اہم کیا ہے ؟

گذشتہ کچھ مہینوں سے مسلمانوں کے درمیان وقف املاک کے تحفظ کو لے کر بڑی پریشانی نظر آرہی ہے اور مسلمانوں کی مختلف تنظیمیں ، ادارے اور شخصیات وقف بچائو تحریک سے جڑکر حکومت کے خلاف مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں ۔ مختلف طریقوں سے اپنا احتجاج درج کروارہے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وقف اللہ کی امانت ہے اس میں کسی کی مداخلت قبول نہیں کی جائیگی اور حکومتوں کو وقف کے معاملات سے دوری بنائے رکھنے کی تلقین کی جارہی ہے ۔ یقیناََ وقف اللہ کی امانت ہے اور اس کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ۔ اس درمیان کچھ سوالات ایسے بھی ہیں جس کا جواب ملک کے بیشتر مسلمان چاہ رہے ہیں ۔ جب تک مسلمانوں کے اوقافی اداروں ، املاک پر مسلمانوں نے قبضہ جمائے رکھا ہواتھا تو اس وقت یہی تنظیمیں ، ادارے اور شخصیات کہاں تھے ؟۔ کیوں عوام کے درمیان اوقاف کے تحفظ کے تعلق سے زبانیں خاموش رکھے ہوئے تھے ؟۔ کیوں مسلمانوں کی جانب سے ہی لوٹے جارہے اوقافی اداروں کے تحفظ کے لئے تحریکیں نہیں چلائی گئی تھیں ؟۔ اس کاجواب اگر تلاش کریں تو یہ بات سامنے نکل کر آئےگی کہ اپنے کریں تو چمتکار ، دوسرے کریں تو بلاتکار !!۔ آج جب مسلمانوں کے پاس سے حکومت وقف اداروں کوچھین رہی ہے تو وہ لوگ بھی بہت پریشان ہیں جنہوںنے اوقاف کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ رکھے تھے اور اسے چیل کوئوں کی طرح پھاڑ کھارہے تھے ۔ وقف کے علاوہ ایک اور اہم مسئلہ ہے مسلمانوں کے سامنے درپیش ہے اور وہ مسئلہ توہین رسالت ﷺ کے تعلق سے ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی توہین کی جارہی ہے ، مسلسل شر پسنداور شدت پسند لوگ آپ ﷺ کی توہین کررہے ہیں اور ان کی زبانوں کو بند کرنے کے لئے چند مسلمانوں کو چھوڑ کر ملک کی بیشتر خود ساختہ مسلم تنظیمیں ، مسلم قائدین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ محض مذمتی بیانات دے کر اپنا دامن بچالیتے ہیں ۔ کچھ مسلم لیڈران اور علماء اخباری بیانات دے کر اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وقف ایکٹ سے اہم مسئلہ توہین رسالت ﷺ کا ہے جس پر قابو پانا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ لیکن مسلمان اس فرض سے کنارہ کشی کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ جس وقف کو مسلمانوں نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے صدقے سے حاصل کیا ہے وہ آج انکی شان سے بڑھ کر دیکھا جارہاہے ۔ اسلام میں حضرت محمد ﷺکی شان تمام نعمتوں اور رحمتوں سے بڑھ کر بتائی گئی ہے لیکن مسلمانوں کے ذمہ داران ، تنظیمیں اس معاملے میں سخت موقوف کیوں نہیں اپنا رہی ہیں ؟۔ چند گز زمین کے معاملے کو لے کر ساری ساری زندگیاں عدالتوں کے چکر کاٹنے کے لئے تو مسلمان تیار ہیں لیکن  حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے کیوں تیار نہیں ہورہے ہیں ۔  حضرت محمد ﷺ پر جانیں نچھاور کرنے سے لے کر انکی شان میں جلسے منعقد کرنے والے کیوں توہین رسالت پر چپکی سادھے ہوئے ہیں ۔ کیا ایمان کا یہی تقاضہ ہے کہ مسلمان اپنے پیار ے نبی حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف سخت موقف اپنانے سے بھی گریز کریں ۔ نعرے تو جان نچھاور کرنے کے لگاتے ہیں ، انکی شان میں لاکھوں کروڑوں روپیوں کے جلسے کرلیتے ہیں ، ان کے میلاد میں لاکھوں کا مجموعہ بھی اکھٹا کرلیتے ہیں لیکن جب بات انکی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی آتی ہے تو حکمت کے نام پر خاموشی کیوں اختیار کی جارہی ہے ؟۔ وزیر داخلہ یا صدر ہند کو خط لکھ اپنی ذمہ داری کوادا کرنے کی کوشش کرنے والے خود ساختہ لیڈران کیوں کھل کر حکومتوں کے سامنے نہیں آرہے ہیں ۔ فیصلہ کریں کہ وقف ایکٹ اہم ہے یا شان رسول ﷺ کاتحفظ اہم ہے ۔

از قلم : مدثر احمد، شیموگہ ۔9986437327

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے