13/ اکتوبر یک شنبہ کو آخری بار دس بجے دن میں کعبہ کے اندر عجز و انکسار اور تواضع و ندامت کے ساتھ داخل ہوا، کعبہ کے سامنے دو رکعت نفل نماز پڑھ کر دعا و مناجات میں مشغول رہا ،اس وقت کی کیفیت بیان سے باہر ہے،عجیب و غریب حال اور کیفیت تھی ، ،جہاں تک ممکن ہوسکا دعاؤں میں مشغول رہا اور اپنے عجز و گناہ اور خطا و معاصی پر اپنے رب کے حضور توبہ کرتا رہا ،اپنے تمام اہل تعلق،اساتذہ و رشتہ دار اور عزیز و اقارب نیز دوست و احباب کے ساتھ پورے عالم اسلام اور خصوصاً غزہ و فلسطین کے مسلمانوں کے لیے دعا کرتا رہا ،اللہ کرے یہ ساری دعائیں بار گاہ ایزدی میں قبول ہو جائیں اور انہیں شرف قبولیت مل جائے ۔آمین یا رب العالمین
کعبہ سے رخصتی کے وقت کی کیفیت بھی عجیب ہوتا ہے ،غمگین و افسردہ مغموم و رنجیدہ ،بار بار اٹھتا ، باہر آتا اور پھر اندر آکر دعا کے لیے بیٹھ جاتا ، گھنٹوں اسی کیفیت میں رہا کہ پتہ نہیں اب دوبارہ ان آنکھوں کو یہ دربار اور مطاف دیکھنا نصیب ہوگا کہ نہیں ہوگا ۔
زبان پر جمیل نقوی کے یہ اشعار تھے کہ
عشق کو حسن کے انداز سکھا لوں تو چلوں
منظر کعبہ کو نگاہوں میں بسا لوں تو چلوں
اپنے محبوب حقیقی کو منا لوں تو چلوں
اپنی بگڑی ہوئی ہر بات بنا لوں تو چلوں
کھنچتا ہے ابھی قدموں کو مطاف کعبہ
پیاس تلوؤں کی ابھی اور بجھا لوں تو چلوں
کرلوں ایک بار ذرا پھر سے طواف کعبہ
روح کو رقص کے انداز سکھا لوں تو چلوں
در کعبہ سے پھر ایک بار لپٹ کر رو لوں
اور کچھ اشک ندامت کے بہا لوں تو چلوں
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کے یہ اشعار بھی ذہن میں گردش کر رہے تھے ، اپنی خطاؤں پر نادم و شرمندہ تھا اور یہی کیفیت تھی کہ
الہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراہا فقر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مار ڈالا ہے
متاع دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹوا کر
سکون قلب کی دولت ہوس کی بھینٹ جڑھوا کر
لٹا کر ساری پونجی غفلت و نسیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں تیرے کعبے کی آنچل میں
گناہوں کی لپٹ سے کائنات قلب افسردہ
ارادے مضمحل ،ہمت شکستہ ،حوصلے مردہ
کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ کس جنجال میں گزری ہے گھڑیاں زندگانی کی
خلاصہ یہ کہ بس جل بھن کے اپنی روسیاہی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے
ترے دربار میں لایا ہوں اب اپنی زبوں حالی
تری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ ہیں خالی
یہ تیرا گھر ہے تیرے مہر کا دربار ہے مولا
سراپا نور ہے اک مہبط انوار ہے مولا
تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں ان سے خالی ہوں
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں
زباں غرق ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا رحم میرے اس زبان بے زبانی پر
یہ آنکھیں خشک ہیں یارب انہیں رونا نہیں آتا
سلگتے داغ ہیں دل میں جنھیں دھونا نہیں آتا
الہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
مولانا محترم کے یہ اشعار بھی ذہن میں تھے کہ
سرگشتہ و درماندہ بے ہمت و ناکارہ
وارفتہ و سرگرداں بے مایہ وبیچارہ
ہر سمت سے غفلت کا گھیرے ہوئے اندھیارہ
آج اپنی خطاؤں کا لادے ہوئے پشتارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندئہ آوارہ
جذبات کی موجوں میں لفظوں کی زباں گم ہے
عالم ہے تحیر کا یارائے بیاں گم ہے
مضمون جو سوچا تھا کیا جانے کہاں گم ہے
ہاں دل میں سلگتا ہے رہ رہ کے اک انگارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندئہ آوارہ
آیا ہوں ترے در پر خاموش نوا لے کر
نیکی سے تہی دامن انبار خطا لے کر
لیکن تری چوکھٹ سے امید سخا لے کر
اعمال کی ظلمت میں توبہ کی ضیا کے کر
سینے میں تلاطلم ہے دل شرم سے صد پارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندئہ آوارہ
امید کا مرکز یہ رحمت سے بھرا گھر ہے
اس گھر کا ہر اک ذرہ رشک مہ و اختر ہے
محروم نہیں کوئی جس در سے یہ وہ در ہے
جو اس کا بھکاری ہے قسمت کا سکندر ہے
یہ نور کا قلزم ہے یہ امن کا فوارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندئہ آوارہ
یہ کعبہ کرشمہ ہے یارب! تری قدرت کا
ہر لمحہ یہاں جاری میزاب ہے رحمت کا
ہر آن برستی ہے ہن تیری سخاوت کا
مظہر ہے یہ بندوں سے خالق کی محبت کا
اس عالم پستی میں عظمت کا یہ چوبارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندئہ آوارہ
یارب مجھے دنیا میں جینے کا قرینہ دے
میرے دل ویراں کو الفت کا خزینہ دے
سیلاب معاصی میں طاعت کا سفینہ دے
ہستی کے اندھیروں کو انوار مدینہ دے
پھر دہر پہ چھا جائے ایمان کا اجیارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندئہ آوارہ
یارب میری ہستی پر کچھ خاص کرم فرما
بخشے ہوئے بندوں میں مجھ کو بھی رقم فرما
بھٹکے ہوئے راہی کا رخ سوئے حرم فرما
دنیا کو اطاعت سے گلزار ارم فرما
کردے مرے ماضی کے ہر سانس کا کفارہ
دربار میں حاضر ہے اک بندئہ آوارہ
ازقلم: محمد قمر الزماں ندوی