کل میں نے ایک تحریر لکھی تھی جس میں شواہد سے واضح کیا تھا کہ وزیراعلی ہیمنت سورین سے حضرت امیر شریعت کی ملاقات کی جو خبر شائع ہوئی ہے اس میں تلنگانہ اور کرناٹک اسمبلی سے وقف بل کے خلاف تجویز کی بات کہی گئی ہے جو بالکل غلط ہے، کرناٹک اور تلنگانہ وقف بورڈ نے تجویز منظور کی ہے،اسمبلی نے تجویز منظور نہیں کی ہے ، اسمبلی کی منظوری اور بات ہے۔
اس پر رانچی کے اجلاس کی ایک کلپ چلائی جارہی ہے کہ دیکھو لوگ جھوٹ لکھ رہے ہیں، حضرت نے یہ فرمایا ہے، جس 40:15 سکینڈ کے بعد کی تقریر کو بطور ثبوت پیش کیا جارہا ہے اس میں حضرت امیرشریعت دامت برکاتہم نے یہ فرمایا ہے کہ کرناٹک حکومت اور وقف بورڈ نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس بل کی مخالفت کریں گے،امیر شریعت دامت برکاتہم نے یہاں پر تجویز کی منظوری کی بات کی ہی نہیں ہے کہ تجویز کہاں سے منظور ہوئی، اس پر یہ ویڈیو خاموش ہے، دعوی کچھ، جواب کچھ اور… اسمبلی سے منظوری زیادہ اہم اور بڑی بات ہوتی ہے، اور جہاں تک اسٹیٹ حکومت اور وقف بورڈ دونوں کی طرف سے بل کی مخالفت کی بات ہے تو یہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کسی بل کے مخالفت الگ چیز ہے اور اسمبلی سے تجویز منظور کرانا الگ ہے، مخالفت تو ساری اپوزیشن پارٹیوں نے کی ہے، کیا اس مخالفت پر ہم کہہ دیں گے کہ دہلی حکومت اور پنجاب حکومت نے تجویز منظور کی ہے؟ (آپ 40:15 سے شروع ہونے والی وہ ویڈیو خود سن لیں اگر میرے دعوی جو آفیشیل پریس ریلیز سے متعلق ہے،(سند رہے کہ وہ پریس ریلیز اشاعت کے بعد امارت شرعیہ کے فیس بک پیج پر بھی شیئر کی گئی ہے، اسکرین شارٹ بطور ثبوت پیش ہے) اس کااس ویڈیو میں جواب سمجھ میں آجائے تو میں اپنی غلطی کا اعتراف کرلوں گا، مجھے اپنی غلطی تسلیم کرنے میں ذرا بھی عار نہیں ہے) گدھوں کی ٹیم سے اسی مارے گھٹنہ پھوٹے سر جیسے شواہد کی توقع تھی،یہ لوگ اپنی حماقت پر کیوں مہر پر مہر لگواتے چلے جارہے ہیں؟
حضرت نے اس میں یہ نہیں فرمایا ہے کہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے تجویز منظور کی ہے، جب کہ میرا دعوی تجویز کی منظوری کی بات پر ہے، مخالفت پر نہیں ہے، میرا دعوی ہے کرناٹک، تلنگانہ اسمبلی نے نہیں بلکہ وقف بورڈ نے تجویز منظور کی ہے-اتنی موٹی سی بات بھی اگر گدھوں کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو مجھے انہیں گدھا کہنے پر بھی،گدھے پر ترس آرہاہے-
دوسری بات کہ بات وزیراعلی سے ملاقات کی ہورہی ہے جس کی پریس ریلیز آفیشیل آئی ہے، اور ثبوت کے طور پر جو ویڈیوپیش کی جارہی ہے وہ اجلاس کی تقریر کی ہے،جس میں تجویز کی بات سرے سے نہیں ہے، میرا سوال وزیراعلی سے ملاقات کی پریس ریلیز پر ہے، لگتا ہے کسی ان پڑھ اور خر دماغ نے پریس ریلیز تیار کی ہے، میرا نشانہ صحیح جگہ لگا ہے، جو شخص آپ کو زیادہ پھڑپھڑاتا نظر آئے، سمجھ لیجیے کہ امیرشریعت کو اسی طرح گمراہ کرنے اور مس انفارمیشن دینے میں وہی ماہر ہے، احمقوں، گدھوں کی پول کھل گئی ہے اور ریسرچ ٹیم کی واضح غلطی سامنے آچکی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غلطی مان لی جاتی لیکن غلطی تسلیم کرنے کی بجائے یہ لوگ گالی گلوچ پر اتر آئے جس سے ان کی حقیقت مزید آشکارا ہوچکی ہے، اس بات کی پوری تحقیق ہونی چاہیے کہ یہ جاہلوں والی خبر کس گدھے نے تیار کی تھی –
سوال ٹیم کی اسی خردماغی پر ہے جس کے نرغے میں حضرت دامت برکاتہم ہیں، کبھی دورہ حدیث کے طلبہ کا ایک ماہ تک وقت برباد کرنا، جامعہ کے پیسوں کی بربادی اہم سوال ہیں، دن رات لیپ ٹاپ پر ریسرچ کے بہانے یہ لوگ حضرت کو بے وقوف بناتے ہیں اور الٹے سیدھے فیصلے کراتے ہیں، جامعہ رحمانی کے چندے کی رقم جو ہمارے اساتذہ خون پسینہ ایک کرکے جمع کرتے ہیں، اسے اس طرح فضولیات میں آپ خرچ کریں،پھر شعبان آتے آتے ان سے کہاجائے گا ،بجٹ ختم ہوگیا جاییے چندہ کیجیے، اس حرکت پر آپ سے سوال نہ ہو، یہ نہیں ہوسکتا-
پھر کہتاہوں جامعہ رحمانی کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے، عوامی ادارہ ہے، عوامی چندہ پر چلتا ہے، عوام کے پیسے اس طرح برباد کرنے اور طلبہ کا وقت دہلی، پٹنہ گھمانے، ان کی تعلیم کا نقصان کرنے کی بالکل کوشش نہ کی جائے، آپ جتنی گالیاں دے دیں، (اس سے حقیقت مزید آشکارا ہورہی ہے) میں آپ چمچوں کے ہاتھوں اپنی مادر علمی کو برباد ہونے نہیں دوں گا، آپ کی حماقت، خردماغی کا شکار نہیں ہونے دوں گا، جس فکر امارت اور فکر رحمانی، فکر مونگیری کی آپ لوگ بات کرتے ہیں اسے سمجھنے کے لیے بھی جس چیز(دماغ) کی ضرورت ہوتی ہے وہ آپ لوگوں میں ہے ہی نہیں، فون کرنے، لیپ ٹاپ چلانے، زوم زوم کرنے اور بکواس کرنے کے سوا آتا ہی کیا ہے-
مجھے احمقوں اور چمچوں سے اس سے بڑھ کر حماقت کی امید ہے، کل اناء یترشح بمافیہ، ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس میں ہوتا ہے، آپ کا کام ہی ہے دھمکی دینا، غلطیوں کی اصلاح کی بجائے گرفت کرنے والے کو مخالف بتانا اور اسی کو بنیاد پر پھر اپنے الو سیدھا کرنا، آپ جتنی مرضی گالیاں دیں،بس ادارہ کو برباد نہ کریں، مجھے معلوم ہے، آپ اس سے بھی زیادہ اوچھی حرکت کریں گے، بہت نچلی سطح تک جائیں گے اور مزید تلملائیں گے، بکواس کریں گے، کیوں کہ آپ کی حرکت سامنے آرہی ہے، جامعہ رحمانی کو برباد کرنے میں آپ کی خدمات رقم ہورہی ہیں، آپ غلطیاں سدھاریں، اپنی کم علمی کا اعتراف کریں،اس سے آپ چھوٹے نہیں ہوجائیں گے، معلومات کی انتہا نہیں ہے، غلطی ہوسکتی ہے، لیکن اس غلطی کے اعتراف کے بجائے گالی گلوچ سے آپ کے اخلاقی لیول کا علم ہوتاہے، آپ کی شعوری سطح بہت کم ہے، لیول بہت نیچے ہے، تھوڑی علمی اور شعوری سطح کو اوپر کرلیں،پھر کہوں گا، یہ چند دن کے بچے، عقل وشعور سے نابالغ لوگ، مجھے خانقاہیت، رحمانیت نہیں سمجھاسکتے، اسی ٹیم میں وہ بھی ہیں(جو آج اپنا اخلاص دکھاکر زیادہ ہنگامہ کررہے ہیں) جنہوں نے سب سے پہلے، انتخاب امیر شریعت کے وقت یہ پھلجڑی چھوڑی تھی کہ فیصل رحمانی صاحب عالم دین نہیں ہیں،(میں نے اسی وقت رات کے بارہ بجے محترم فہد رحمانی صاحب کو اسکرین شارٹ بھیج کر آگاہ کیاتھا) اسی مفکر کے شوشہ کے بعد عالم والا تنازعہ شروع ہواتھا، اسی ٹیم کے دوسرے فرد نے یہ بھی دعوی کردیا کہ حضرت انجینئر بھی نہیں ہیں،بتاییے یہ سب کہہ کر کس نے(ان کے ساتھ رہتے ہوئے) حضرت کو بدنام کیا،اور لوگوں کو موقع دیا کہ ان کی عالمیت پر سوال ہونے لگے اور اتنا بڑا ایشو بن گیا، آج بھی ان کی ٹیم میں ایسے شخص موجود ہیں جو حضرت دامت برکاتہم کو عالم نہیں مانتے اوربرملا اسے کہتے بھی ہیں،پھر ایسے لوگ کس طرح حضرت کے بہی خواہ ہوسکتے ہیں؟ میں یہی آئینہ دکھانے کی کوشش کررہاہوں-
اتنی سی درخواست ہے کہ حضرت امیرشریعت دامت برکاتہم کو گمراہ نہ کریں، غلط فیصلے نہ کرائیں، ادارہ کی رقم برباد نہ کرائیں، ہم تو بس اتنا ہی چاہتے ہیں، مجھے واللہ نہ کسی منصب کی خواہش ہے، نہ کسی عہدہ کی،اور نہ کسی منصب کی پرواہ کرتاہوں، یہی ہمارے مرشد حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رح نے سکھایا ہے،اگر کسی منصب کی خواہش ہوتی تو حضرت امیرشریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی رح کے زمانہ میں لے چکا ہوتا، بس اتنی خواہش ہے
چمن میں آجائے پلٹ کر روٹھی بہار اب بھی
میں وابستگان جامعہ رحمانی، ابنائے قدیم جامعہ رحمانی، اور خانقاہ رحمانی کے حقیقی مخلصین کو آواز دیتاہوں کہ ظاہری رنگ وروغن میں ڈوبنے کی بجائے، چکنی چپڑی باتوں میں آنے کی بجائے داخلی فضا پر غور کریں، جامعہ رحمانی وخانقاہ رحمانی کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، ہم نے جامعہ رحمانی کا نمک کھایا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوں سے ادارہ کو بچائیں جو اندر اندر اسے گھن لگارہے ہیں،ورنہ جب جاگیں گے تب بہت دیر ہوچکی ہوگی،پھر آپ یاد کریں گے،تھا کوئی صدا لگانے والا( اس کے لیے بھی تیار رہیں کہ جب آپ آواز اٹھائیں گے تو آپ کو بے شمار فون آئیں گے،دھمکیاں دی جائیں گی،آواز اٹھانے والوں کو خانقاہ مخالف بتایاجائے گا لیکن اصل سوال کا جواب نہیں دیا جائے گا،اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں ہوگی کیونکہ خودسدھرنے کی فکر تب ہوتی ہے جب نیت صحیح ہو یا واقعی ادارہ سے ہمدردی ومحبت ہو، یہ پھر کہوں گا کہ پالیسی اور فیصلے پر تنقید ادارہ کی مخالفت نہیں ہے)
(میں بہت مشکور ہوں ان سینکڑوں احباب کا جنہوں نے مجھے پرسنل فون کرکے،میسج کرکے حوصلہ افزائی کی اور جامعہ رحمانی وخانقاہ رحمانی کے تحفظ میں ساتھ دینے کا عزم کیا)
راہ رو آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
تحریر: محمد شارب ضیاء رحمانی