اسرائیل مشرقی وسطیٰ میں بالا دستی چاہتا ہے یا امن؟

ایران بلآخر اسرائیل پر 200 میزائلوں سے حملھ کر دیا ہے اور اس حملے میں تل ابیب سمیت پورے اسرائیل کے فوجی زون میں تباہی کی خبر ہے ۔اسرائیل اس حملے کا جواب دینے کی تیاری کر رہا ہے ۔اگر اسرائیل نے ایران پر حملھ کیا تو مشرق وسطیٰ کی یہ جنگ پھیل جائے گی ۔ایران نے امریکہ کو بھی دھمکی دئ ہے کہ اسرائیل کے حملے میں اُسنے ساتھ دیا تو مشرقی وسطیٰ میں موجود امریکی ٹھکانوں پر حملھ کرنے سے ایران باز نہیں آئے گا ۔اِدھر اسرائیل کی زمینی فوج نے لبنان کے اندر جیسے گئی حزب اللہ نے آٹھ اسرائیلی افواج کو مار گرایا اور بیس سے زیادہ کو زخمی کر دیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل تکنیکی طور پر حزب اللہ اور ایران سے بہتر ہے ۔اس کی خاص وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ اپنی پوری تکنیک اسرائیل کو فراہم کرتا ہے ۔حزب اللہ اور مزاحمتی تنظیموں کی جنگ دیکھنے میں ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل سے ہو رہی ہے لیکن حقیقت میں اُن تنظیموں کو امریکہ جیسے سپر پاور سے جنگ لڑنی پڑ رہی ہے ۔مزاحمتی تنظیموں کی سب سے بڑی کمزوری ہوائی دفاع ہے اور اسرائیل کو اس ہوائی جنگ میں پوری برتری ہے۔لیکِن اسرائیل ہوائی برتری رکھنے کے باوجود مزاحمتی تنظیموں سے زمینی لڑائی جیت پانے کی حالتِ میں نہیں ہے ۔غزہ جو محض چند کیلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے جنگ کے ایک سال پورے ہونے کے باوجود اسرائیل حماس سے اپنے قیدیوں کو رہا نہیں کرا پایا ہے اور نہ حماس کو شکست دے پایا ہے۔مزاحمتی تنظیمیں یہ چاہتی ہیں کہ اسرائیل لبنان پر زمینی حملھ کرے۔مضمون جب لکھ رہا ہوں تو اسرائیل – لبنان سرحد سے یہ اطلاع آ رہی ہے کہ اسرائیل افواج نے لبنان پر زمینی حملھ کر دیا ہے ۔کسی ملک پر حملھ کرنا اور اس پر کنٹرول بنائے رکھنا آسان کام نہیں ہے۔اسرائیل لبنان پر بیس سال تک اپنا قبضہ بنائے رکھا تھا اور آخر کار 2006 میں لبنان سے اسرائیلی فوج کو واپس آنا پڑا۔صرف اسرائیل ہی نہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کو ویتنام ہو یا افغانستان میں ایک لمبی جنگ کے بعد شکست خوردہ ہو کر راہ فرار اختیار کرنی پڑی ۔امریکہ ہو یا یورپ یا اسرائیل کبھی بھی طویل جنگ میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے ۔عراق یا افغانستان میں شروعاتی کامیابی اس لئے حاصل کر پائی کہ اُسی ملک کی دوسری تنظیمیں امریکہ کے ساتھ ہو گئی تھیں۔لبنان اور غزہ میں اسرائیل کو خود لڑنا پڑ رہا ہے ۔غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر دینے کے باوجود مزاحمتی تنظیمیں اسرائیلی افواج کو سانس لینے کا موقع نہیں دے رہی ہے ۔شاید اسرائیل یہ سوچ رہا ہو کہ حزب اللہ کے جنرل سکریٹری حسن نصراللہ کو شہید کر دینے سے حزب اللہ کمزور ہو گیا ہے اور یہ سہی وقت ہے کہ لبنان پر چڑھائی کر دی جائے ۔لیکِن حسن نصراللہ کے شہید ہونے کے باوجود حزب اللہ مسلسل اسرائیل پر راکٹ اور میزائل سے حملھ کر رہا ہے اور اس حملے میں اسرائیل کو نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے ۔اسرائیل کا شمالی علاقہ غیر قانونی سیٹلر سے خالی ہو چکا ہے ۔اُسی غیر قانونی سیٹلر کو پھر سے اپنے گھر واپس لانے کے لئے اسرائیل حزب اللہ کے خلاف زمینی حملھ شروع کیا ہے ۔تاکہ جنوبی لبنان کے کچھ حصے پر قابض ہو کر اپنے علاقے کو حزب اللہ کے حملوں سے محفوظ بنایا جائے ۔
لیکِن حزب اللہ ،ایران ،شام اور حوثی کے جوان اسی دن کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ اسرائیل لبنان کے اندر تو آئے۔یہ جنگ اب نہیں رکے گی ۔اسرائیل کو ہوائی برتری ہونے کے باوجود لبنان کے پہاڑیوں اور کھیتوں میں حزب اللہ کے لڑاکے کو شکست دینا آسان نہیں ہے ۔اسرائیل کی افواج بھارت اور پاکستان کی افواج کی طرح کنونشنل افواج نہیں ہیں۔ہاں اسرائیلی افواج کو تکنیک میں مہارت حاصل ہے لیکِن آمنے سامنے کی لڑائی میں فوجی ساز و سامان کے ساتھ ہمت اور دلیری بھی چاہئے جو اسرائیلی افواج میں نہیں ہے۔ساتھ ہی یہ لڑائی لمبی چلتی ہے تو اسرائیل کے لئے جنگ میں بنے رہنا مشکل ہو جائے گا ۔کیونکہ غزہ ہو یا لبنان یا شام ہو ان جگہوں کے رہائشی کو جنگ کی حالت میں رہنے کی عادت سی ہے لیکن حزب اللہ یا حماس کا ایک راکٹ اسرائیل کے کسی ایک شہر پر گرتا ہے تو پورا اسرائیلی شہر بنکر میں چھپنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے پھر بھی ایک بھی فلسطینی غزہ نہیں چھوڑے لیکِن پورا شمالی اسرائیل اور غزہ سے لگے سیٹلمنٹ حزب اللہ اور حماس کے راکٹ اور میزائل سے گھبرا کر اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں ۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اُسی بھاگے ہوئے سیٹلر کو پھر سے شمالی اسرائیل میں اُنکے گھروں میں واپس لانے کے لئے لبنان پر حملھ کیا ہے ۔نیتن یاہو سیٹلر کو اُنکے گھر واپس لا پانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن اسرائیل کو ایک مشکل جنگ میں ضرور جھونک دیا گیا ہے ۔لیکِن اسرائیل کی عقل مندی اسی میں ہے کہ وہ جنگ بندی کے لئے راضی ہو جائے اور ایک آزاد اور خودمختار فلسطین ریاست کے وجود کو تسلیم کر اُسے حقیقت میں بدلنے میں مدد کرے۔اسرائیل مشرق وسطیٰ میں سپر پاور بن کر رہنا چاہے گا تو اب ممکن نہیں ہے کیونکہ اب امریکہ کی سپر پاور حثیت باقی نہیں رہی تو اسرائیل کی بالادستی کیسے قائم رہ سکتی ہے ۔اسرائیل اس حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ اس کے وجود پر سوال کھڑا ہو جائے گا ۔

تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے