حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب: چمچوں کے جال میں!

سر دیوار لکھتاہوں پس دیوار کے قصے

آج مختلف اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم، امیرشریعت امارت شرعیہ نے وزیراعلی جھارکھنڈ،ہیمنت سورین سے ملاقات کی اور کرناٹک،تلنگانہ کے طرز پرجھارکھنڈ اسمبلی میں بھی وقف ترمیمی بل کو مسترد کرنے کی درخواست کی ہے،یہ اچھا مطالبہ ہے کہ کوئی اسمبلی مخالفت کی تجویز منظور کرے جیساکہ بہار اسمبلی نے این آرسی کے خلاف تجویز منظورکی تھی-

لیکن میری تحقیق کے مطابق وقف ترمیمی بل کے خلاف تلنگانہ، کرناٹک اسمبلی نے ایسی کوئی تجویز منظور نہیں کی ہے ،لگتاہے کہ یوٹیوب پر ریسرچ کرنے والی ٹیم نے امیر شریعت دامت برکاتہم کو مس گائیڈ کیا ہے، یاد رہے کہ تلنگانہ اور کرناٹک اسمبلی نے نہیں بلکہ ان ریاستوں کے وقف بورڈ نے تجویز منظور کی ہے،ظاہر ہے، اس غلط انفارمیشن سے وزیراعلی بھی ہنستے ہوں گے کہ کتنے ہلکے لوگ ہیں اور کیا کیا انفارمیشن لے کر آگئے-
قابل غور بات یہ کہ اس کی تائید(جیساکہ خبر میں لکھاگیاہے)میٹنگ میں موجود جے پی سی کے دواراکین نے کی ہے، سوچیے کہ جے پی سی میں کتنے بیدار لوگ موجودہیں اور مسلم موقف کی کتنی نمائندگی ہورہی ہوگی-

میں نے پہلے سوچا کہ ہوسکتاہے کہ اخبار والوں سے غلطی ہوئی ہو لیکن ایک طرح کی غلطی اوراتنی بڑی غلطی کئی اخبارات سے نہیں ہوسکتی، پریس بیان چیک کیا تو پتہ چلا کہ یہ خبر اسی طرح لکھی ہی گئی ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے والے بھی ماؤف العقل،ریسرچ ٹیم بھی غائب الذہن اور امیرشریعت کی زبان سے اس طرح مس انفارمیشن؟ یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا،کہ یہ لوگ کہاں کہاں حضرت کو ڈبائیں گے-

حضرت امیرشریعت دامت برکاتہم اچھی انگریزی جانتے ہیں، انہیں کراس چیک کرناچاہیے تھا ورنہ اپنی نابالغ ریسرچ ٹیم کے چکر میں وہ پہلے بھی گمراہ ہوچکے ہیں،
چنانچہ جب جامعہ رحمانی کے نصاب سے مختصرالمعانی اور بیضاوی جیسی اہم کتابیں نکالی گئیں،اس پر میں نے خود ایک میٹنگ میں امیر شریعت دامت برکاتہم کے سامنے اعتراض درج کیا،حضرت کا جواب تھا” مجھے یہی بتایا گیا کہ دارالعلوم دیوبند نے بھی نصاب سے نکال دیا ہے” (جواب پر اگر ہنسی نہ آئے تو پیسہ واپس) میں نے عرض کیا،آپ کی ٹیم نے غلط اطلاع دی ہے اوربطور ثبوت دارالعلوم دیوبند کاتازہ ترین نقشہ اسباق دکھادیا، تب فرماتے ہیں کہ مجھے غلط بتایا گیا ہوگا، لیکن اسی غلط پر اس طرح ایمان لایا گیا کہ دوسال بعد بھی غلطی ٹھیک نہیں ہوئی-

اسی لیے میں کہتاہوں اور کہتارہوں گا کہ حضرت دامت برکاتہم، غلط لوگوں اور ذہنی وشعوری نابالغوں کے نرغے میں ہیں جو حضرت دامت برکاتہم سے مسلسل غلط فیصلے کرارہے ہیں، صرف اپنے مفاد کے لیے،ان غلط فیصلوں کی نشاندہی ہمارا فرض ہے اور ادارہ سے محبت کی حقیقی علامت ہے ورنہ جو لوگ خانقاہ،جامعہ سے محبت کا دم بھررہے ہیں وہ لوگ اس کی آڑ میں، خود کو وفادار بتاکر غلط فیصلے کراکر نہ صرف جامعہ رحمانی کو کمزور کررہے ہیں بلکہ حضرت امیرشریعت کوبھی-

