ازقلم: فاضل شفیع بٹ
انت ناگ،انڈیا
موبائیل نمبر:9971444589
جھیل کے نیلے گہرے پانیوں میں پروین اپنا عکس دیکھ رہی تھی اور اس کا شوہر کلیم اسی جھیل کے پانیوں میں ڈوبتے سورج کے عکس سے محظوظ ہو رہا تھا۔ دونوں میاں بیوی سرکاری اسپتال میں تعینات گائناکالوجسٹ ڈاکٹر انجم سے طبی مشورہ کرنے کے بعد سیدھے جھیل کی جانب چلے گئے۔
پروین کے چہرے کا عکس جھیل کے پانیوں میں مٹیالا پڑ گیا تھا۔ وہ عکس نا امیدی کے قید خانے میں مقید ایک بے گناہ سزا یافتہ قیدی کے مانند دل ملول نظر آرہا تھا۔اسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے چہرے کا مٹیالا عکس اسے فریاد کررہاہو:
” میری طرف دیکھو پروین۔۔ میں تمہارے خوبصورت چہرے کا عکس ہوں۔پروین تمہاری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں۔ شاید بے اولاد رہنا تمہارے نصیب کا حصہ ہے۔ میں تمہاری اذیتوں، تمہارے ساتھ کیے جانے والے بے رحم سلوک،طعنوں وغیرہ سے باخبر ہوں۔ تمہارے اپنے تمہیں بانجھ کہہ کر بلاتے ہیں۔ کیا بتاؤں مجھ پرکتنا گراں گزرتا ہے۔ میں اب مایوس ہوچکا ہوں‘تمہیں کچھ کرنا ہوگا۔“
اس منظر نے پروین کی سوچ پراتنا منفی اثر ڈالا کہ اسے جھیل کے گہرے پانی میں ڈوب جانا ہی مناسب لگا تاکہ اس کے بانجھ پن کا داغ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائے گا۔ یہ سوچتے سوچتے اس کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی اور اس نے جھیل کی گہرائی میں چھلانگ مارنے کی کوشش کی لیکن اس کے شوہر نے بڑی پھرتی سے اس کو اپنی جانب کھینچا اور تند لہجے میں کہا:
” پروین کیا تم پاگل ہو گئی ہو۔ کیا تمہیں میرا خیال نہیں ہے۔ مجھے کس کے سہارے چھوڑ کے جانے کی کوشش کررہی ہو۔
دیکھ میری جان۔۔۔۔۔۔ نا امیدی کفر ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ بے اولاد ہونے کا غم تمہیں اندر سے کھوکھلا کر چکا ہے۔اللہ پر بھروسہ رکھو۔ ڈاکٹر انجم ایک ماہر گائناکالوجسٹ ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس بار علاج معالجے سے ہمیں ضرور اولاد کی نعمت ملے گی۔“
چند ماہ بعد دور افق پر سورج غروب ہو رہا تھا۔ سورج کی کرنیں سونا بکھیر رہی تھی۔ نارنجی فلک سے سورج کی کرنوں نے پروین کو اپنی تحویل میں لے لیاتھا۔ اس کو ابکائی محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے غسل خانے میں جا کر ابکائی کی۔ وہ حاملہ ہو چکی تھی۔ وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔ اس کے چہرے کے عکس نے اس کو فریب میں رکھا تھا۔ اس نے خوش ہوکر سوچا کہ’سچ میں نا امیدی کفر ہے۔‘
اس نے جب کلیم کو یہ خوشخبری سنائی تو وہ اللہ کے حضور سربہ سجود ہواکہ جس نے نا امیدی کے قید خانے سے ان دونوں کو رہائی سے ہمکنار کیا۔
اگلے دن کلیم اپنی بیوی کے ہمراہ سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر انجم سے ملاقی ہوا۔ ڈاکٹر انجم نے پروین کے حاملہ ہونے کی خبر سن کر بڑے پیار سے اسکی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا:
”پروین یہ میری کامیابی کا ایک ثبوت ہے۔ بے شک اس میں اللہ تعالی کی مرضی ہے لیکن ساتھ ہی مجھے اپنی قابلیت پر فخر ہے۔
آج کے بعد اب تمہیں میرے نجی کلینک پر آنا ہوگا۔ یہ ایک سرکاری اسپتال ہے۔ میں یہاں تمہارا علاج کر کے کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتی ہوں۔ تم آٹھ سال بعد حاملہ ہوئی ہو۔ اس میں شکر کرو اور ساتھ میں پیسوں کا بندوبست بھی کر کے رکھو۔
اب تمہیں نو ماہ تک مہنگی ادویات کا استعمال کرنا ہوگا جو بچے کی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔“
پروین نے ایک سرد آہ بھر کے اقرار میں اپنے سر کو دھیرے سے ہلایا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ کلیم دن میں مزدوری کر کے بڑی مشکل سے اپنی ماں، پانچ بہنوں اور پروین کا خیال رکھ پا رہا ہے۔ وہ سوچنے لگی کہ اگر واقعی سرکاری اسپتالوں میں علاج ممکن نہیں ہے تو پھر یہ سرکاری اسپتال کس لیے ہیں۔ لاکھوں کی تنخواہ پانے کے باوجود یہ ڈاکٹر مریضوں کو علاج و معالجہ کے لیے نجی کلینکوں پر کیوں بلاتے ہیں۔ آخر یہ سرکاری ڈاکٹر اپنے پیشے سے بے ایمانی کیوں کر رہے ہیں؟
گھر پہنچ کر پروین کی خوشی ایک دم ماند پڑگئی تھی۔ اس کو پیسوں کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ دن بھر جھلستی گرمی میں مزدوری کر کے کلیم کی صحت کافی حد تک بگڑ چکی تھی۔ وہ دمہ کا مریض تھا۔ پروین اپنے شوہر پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ پروین نے اپنی ماں کو فون کیا۔ پروین بلک بلک کر رو رہی تھیں۔ وہ اپنی ماں سے کہہ رہی تھی کہ اِس بچے سے زیادہ اس کو اپنے شوہر کی فکر ہے۔ یہ سن کر اس کی ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اپنی بیٹی کی دردبھری روداد سن کر اس نے ہمت کرکے یہ کہتے ہوئے پروین کو حوصلہ دیا:
” بیٹی۔۔ بس اتنی سی بات ہے۔ آپ بے فکر رہیں۔ میں پیسوں کا انتظام کر لوں گی۔ آپ کے بابا نے مرتے وقت مجھے کچھ رقم سونپ دی تھی۔ میری جان۔۔۔ میری بیٹی۔۔۔۔۔ پروین تمہاری ماں ابھی زندہ ہے۔ کل تک میں تمہاری چھوٹی
بہن کے ہاتھ ساری رقم بھیج دوں گی۔“
پروین کی آنکھوں میں اب خوشی کے آنسو موتیوں کی طرح چمک نے لگے۔ اس نے فون رکھ لیا اور گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئی۔
دراصل ماں نے محض اپنی بیٹی کا دل رکھنے کے لیے جھوٹ بولا تھا۔ اس کے پاس کوئی رقم نہیں تھی لیکن وہ اپنی بیٹی کو اس حالت میں دیکھنا کسی بھی صورت میں پسند نہیں کر سکتی تھی۔ وہ اپنی اور دو جوان بیٹیوں کی واحد سہارا تھی۔ وہ ایک درزن ہونے کے ساتھ ساتھ دودھ بیچ کر گھر کے اخراجات پورا کرتی تھی۔ اس کے شوہر نے مرنے سے پہلے ایک گائے خرید ی تھی۔ شاید اسی گائے کی امید کے بھروسے اس نے اپنی بیٹی سے کہا تھا کہ اس کے بابا نے مرتے وقت اس کو کچھ رقم سونپ دی تھی۔ اس کے دماغ میں گائے کو بیچنے کا خیال آیا۔ وہ جانتی تھی کہ گائے کو بیچ کر اس کو اپنی دونوں بیٹیوں کے ہمراہ اپنے پیٹ پر پتھر رکھنا ہوگا۔ لیکن بیٹی کے ماتھے سے بانجھ پن کا داغ مٹانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ اس نے بہت جلدچالیس ہزار میں گائے کا سودا طے کیا اور اگلے دن وعدے کے عین مطابق پروین کی چھوٹی بہن نے وہ رقم پروین کے حوالے کر دی۔
چالیس ہزار کی رقم ملنے کے بعد پروین نے سکون کا سانس لیا۔ اس سے اطمینان ہوا کہ اب وہ ہر ہفتے ڈاکٹر انجم کے نجی کلینک پر آرام سے جا سکتی ہے۔ اس رقم سے اب وہ اچھا کھانا اور مہنگی ادویات خرید سکتی ہیں جس سے اس کا بچہ صحت مند پیدا ہوگا۔ اسی امید کے ساتھ پروین نے اپنا علاج و معالجہ شروع کیا۔
ڈاکٹر انجم ہر مہینے دو بار یو۔ ایس۔جی اور دیگر ٹیسٹ کروانے کا مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ مہنگی ادویات کا نسخہ پروین کے ہاتھ تھما دیتی تھی۔ اِدھر پروین بہت ہی آرام سے اپنا اور اپنے ہونے والے بچے کا خیال رکھ رہی تھی اور اُدھر اس کی ماں اور بہنوں کو فاقہ کشی کرنے تک کی نوبت آئی تھی۔ لیکن انہوں نے پروین کو اس بات کی بھنک تک لگنے نہ دی۔
آٹھ ماہ گزر گئے۔ اب پروین کی بہنیں لوگوں کے گھروں کی صاف صفائی کر کے اپنا پیٹ پال رہی تھیں۔ پروین کا پیٹ غبارے کی طرح پھول چکا تھا۔ بس اب کچھ دنوں کا انتظار تھا۔ ڈاکٹر انجم نے پروین کو اپنے کلینک پر بلایا اور کہا:
”پروین۔۔ آج کی یو۔ایس۔ جی سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کا بچہ صحیح سلامت ہے۔ اب آپ کو آپریشن کی تیاری کرنی ہے جس میں پچیس ہزار کا خرچ آئے گا۔ میں یہ بات پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ سرکاری اسپتالوں پر مجھے کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ آپریشن ضلع کے مشہور پرائیویٹ اسپتال میں ہوگا۔ آپ فلاں تاریخ کو صبح دس بجے اسپتال میں رپورٹ کرنا۔ میں ادھر ہی ملوں گی۔“
پروین نے عاجزی سے ہامی بھر لی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی ماں نے پانچ بچوں کو جنما تھا اور سب بچوں نے اپنے گھر میں ہی جنم لیا تھا اور آج کل کے ڈاکٹر شاید اس بات سے نابلد ہیں یا وہ محض زیادہ سے زیادہ دولت اینٹھنے کے لیے اپنے مریضوں کو آپریشن کرنے کی صلاح دے رہے ہیں۔
مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے دونوں میاں بیوی شام کے وقت اپنے آنے والے بچے کے لیے پاس ہی بازار سے نئے کپڑے خرید کر گھر واپس آرہے تھے کہ ڈاکٹر انجم کا فون آیا۔ وہ کہنے لگی:
”پروین بیٹا فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایک شادی کی اہم تقریب میں مصروف ہوں۔ اس لیے آپ کا آپریشن اب بتائی ہوئی تاریخ کے تین دن بعد ہوگا اور اسی دن اسپتال میں ملاقات ہوگی۔“
دودن کے بعد ہی دوپہر کو پروین کی حالت غیر ہو گئی۔ اس کا پیٹ جل رہا تھا۔ اسے گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے ڈاکٹر انجم کو فون کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کچھ ادویات لینے کے لیے کہا اور فون کاٹ دیا۔
آپریشن کے دن کی صبح کا سورج طلوع ہو چکا تھا۔ آسمان پر سفید بادلوں کی ہلکی ہلکی لکیریں پھیلی ہوئی تھیں۔ پروین نے اپنے شوہر اور بہن کے ہمراہ اسپتال کا رخ کیا۔ اس کے پیٹ میں شدید درد تھا۔ اس کا سر بھاری ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں محض ایک امید کی کرن جگمگا رہی تھی۔ ڈاکٹر انجم پروین کی یہ حالت دیکھ کر کانپ گئی۔ اس نے فوراً پروین کو آپریشن تھیٹر میں لے جانے کا حکم دیا۔
پروین آپریشن تھیٹر میں بیڈ پر بے سدھ پڑی ہوئی تھی۔ بے ہوشی کی حالت میں پروین کا چہرہ پھر سے مٹیالا پڑ گیا تھا۔ ڈاکٹر انجم کا پورا جسم پسینے میں شرابور تھا۔ آپریشن مقررہ وقت کے تین دن بعد کیا گیا تھا۔ پروین کی آخری امید کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا اور یہ امید جھیل کے نیلے پانیوں کی گہرائیوں میں ڈوب گئی تھی۔ پروین کی روح کسی غیب کے عالم سے یہ باز گشت سن رہی تھی۔۔۔۔”آجاؤ پروین۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھیل کی گہرائی تمہاری بے سکون روح کی منتظر ہے۔“