غزل: ستانا اپنے پڑوسی کو اپنی عادت ہے

یہ آپ کا ہے کرم آپ کی عنایت ہے
جہاں میں آج جو ہر سمت میری شہرت ہے

اگر ہو عشق سے خالی عبادتیں تیری
زمیں پہ سر کو جھکانا ترا اکارت ہے

نثار کردے جو جاں دین کی تحفظ میں
اسی کے واسطے فردوس کی بشارت ہے

اصولِ بزمِ محبت سے جو نہیں واقف
اسی کے حصے میں محفل کی اب صدارت ہے

وبائیں کیوں نہ ہوں نازل بتاؤ دھرتی پر
ستانا اپنے پڑوسی کو اپنی عادت ہے

رکھیں گے کیسے وہ مرہم ہمارے زخموں پر
نمک چھڑکنا، یہی جبکہ ان کی فطرت ہے

یہ کارِ خیر بھی اب کرتے چلئے اے انجم
ستمگروں کو مٹانا بھی اک عبادت ہے

ازقلم: انجم دربھنگوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے