نامور ادیب اور بے باک صحافی تاج الدین اشعرؔ رامنگری کا انتقال

اک ستارہ اور ٹوٹا آسمانِ فکر کا

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

ہمارے عہد کے ممتاز و نامور ادیب، بے باک صحافی و شاعر ”تاج الدین اشعرؔ رامنگری صاحب“ کا وفات….

نام تاج الدین اور قلمی نام اشعرؔ رامنگری ہے۔ 1936ء میں رام نگر، میں پیدا ہوئے۔ وہ بنیادی طور پر صحافی تھے۔ عمر کابڑا حصہ صحافت کے پیشے سے وابستہ رہا، مشرقی اترپردیش کے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ ’قومی مورچہ‘ بنارس کے مدیر رہے۔ اس میں شائع ہونے والے ان کے مضامین اور اداریے اہلِ علم اور دانش اور طبقے میں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن اُنھیں طبعی مناسبت شاعری سے تھی۔ یہ چیز اُنھیں خاندانی طورپر ورثے میں ملی ہے۔ اُن کے والد بزرگوار مولانا ابو محمد امام الدین حافظؔ رام نگری (متوفی 1982ء) بہترین نثرنگار و محقق کے ساتھ بلند پایہ شاعر بھی تھے، ان کے چچا حضرت آسیؔ رام نگری ملک کے استاد شعرا میں شمار ہوتے تھے اور ان کے دو برادرانِ بزرگ جناب قمر الدین قمرؔ رام نگری اور جناب شاہدؔ رام نگری بھی قابلِ ذکر شعرا میں تھے۔ ان سب کے کلام اپنے زمانے کے موقر رسائل وجرائد کی زینت بنتے رہے تھے۔ ’قومی مورچہ‘ بنارس کی ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد وہ مستقل طورپر رام نگر میں مقیم رہے اور پوری یک سوئی کے ساتھ شعرو ادب خصوصاً نعت گوئی کے لیے وقف ہوگئے۔ اپنے والد محترم مولانا ابو محمد امام الدین حافظؔ رام نگری کی طرح تاج الدین اشعرؔ نے بھی کبھی کسی اسکول یا مدرسے کا منھ نہیں دیکھا۔ اُنھوں نے پوری تعلیم اپنے والدِ محترم سے حاصل کی اور ذاتی محنت و مشقت سے اپنے علمی معیار کو بلند کیا۔ شاعری میں بھی انھوں نے کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ نہیں تہ کیا، اپنے والد محترم کو ہی دوچار غزلیں دکھائیں اور بس۔ البتہ چوں کہ حضرت مولانا عامرؔ عثمانی مدیر تجلّی دیوبند سے مولانا رام نگری کے گہرے مراسم تھے۔ ماہ نامہ تجلّی پابندی سے ان کے ہاں آتاتھا، تجلّی کا مستقل کالم ’کھرے کھوٹے‘ وہ پابندی سے پڑھتے تھے، اس میں شعری مجموعوں پر مولانا عامرؔ عثمانی کے تبصرے بڑے معلوماتی اور مفید ہوتے تھے، اس لیے ان سے اشعرؔ صاحب نے خصوصی استفادہ کیا، جس کی وجہ سے لفظوں کی نشست و برخاست، ان کے برمحل استعمال، محاورات اور شعری و فنی نزاکتوں پر ان کی اچھی نگاہ ہوگئی۔ ان کی نظموں اور غزلوں کو مولانا عامر عثمانی نے تجلّی میں بھی متعدد بار شائع کیا۔ تاج الدین اشعرؔ صاحب ایک ایسے خانوادے کے پروردہ ہیں، جسے علم وادب کی دنیا میں ایک حیثیت حاصل رہی ہے اور عقیدے کی طہارت، فکر کی پاکیزگی، دینِ حق سے والہانہ وابستگی اور رسول کائناتﷺ سے عقیدت ومحبت جس کی شناخت رہی ہے۔ تاج الدین اشعرؔ صاحب کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ پہلا نعتیہ مجموعۂ کلام ”متاعِ عقیدت 1998ء“ اور دوسرا ”موجِ نسیمِ حجاز 2009ء ’موج نسیمِ حجاز‘ دو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب ’جوے کہکشاں‘ حمد و مناجات پر مشتمل ہے۔ اور دوسرا باب ’چراغاں‘ ہے۔ اِس میں صرف نعتیں ہیں، یہ باب ایک سو اٹھارہ ﴿118﴾ صفحات پر مشتمل ہے۔ تمام نعتیں مترنم بحروں میں اور زیادہ تر نظم کے فارم ﴿ہیئت﴾ میں، مسدّس، مخمّس یا مثلث کی شکل میں ہیں۔ غزل کی ہیئت میں بس چند ہی ہیں۔ حضرت تاج الدین اشعرؔ رام نگری کا ضعیف العمری کی وجہ سے طویل علالت کے بعد آج 10؍اکتوبر 2024ء بروز جمعرات تقریبا 11 بجے رات میں 88 سال کی عمر میں ان کی رہائش گاہ رام نگر بنارس میں انتقال ہو گیا۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ انشاء ﷲ تدفین بعد نماز جمعہ تقریبا 2 بجے ان کے آبائی قبرستان گولہ گھاٹ رامنگر بنارس میں عمل میں آئے گی۔ 👈 بحوالہ ماہنامہ زندگیِ نو نئی دہلی
✍️ڈاکٹر تابش مہدی

✨🌹 پیشکش : شمیم ریاض


نامور ادیب، بے باک صحافی و شاعر تاج الدین اشعرؔ رام نگری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت

اپنے مطب میں بیٹھے تھے عیسیٰ نفس بہت
موت آگئی تو کوئی دوا کارگر نہیں
——
زندگی ہم تو بڑی قیمت سمجھتے تھے تری
اہل دنیا چند مٹھی خاک دیکر چل دیئے
——
کل تلک ہم بھی اسی دنیا کا اک کردار تھے
ایک ہی پل میں ہم اس دنیا سے کتنی دور ہیں
——
فراز عرش پہ سوئچ دبارہا ہے کو ئی
زمین کی سطح پر منظر بدلتے جاتے ہیں
——
کون اتنی تیز گامی سے روانہ ہو گیا
عمر فانی سے حیات جاودانی کی طرف
——
آج ہیں کل نہیں رہیں گے ہم
تم سے پھر کچھ نہیں کہیں گے ہم

تلخ باتوں کو دل پہ مت لینا
بار غم دل پہ خود سہیں گے ہم
——
صف بستگان من حرم کچھ جواب دو
کیا دل بھی سجدہ ریز ہوتے ہیں مروں کی طرح
——
صد حیف اپنا مقصد تخلیق بھول کر
مصروف کارہائے دگر میں ہے آدمی
——
پھولوں کے حسن سے نہیں بجھتی شکم کی آگ
طائر نکل پڑے ہیں ثمر کی تلاش میں
——
ڈرتا نہیں ہے کیوں وہ خدا کی گرفت سے
ہر لمحہ جب خدا کی نظر میں ہے آدمی
——
بساط کیا ہے ہماری ہیں ہم تو کٹھ پتلی
کمال اس کا ہے جو ڈوریاں ہلاتا ہے
——
اگر یہ جان لیں ہم قوت خودی کیا ہے
پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جائیں
——
جو کہتے ہیں دہشت وہ مٹانے میں لگے ہیں
معصوموں کا خود خون بہانے میں لگے ہیں

ہر ناوک تفتیش کا رخ ہے مری جانب
اپنوں کا وہ ہر جرم چھپانے میں لگے ہیں
——
پہلے تو خنجر چلتے تھے، لیجے اب ترشول چلے
دھرم کی رکچھا کرنے والے مانوتا بھی بھول چلے

آؤ پہلے یہ طے کرلیں اپنے وطن کی دھرتی پر
راون کا ادھیکار چلے یارام کا پاک اصول چلے
——
لک کی وحدت کا شیرازہ درہم برہم دیکھ رہا ہوں
اپنے وطن کی جنت کو میں آج جہنم دیکھ رہا ہوں
——
بغداد ہو کہ کابل و بغداد و فلسطین
دیکھا ہے ہم نے دست ستم گر لہو لہو
——
کئی چہروں والا ہے ہر آدمی
تمدن کے آئینہ خانوں کے بیچ

خدا جانے کیوں اس قدر پست ہیں
جو رہتے ہیں اونچے مکانوں کے بیچ
——
محفوظ راستوں میں نہ گھر میں ہے آدمی
ہر لمحہ دام خوف و خطر میں ہے آدمی
——
ہم ان کو دشمنِ جاں، دشمن دل کہہ نہیں سکتے
یہ کیا اندھیر ہے، قاتل کو قاتل کہہ نہیں سکتے

تاج الدین اشعرؔ رام نگری
✍️ انتخاب : شمیم ریاض

Shameem Riyaz

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے