتی اور مہمان حضرات کھانے سے فارغ ہوتے تھے ،مجھے لگتا ہےاب بھی یہی معمول ہوگا یا رہے گا ،البتہ پروگر کا اختتام حسب ہدایت ہوا کرتا تھا ،لوگ نپی تلی گفتگو کرتے تھے ،علمی مظاہرے بھی مختصر ہوتے تھے ،مقررین کی تقاریر کوبھی ایک مقررہ وقت پر ختم ہوجا ناہوتا تھا ،کیا مجال کہ طے شدہ پروگرام میں کوئی سیند ماری ہو جائے ۔اس سے میزبان کے علاوہ مہمانوں کو بھی سہولت ہوتی تھی ،بد نظمی یا بے انتظامی کہیں سے بھی نہیں دکھتی تھی،وہاں ہر کام کے لئے ایک متعین وقت تھا اور ہر وقت کے لئے بھی ایک مقرر کام۔یقینا موجودہ امیر شریعت وصاحب سجادہ خانقاہ رحمانی مونگیر حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم کی دوررس نگاہ اورپختہ انتظامی صلاحیت بھی ان پہلوؤں پر خاص رہے گی اور پورا عملہ ان کے احکام کی بجاآوری اور سمع وطاعت کو راہ دے گا ۔ان شاء اللہ

جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کا یہ سالانہ اجتماع کئی جہتوں سے علم وروحانیت کا مظہر ہوتا ہے ،اس با مقصد عظیم الشان تاریخی اجلاس میں تشریف لانے والے احباب میں ہر طبقہ کے افراد خصوصیت سے شامل ہوتے ہیں اور یہاں پہنچ کر روحانیت محسوس کرتے ہیں ،یہاں کا حسن انتظام ،احترام واکرام اور صاف صفائی لوگوں کو متآثر کرتی ہے دور دراز سےآنے والے مہمانوں کے قیام وطعام کا بھی مناسب نظم کیا جاتا ہے ،البتہ لوگ چوں کہ خانقاہ کی نسبت سے تشریف لاتے ہیں اس لئے عقیدت مندانہ آتے ہیں ،خانوادہ رحمانی کے بزرگوں کے احسانات کے اعترافات کے ساتھ تشریف لاتے ہیں ،اس لئے مہمانان کرام معمولی کمیوں کو خاطر میں نہیں رکھتے ،بلکہ خانقاہ کی طرف سے جو خدمت بھی اپنے مہمانوں کی ہوتی ہے اس کے وہ ممنون و مشکور ہوتے ہیں ۔اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہاں آنے والے اصلاح پسند افراد بے جا ادھر ادھر سیر وتفریح میں اپنے وقت برباد نہیں کرتے ،بلکہ خانقاہ کی ہدایت کے مطابق ذکر واذکار ،سلسلے کی درود شریف اور کلمہ طیبہ کے ورد کے ساتھ اپنا پورا وقت گزارتے ہیں ،جس سے انہیں روحانی طور پر سکون اور ایمانی نور قلب وجگر میں محسوس ہوتا ہے ۔

اگلے روز بعد فجر تلاوت قرآن کریم اور معمولات اور ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوکر کوئی آٹھ ساڑھے آٹھ بجے صبح سے خانقاہ کی مسجد میں احباب جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں ،اس درمیان مستقل ذکر وتلاوت اور دیگر معمولات رحمانی کا ورد ہوتا رہتا ہے ،اخیرمیں دس ساڑھے بجے صاحب سجادہ تشریف لاتے ہیں اورملک وملت کی فوز وفلاح سمیت مرحومین ومرحومات اور سلسلہ کے بزرگوں کے لئے دعاء مغفرت کی جاتی ہے، بہ طور خاص سالانہ دعاکی مجلس میں لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے،جس سے بوقت دعا گریہ وزاری کا منظر دیدنی ہوتا ہے ،یقین وامید سے بھری یہ دعائیں قبول ہوتی ہیں ،مرادیں اللہ تعالی پوری کرتے ہیں ،وہیں موجود بزرگوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ کر لوگ اشک وحسرت بھری نگاہوں کے ساتھ جامعہ وخانقاہ سے رخصت ہونے لگتے ہیں ۔
یہاں آنے والے افراد کی بہت بڑی تعداد ہوتی ہے ،جو بالیقین اپنے بزرگوں سے عقیدت ومحبت میں ان کے دیدار ودعا کے لئے آتی ہے ،یہاں کے بزرگوں کا حلقہ کا فی وسیع ہے ،یہاں سے محبت وعقیدت رکھنے والے ملک ہر گوشے میں ہیں ،تقاضہ تو یہ تھا کہ ہر کسی کے حلقے میں یہاں کے موجودہ سجادہ نشیں عام پیروں کی طرح بہ نفس نفیس تشریف لے جاتے ،مگر اس خانقاہ کی روایت رہی ہے کہ "نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری ” یہاں کا مزاج رہا ہے کہ ملک وملت کے تقاضوں کی تکمیل خلوتوں سے زیادہ اہم ہیں ،رخصتوں کی بجائے عزم وعزیمت یہاں کا دستور رہا ہے ،ہر نازک موڑ پر ملت اسلامیہ کی قیادت یہاں کی خمیر میں شامل ہے،کانٹوں کے سیج پر چل کر” نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ” خانقاہ رحمانی کے بزرگوں کی پہچان رہی ہے ،روشن نقوش اور تابناک تاریخ رکھنے والی یہ خانقاہ ،زندہ اور بافیض خانقاہ ہے ، اس لئے خانقاہ سے وابستہ ایک ایک فرد تک پہنچ پانا مشکل ہے ،بایں طور یہ اجلاس منعقد ہوتا ہے تاکہ فضلا اور حفاظ کے سروں پر فضیلت کا تاج بھی رکھا جائے اور اجتماعی طور پر اپنے منتسبین سے گہری ملاقات کا موقع بھی اجتماعی طور ہاتھ آجائے۔ چنانچہ9/تاریخ والے اس عظیم الشان سالانہ فاتحہ کے موقع پر لوگوں کو کثیر تعداد میں شریک ہوکر ثواب دارین حاصل کرنا چاہئے ،واپس ہوتے ہوئے خانقاہ رحمانی اور سلسلہ کے بزرگوں کی کتابیں بھی وہیں دالااشاعت سے خرید نی چاہئے ،تاکہ ہم اپنے اکابرین اور اہل اللہ سے بعد مرگ بھی مستفید ہوتے رہیں۔

تحریر : عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ ،رحمانی نگر خاتوپور ،بیگوسرائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے