کب تک ساحل پر کھڑے ہوکر طوفان کا نظارہ کرتے رہیں گے ؟

ملی تنظیموں کے سربراہان کے لئے لمحہ فکریہ !

ملک ہندوستان میں اس وقت مسلمانان ہند تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، موجودہ حالات ہر ذی شعور انسان کے لئے لمحہ فکریہ ہیں،
اور دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جارہا ہے، امت مسلمہ موجودہ حالات میں آزمائشوں اور کشمکشوں کے عجیب دوراہے پر کھڑی ہے، داخلی اور خارجی فتنے امت مسلمہ کو ہر چہار جانب سے گھیرے ہوئے ہیں، دنیا کے ہر خطے میں بالعموم اور ہندوستان میں بطور خاص امت اور یہاں کے باشندے پر ہر سطح پر اور ہر میدان میں بے وزنی اور بے وقاری کی صورتحال کا مسلسل سامنا کر رہے ہیں،
۱ کبھی تین طلاق کا بہانہ بناکر ہمارے مذہب میں مداخلت کی جاتی ہے،
۲ یکساں سول کوڈ( ucc) کا شوشہ چھوڑ کر مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کی سازش رچی جارہی ہے،
۳ NRC, CAA,NPR,کے ذریعہ ہمیں ملک بدر کرنے کے منصوبے کیے جارے ہیں
۴ دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکیاں دی جاتی ہیں،
۵ مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کے لئے پنچایتیں کی جاتی ہیں،
۶ بے گناہ اور بے بنیاد الزامات لگا کر اور بلا نوٹس کے مسلمانوں کے گھروں کو توڑا جارہا ہے،
۷ مساجد، مدارس،درگاہوں، اور قبرستان کی بے حرمتی کی جاتی ہے،
۸ مسلم بہنوں کو منظم سازش اور ٹارگٹ کے تحت ان کے ایمان و اسلام سے منحرف کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں،
۹ سفر ایک غیر محفوظ ہوتے جارہا ہے، ٹرین میں ایک مسلمان کا نام پوچھ کر کے ایک پولیس افسر کے ذریعہ قتل کی جارہی ہیں،
۱۰ گاۓ کے نام پر مسلمانوں کو ماپ لینچگ کی جارہی ہیں،
۱۱ ابھی اوقات ترمیمی بل 2024 کو لیکر مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے،
اور اوقات کی زمین و جائداد کا تحفظ کا بہانہ بناکر اور قانونی شکل دیکر مسلمانوں کی مدارس،مساجد، درگاہوں، خانقاہوں اور قبرستان کو ایک سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت ہرڑپنے کی کوشش کی جارہی ہیں،
۱۲ محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی کی جارہی،
ہیں،
۱۳ دہلی کی جامع مسجد وعید گاہ اور ملک میں ہزاروں ہزار مساجد مدارس کے اوپر تلوار لٹک رہی ہے ہیں،
۱۴ مسلم قائدین تو اپنے اپنے پلیٹ فارم سے قوم و ملت کو اتحاد و اتفاق کا پیغام دیتے، ہیں،
لیکن جب عمل کی باری آتی ہے، تو خود اپنے میں ہی لڑتے رہتے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں، جو ایک المیہ ہے،
آپ صرف نیک دلی کے ساتھ قیادت کیجئے پھر دیکھے قوم و ملت کیسے آپ کی آواز پر لبیک کہتی ہیں،
دیکھ لیجیے ابھی حالیہ دنوں میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بینر تلے اور تمام اکابرین نے قوم کو آواز دے تو قوم نے کس احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا، اور واضح انداز میں جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو تمام انصاف پسند شہری نے کہا کسی قیمت پر یہ بل منظور نہیں، ہیں،
ان حالات و مسائل کے ردعمل میں امت مسلمہ میں مایوسی اور پست ہمتی کی سنگین فضا پیدا ہورہی ہے،
امت کے انصاف پسند شہری بد دلی کے شکار ہورہے ہیں، اور انہیں اپنا اور آنے والی نئی نسل کے مستقبل بہت تاریک نظر آرہا ہے،
ان حالات کے پس منظر میں مسلم تنظیموں کے سربراہان اور تمام انصاف پسند شہری کی ذمہ داری بنتی ہیں،
کہ خدا کے واسطے سر جوڑ کر ملی اتحاد و اتفاق سے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کریں،