غلط فیصلے کی مثال یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال دورہ حدیث کے دس طلبہ کو دہلی (میوات فساد کے موقع پر)بھیج دیا گیا باز آبادکاری کے نام پر،وہ بھی سہ ماہی امتحان سے ایک دن پہلے، اوردورہ حدیث کے یہ طلبہ تقریباایک ماہ تک دہلی میں بھٹکتے رہے،(کیاامارت شرعیہ کے پاس وافر افراد نہیں تھے؟) لاکھوں روپیے ان پر صرف کیے گئے (اس درمیان صرف دو دن یہ طلبہ میوات جاسکے) میوات کی انتظامیہ سے شاید اجازت نہ ملنے کی وجہ سے امارت شرعیہ کی جو ٹیم آئی تھی وہ اگلے دن ہی دہلی سے واپس ہوگئی لیکن طلبہ جامعہ کو ایک ماہ تک بلاوجہ بھٹکایا گیا،کچھ طلبہ اپنے رشتہ داروں کے یہاں دوچار دن، ہفتہ دن رہے، پھر ادھر ادھر بھٹکتے رہے، مولانا قاسم کوثر گواہ ہیں، انہوں نے میرے کہنے پر خود اپنے رسک پر کچھ طلبہ کا انتظام کرایا تھا، اس دوران ان کی تعلیم کا نقصان کیا گیا، اور لاکھوں روپیے بلاوجہ خرچ کیے گئے

ایسی خبریں آئی ہیں کہ پٹنہ کانفرنس کے موقع پر بھی دورہ کے دس طلبہ کو ایک ہفتہ کے لئے پٹنہ بھیج دیا گیا، ہم لوگ تصور نہیں کرسکتے تھے کہ دورہ میں کوئی گھنٹہ بھی چھوڑدیں اور اس قیمتی سال میں دورہ کے دس طلبہ کو مہینہ بھر دہلی میں بے کار رکھنا کون سی دانشمندی ہے
اب آدھے وقت کی تعلیم کی بات بھی افشا ہوئی ہے

آخر جامعہ رحمانی کو برباد کرنے کے لیے اور تعلیم کا نقصان کرنے کے لیے ایسے مشورے کون دیتا ہے؟ اسی سے سمجھ جانا چاہیے کہ وہ لوگ ادارہ کے بہی خواہ ہیں جو ان غلطیوں پر گرفت کرتے ہیں یا وہ لوگ جو الٹا سیدھا کچھ بھی پڑھاکر جامعہ کو برباد کررہے ہیں، لیپ ٹاپ لے کر دن بھر بے وقوف بناتے رہو اور الو سیدھا کرتے رہو، اس میں وہ لوگ بھی ہیں جنھیں چلنے سے لے کر بولنے تک کا شعور نہیں ہے،جامعہ رحمانی کسی کی جاگیر نہیں ہے وہ ہم سب کی مادرعلمی ہے، عوامی ادارہ ہے، اس کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ، اس کے پیسوں کی بربادی چلنے والی نہیں ہے-

(آپ کہیں گے کہ غلط انفارمیشن کی بات تو آپ فون پر بھی ذمہ داروں سے کہہ سکتے تھے، یاد رہے، اوپر میں نے نصاب والی مثال دے دی ہے کہ کہنے کا کیا فرق پڑا، ایسی تعدد مثالیں ہیں)

(یہ کہنا بھی ذہنی پستی کی علامت ہے کہ خدانخواستہ میں چاہتاہوں کہ ہرفیصلے میں مجھ سے مشورہ کیا جائے یا میری بات مانی جائے،(یہ وہی لوگ کہتے ہیں جن کی شعوری پستی کی وجہ سے حضرت کو اور جامعہ کو خفت کا سامنا کرنا پڑتاہے) واللہ، جو لوگ مجھے جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں، میں کون سا دخیل تھا،بس خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ اور کام جامعہ اور اداروں میں نہ ہو جو اداروں کو کمزور کرے یا ان کے معیار واعتبار کو متاثر کرے، میں اس وقت کہاں اعتراض کیا کرتا تھا، اور کبھی اعتراض ہوا بھی تو براہ راست حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کرلیتا اور مناسب بات ہوتی تو غور کرتے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس کا اپنا کوئی مفاد نہیں،وہ ادارہ کے لئے کہہ رہا ہے) اگر غلط فیصلے ہوں گے اور نابالغ ٹیم حضرت دامت برکاتہم کو گمراہ کرے گی تو اس عزم کا پھراعادہ کررہاہوں کہ اس سے دس گنازیادہ قوت سے آواز اٹھاؤں گا(اور بھی وابستگان جامعہ کو آواز اٹھانی چاییے) چاہے گدھے جتنا شور مچالیں اور جو بھی اوچھی حرکت کرلیں، مجھے معلوم ہے، حق کا ساتھ دینے والوں کی تعداد کم ہوتی ہے لیکن پختہ ہوتی ہے-

میرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں

سر دیوار لکھتاہوں پس دیوار کے قصے

خیر بات چلی تھی کرناٹک اور تلنگانہ اسمبلی کے حوالہ سے غلط انفارمیشن کی، حضرت دامت برکاتہم کو سوچنا چاہیے کہ کن شعوری نابالغوں کے ہاتھوں میں وہ کھیل رہے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کتنی مجروح ہورہی ہے، یہ عادت تو ایک مخصوص ذہن والی جماعت کی ہے جس پر اگر سوال اٹھایا جائے تو اسے وہ دیش کی مخالفت قرار دیتے ہیں، ارے میرے بھائی، عقل سے کام لو! کسی پالیسی پر سوال اٹھانا، کسی فیصلے کی تنقید ادارہ کی تنقید اور اس کی مخالفت کیسے ہوگئی؟ یہ تو بالکل ایک سیاسی پارٹی والی حالت ہوگئی کہ مہنگائی بڑھاتے رہو، کرپشن ہوتارہے اورکوئی سوال کرے تو تم نے دیش کے خلاف سوال کردیا، آپ جتنا چلائیں، لوگوں کو بہکائیں، ہمیں مخالف بتائیں، میں اپنا فرض ادا کرتارہوں گا-اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ادارے کو برباد کرتے رہیں اور کوئی کچھ نہ بولے، آپ دبادیں، یہ چلنے والا نہیں ہے، یہی تربیت اپنے بزرگوں سے ہم نے پائی ہے اور یہی رحمانیت ہے-جو لوگ آج وہاں پیدا ہوئےہیں،ان کا لیول ابھی یہاں تک نہیں پہونچا ہے کہ ہمیں مخالفت، حمایت،وفاداری،رحمانیت، خانقاہی فکر، فکر امارت سمجھاسکیں،پہلے انہیں خود فکری وعلمی اعتبار سے بالغ ہوناہوگا-وفاداری اور چاپلوسی کے پردہ میں چھپ کر جامعہ رحمانی کو برباد کرنے اوراسے اسکول میں بدلنے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیاجائے گا-آپ کی گھبراہٹ کی وجہ سمجھی جاسکتی ہے، کیوں کہ آپ کی پول کھلتی ہے-آپ کو آپ کے مذموم عزائم میں کامیاب ہونے نہیں دوں گا ان شاء اللہ ،اس کا بس ایک حل ہے اداروں کے حقیقی خیرخواہ بن جائیے،چاپلوسی، بزدلی چھوڑ کر جرات کا مظاہرہ کیجیے، ہم سب کے بزرگوں نے یہی تعلیم دی ہے-

(آج جوخبر جاری ہوئی ہے اس کی کٹنگ، پریس بیان اور کرناٹک اور تلنگانہ وقف بورڈ سے متعلق انگریزی اخبارات کی کٹنگ،اس کے ساتھ شیئر کی جارہی ہے، یوٹیوب پر ریسرچ کرنے والی ٹیم، امیرشریعت دامت برکاتہم کو ہلکا کرنے کی بجائے،کسی پڑھے لکھے،باخبر شخص سے یا کم ازکم گوگل باباسے ہی پوچھ لیتی، اگر کسی کو واقعی تلنگانہ، کرناٹک اسمبلی میں ایسی قرارداد کی منظوری کا حتمی علم ہو تو ضرور مجھے بتائیں،اپنی اصلاح کرنے میں مجھے ذرا بھی عار نہیں ہے، میں شکرگزارہوں گا)

تحریر: محمد شارب ضیاء رحمانی

One thought on “حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب: چمچوں کے جال میں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے