ممتاز و معروف شاعر حضرت امیر مینائی مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ ایک چھوٹی سی طرحی کاوش (طنزومزاح) بطرح "زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے”
رہ عشق میں ہیں جہاں کیسے کیسے
ہوئے در بہ در یاں جواں کیسے کیسے
ذرا دیر سے گھر کو لوٹیں اگر ہم
وہ کرتے ہیں ہم پر گُماں کیسے کیسے
نہ موذی رہے گا نہ جوگی بھی یارو
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے”
مُجھے خود بھی لوگو نہیں علم کوئی
ہوئے راز میرے عیاں کیسے کیسے
فقط جُھوٹ کہتے ہیں دن رات لیڈر
بدلتے ہیں اپنا بیاں کیسے کیسے
نہ ہی ایک بستی میں ٹک کررہے ہم
میاں ہم نے بدلے مکاں کیسے کیسے
کسی ایک سے عشق کرتے نہیں ہیں
ہیں عاشق بھی دیکھو یہاں کیسے کیسے
مُجھے سُن کے حیران پبلک ہوئی کل
پڑھے شعر میں نے میاں کیسے کیسے
کبھی جھڑکیاں اور کبھی مار کھا کر
سحر نے دیئے امتحاں کیسے کیسے
کاوش فکر: فرید سحر