براۓ مسلم قائدین اور ملی تنظیموں سے چند سوالات ہیں،
جس کے جوابات مطلوب ہیں،
یہ صرف احقر محمد ابوذر مفتاحی کا سوال نہیں ہے، بلکہ ملک کے تمام انصاف پسند کے سوالات ہیں، اور ان کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کیا ہوں،
امید ہے کہ اس پر ہمارے بڑے احساس ذمہ داری کے ساتھ اس پر خصوصی توجہ دیں گے،اور ملک میں قومی یکجہتی امن آمان اور ملک کی سالمیت کے لئے اہم رول ادا کریں گے،
1/آخر کب تک ساحل پر کھڑے ہوکر طوفان کا نظارہ کرتے رہیں گے ?
2/حکمت کا چادر کب تک استعمال کی جائے، ?
3/آخر ہم باشندگان ہندوستان ظلم و ستم وحشت وبربریت،اور انسانیت سوز مظالم کب تک سہتے رہے، ?
4/آخر ہم سے صبر کا امتحان کب تک لیتے رہیں گے، ?
5/کیا ہمارے بڑوں نے نہیں کہا تھا ظلم سہنا بھی ظالم کی مدد میں شامل ہوتی ہیں، ?
6/کیا ہمارے بڑوں نے نہیں کہا تھا جمہوری ملک میں اٹھے ہوۓ ہاتھوں کی قدر ہوتی ہیں، ?اور گرے ہوئے ہاتھوں کی کوئی قدر قیمت نہیں ہوتی،
7/ان تمام مسائل کا ایک واحد راستہ ہے ملی اتحاد و اتفاق سے کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار کریں، دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے، عام پبلک کو لیکر نیشنل ہاوۓ، ؟ پارلیمنٹ، پولیس اسٹیشن، کلکٹر ہاوس، سییم ہاوس کا گھراؤ کریں، اس وقت تک وہاں سے نہ ہٹے جب تک ان تمام مسائل کا حل نہ کریں اور آئندہ ملک اس طرح کے حالات پیش نہیں آۓ،
8/آپ کے علم میں ہوگا جب ایک کشتی چلانے والا ملا درجنوں افراد کے ساتھ وہ دریا میں پانی کے سینے کو چیرتے ہوۓ،وہ سمندر میں خطرناک طغیانی سے اپنے ہمت و حوصلے کے ساتھ ساحل تک لے کر جاتا ہے، اس کشتی میں سوار درجنوں افراد اس ملا پر یقین رکھتا ہے کہ یہ ملا( کشتی چلانے والا)اپنے ہمت و حوصلے سے سمندر کے خطرناک طغیانی سے مقابلہ کرتے ہوئے بل آخر ساحل تک لیکر جاۓ گا،
اگر ملا اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا ہے ،کاہلی اور سستی سے کام کرتا ہے، اور کشتی ساحل کے بجائے دوسری سمت اختیار کرگئ ہوں اور کشتی میں سوار درجنوں افراد کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہیں،
،اب کیا کی جائے اس وقت وہ بندہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی جان بجانے کے لئے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے،
اسی طرح کی صورتحال اس وقت اپنے ملک ہندوستان کی ہے، اگر ہمارے بڑے قوم و ملت کے سربراہان قدم آگے نہیں بڑھا تے ہیں،تو پھر قوم و ملت سوچنے پر مجبور ہوگا،
مسلم قائدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملی اتحاد و اتفاق کے لئے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کریں،یہ وقت صرف تقاریر، اخبار بیانی کا نہیں ہے، بلکہ عملی اقدامات کا متقاضی ہے،
صحیح فرمایا، ،شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور شعر ہے۔۔۔

نہ سمچھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگئی داستانوں میں

کیا یہ سچائی نہیں ہماری تاریخ میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں،
جو وقت کے چیلنجز کا سامنا کرتی ہیں جو طوفان کے سامنے سینہ سپر ہوجاتی ہیں جو بگڑے ہوئے حالات کا حوصلہ رکھتی ہیں،
مسلمانوں ہند کو اب اس طوفان کا صرف تماشائی نہیں، بلکہ اس طوفان کا مقابلہ کرنے والا بننا ہے، ملی تنظیموں کو یہ سمجھنا ہوگا آگر آج ہم نہیں جاگے تو کل ہماری داستان بھی تاریخ کے صفحات سے مٹ جائے گی*
ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہوں، آمین ثم آمین

تحریر: محمد ابوذر عین الحق مفتاحی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے