محمود مدنی کا خاندانی تعارف یہ ہے کہ ان کے والد مولوی اسعد مدنی کو جمیعت علماء ہند کی صدارت اپنے والد یعنی محمود مدنی کے دادا سے وراثت میں ملی تھی۔ گویا یہ ایک خاندانی جاگیر تھی جو محمود کے دادا نے اپنے مرنے سے پہلے محمود کے ابا کو سونپ دی۔ پھر محمود کے ابا نے جمیعت علماء کی طاقت اور اثاثوں کو کانگریس پارٹی کی خدمت گزاری میں اس طرح سے لگایا کہ مسلمانوں کی اکثریت جمیعت کے رعب اور اثر کی وجہ سے کانگریس کی بے دام غلام بنی رہی۔ کانگریس نے اس کے عوض محمود کے ابا کو راجیہ سبھا کا ممبر اور اپنی حکومت کا ایک درباری بنا کر رکھا۔ غالب کے مصرعے :”بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا” کے مصداق محمود کے ابا نے زندگی بھر خوب دھوم مچائی۔ جب جب حکومت کو ضرورت ہوئی محمود کے ابا حکومت اور کانگریس کے کام آئے اور ایک گماشتے بن کر پوری دنیا میں گھوما کئے۔ مثال کے طور پر کانگریس پارٹی کی حکومت میں جب مرادآباد کے اندر خاص عید کے دن مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا اور کانگریس کی کی سیکولر حکومت کی اس کارگزاری کی خبریں ملک کے باہر پہنچیں تو محمود کے ابا نے کانگریس پارٹی اور حکومت کا "سنکٹ موچک” بن کر مسلم، خاص طور سے عرب ملکوں کا دورہ کیا اور سب کو مطمئن کرنے کا کام کیا کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے، کوئی خاص معاملہ نہیں ہوا ہے۔
یہ محمود کے ابا کی زندگی بھر کی کار گزاریوں کی ایک مثال ہے، ساری زندگی اسی طرح کے تمغے وہ حاصل کرتے رہے۔لیکن جیسے جیسے مسلمانوں کو سمجھ آتی گئی محمود کے ابا کا دائرہ اثر سمٹ کر صرف جمیعت سے وابستہ کانگریسی ملاؤں تک سکڑتا گیا۔ محمود کے ابا کی اخلاقی حیثیت عام مسلمانوں کی نگاہوں میں یہ ہوگئ تھی کہ محمود کے ابا کی ہر سرگرمی کو وہ شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ سن اسی کی دہائی میں محمود کے ابا نے ایک "تحفظ حرم کانفرنس” منعقد کی تھی تو ایک مقبول عام اردو اخبار میں اس پر ایک منظوم تبصرہ شائع ہوا تھا جس کا عنوان تھا: "مولانا آمدنی کی تحفظ شکم کانفرنس”. اس طرح کی شہرت رکھنے والے باپ کے ہونہار فرزند ہیں محمود مدنی۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو؟
چنانچہ محمود کے ابا کی موت کے بعد محمود مدنی نے خود کو اپنے باپ کی میراث کے لائق ثابت کرنے کے لئے اور محمود کے چچا نے اپنے باپ کی میراث حاصل کرنے کے لئے وہ سب کچھ کردکھایا جو اپنے اپنے باپوں سے سیکھا تھا۔ جمیعت چوں کہ اس مولوی خاندان کے لئے ایک موروثی سلطنت بن گئی تھی اس لئے سلطنت کے دعوے داروں کی طرح یہ چچا بھتیجے خوب لڑے۔ کروڑوں روپیہ ان ملاؤں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے پانی کی طرح بہایا اور آگ کی طرح جلایا۔ یہ دولت ظاہر ہے کہ ان کے خون پسینے کی کمائی کی نہ تھی، بلکہ غریب مسلمانوں سے لئے جانے والے چندوں کی، جمیعت کے اندھے عقیدت مندوں سے حاصل نذرانوں کی, یا پھر ملت کو غلام بناکر رکھنے کے عوض سیاسی سرپرستوں سے ملنے والی تنخواہوں سے جمع کی ہوئی تھی۔ چچا بھتیجے کی اس لڑائی میں جمیعت کے سارے ملا دو گروپوں میں بنٹ گئے بجائے اس کے کہ اس لڑائی پر اور لڑنے والے دنیا پرستوں پر لعنت بھیجتے اوراسلامی تعلیمات کے مطابق کسی متقی اور معتبر عالم کو اپنا أمیر بناتے جو قرآن و سنت کی روشنی میں ان کی تربیت کرتا اور صحیح فکرو عمل کی طرف ان کی رہنمائی کرتا۔
جمیعت کو اپنی خاندانی سلطنت بناکر رکھنے والے ان چچا بھتیجوں کی لڑائی سب کے سامنے ہے اور ہر سمجھ دار و باخبر آدمی انہیں خوب سمجھتا ہے۔ لیکن وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔ محمود مدنی کے پاس نہ تو کوئی خاص تعلیم ہے نہ کوئی واقعی علم وشعور۔ اوپر سے طبیعت کا پھٹیجر پن اور مزاج میں لچر پن نیز رعونت و تکبر۔ ان "اوصاف” کی وجہ سے یہ ملت اور اسلام دونوں کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔ باپ کے طور طریقوں پر چلتے ہوئے باپ سے بھی زیادہ پھوہڑ پن دکھا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں دیوبند میں ہوئی کانفرنس میں اور اس کے بعد ، جو گھٹیا اور جاہلانہ نیز متضاد بیانات انہوں نے دئے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں دونوں کے لئے انتہائی ہلاکت خیز ہیں۔ کافر اور مشرک کی قرآنی اصطلاحوں کا غلط مفہوم بیان کرنا، مندروں میں پیڑ لگانے اور جاکر پانی پلانے کی تلقین کرنا، گیان واپی اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کے مقدموں میں پھر سے یہ بیانیہ جاری کرنا کہ عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے، وغیرہ ایسے بیانات ہیں کہ جاہل اور سیدھے سادھے یا اندھے عقیدت مند تو ان کاموں میں لگ جائیں گے لیکن ہوش و گوش رکھنے والے اور علم و بصیرت نیز شعور و آگہی رکھنے والے لوگ فکر مند ہیں کہ یہ شخص ملت کے لئے کتنا خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہندوتوادیوں کی طرف سے چھیڑی گئی لڑائی میں ہندوتوادیوں کی کامیابی اور مسلمانوں کی شکست کے راستے ہموار کررہا ہے۔
مرسلہ: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری