بحث اس بات کی نہیں ہے کہ گستاخ کے کیا معنی ہیں ۔ اور گستاخی کا مفہوم کیا ہے ۔ مؤرخین اور ادباء نے کیا کیا تشریحات کی ہیں ۔ ان سب سے قطع نظر تارک سنت ، غیر متبع سنت ، غیر شرع انسان کو آپ کس زمرے میں رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جواب مطلوب ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میں شک نہیں کہ حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم ہماری زندگی کا وہ قیمتی اثاثہ ہیں جس کے بغیر ہماری زندگی کچھ نہیں ہے ، بے روح ہے اس میں کوئی جان نہیں ہے ، نہ کوئی لذت ہے ، نہ کوئی سرور ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہماری نجات بھی ممکن نہیں ہے ، بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔
اگر ہم اپنے جسم کے کھال کو ادھیڑ کر اور اس کا ہار بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے میں ڈال دیں تب بھی آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں چکایا جاسکتا ۔
ایک مسلمان سے یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ۔۔۔ رسول جو تمہیں کہیں وہ کرو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ ۔۔۔ دوسری جگہ فرمایا ۔۔ اے محمد ۔۔ آپ کہ دیجئے اگر اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری ( محمد) کی اتباع کرو ۔۔ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا ۔ زبان رسالت نے اس کی یوں گواہی دی ۔۔ میں تمہارے سامنے دو چیزوں کو چھوڑ کر جاتا ہوں ایک قرآن اور دوسرے میری سنت ۔۔
دوسری جگہ فرمایا ۔۔ میری سنت کو لازم پکڑلو ۔۔ مزید فرمایا ۔۔ تم کامل مؤمن ہو ہی نہیں سکتے جب تک کہ میں تمارے نزدیک تمہاری آل اولاد والدین یہاں تک کہ دنیا میں سب سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ یہ ارشاد بھی سنتے جائیں ۔۔ تم مؤمن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ تمہاری خواہشات شریعت کے مطابق نہ ہو جائیں ۔ مزید فرمایا ۔۔ فتنہ و فساد کے دور میں جو کوئی بھی میری سنت کو لازم پکڑا رہے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا ۔
حضور سے محبت عین ایمان ہے ۔
یقیناً یہ دور فتنوں کا ہے اور آئے دن نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں ، ہماری شریعت کے خلاف بھی سازشیں چل رہی ہیں ، اقائے نامدار پر بھی دریدہ ذہنی سے کام لیا جارہا ہے ، شان اقدس پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے ، جس سے یقیناً مسلمانوں کے دل لرز اٹھے ہیں ، جذبات بھڑک اٹھے ہیں ، ایمانی حرارت تیز ہوگئی ہے ، عشق رسول کی جنگاری شعلہ بن چکی ہے ، سڑکوں پر اتر کر برسر اقتدار پارٹی سے مطالبات جاری ہیں ، لیکن رد عمل آپ کے سامنے ہے ۔ دور نبوی میں بھی اس طرح کے حالات آئے ایسے بھی لوگ تھے جن کا شب و روز کا مشغلہ ہی شان اقدس میں کیچڑ اچھالنا تھا ، خود زبان رسالت نے قتل کے فرمان جاری کئے اور ناپاک روح سے دنیا کو پاک کیا گیا ۔
یہ طے شدہ بات ہے کہ شان اقدس میں گستاخی قطعی طور پر معاف نہیں کیا جا سکتا اور کوئی مسلمان اس کو قبول نہیں کرسکتا اور اگر یہ سب دیکھتے ہوئے کوئی خاموش ہے تو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے ۔ دور نبوی میں گر چہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی لیکن گستاخ رسول اگر کسی کا باپ بھی ہو تو بیٹا تلوار سونت کر کھڑا ہوجاتا ۔ آج ہماری کیا حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے ، محاسبہ کی ضرورت ہے ،۔ اور محاسبہ اس چیز کا ضروری ہے کہ کوئی بدقماش ، ناہنجار دو چار منٹ زبان درازی کرکے خاموش ہوجاتا ہے لیکن مسلمان نبی مکرم کی روح کو تکلیف پہنچاتا رہتا ہے چوبیس گھنٹوں میں وہ کونسا پل ہے جسمیں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف نہیں پہنچاتا ۔ کافر تو خیر کافر ہے اس کا بدلہ ہی جہنم ہے لیکن مسلمان محبت رسول کا دم بھرنے والے انہوں نے کیا کیا ، سنتوں پر کتنا عمل ہورہا ہے ، وہ کونسا لمحہ ہے جس میں سنت کی دھجیاں نہ اڑائ جاتی ہوں ۔ داڑھی رکھنا حضور مکرم کی پیاری سنت ہے مسلمانوں کے چہروں پر نظر دوڑائیں ، چلنے پھرنے ، اٹھنے بیٹھنے ، لیٹنے سونے ، معاملات ، معاشیات ، گھریلو نظام ، معاشرتی مسائل وہ کونسا پہلو ہے جس میں مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی دھجیاں نہ اڑاتے ہوں ۔ آپ اس کو کس چیز سے تعبیر کریں گے ۔۔ فیصلہ کریں ۔۔۔
آئے دن کوئی نہ کوئی گستاخی کرتا ہوا نظر آتا ہے کبھی سوچا حضور کی ذات کو اتنے ہلکے میں کیسے لے لیا گیا ، کیوں کہ تعلیمات نبوی کو ہم نے دنیا والوں سے دور رکھا ، ہم خود اس ڈگر پر نہیں چل رہے جو ہمیں دکھایا و بتایا گیا تھا ۔ ہماری حرکتیں یہودیوں و نصاری کی طرح ہیں جس کی وجہ سے دنیا کی نظروں میں ہم مشکوک ہیں ، انہیں حرکتوں سے ہم نے اسلام کی جگ ہنسائی کی ، حضور کی شوکت کو گھٹایا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔
علامہ اقبال نے کہا تھا۔۔۔
یہ مسلماں ہیں جسے دیکھ کر شرمائے یہود
غور کریں اصلی گستاخ کون ہے ۔ ہر آن نبی کی روح کو تکلیف پہنچانے والا یا پھر چند لمحوں کیلئے شہرت بٹورنے والا کافر ۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