اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

تحریرْ: محمد شارب ضیاء رحمانی

گزشتہ ہفتہ، دس دن سے، جہاں دیکھو وہاں کسی نہ کسی سیاسی لیڈرسے ملاقات کا سلسلہ جاری ہے،اچھی بات ہے اور اس کا فائدہ بھی ہواہے، گرچہ یہ ملاقات وقف ترمیمی بل پیش ہونے سے قبل ہونی چاہیے تھی لیکن اس دوران پوری سستی دیکھی گئی، اگر اسی وقت اسی طرح کوشش کی جاتی تو نہ بل آتا، نہ مسلمانوں کی ساری توانائی اسی پر خرچ ہورہی ہوتی، نہ جگہ جگہ جلسے کرنے ہوتے، نہ اجلاس اور کانفرنس پر لاکھوں روپیے خرچ کرنے کی نوبت آتی۔

کسی چیز میں زیادتی،مزہ خراب کردیتی ہے، میٹھا زیادہ ہو تو نقصان دہ، نمک ضروری ہے لیکن اس کی زیادتی مضر بھی ہے اور کھانے کو کھانے کے لائق نہیں رکھتی،لیموں کے بارے میں تو کہاوت ہی مشہور ہے،وہی اب ملاقات درملاقات کا حال ہوگیاہے، ایسا لگتا ہے کہ نقل کی ہوڑ مچی ہے۔’دکھاوے‘اور’مقابلے‘ کا عنصرزیادہ نمایاں ہورہاہے۔اب تک جتنی ملاقات ہوچکی ہے، کافی ہے، اس کا اچھا اثر پڑا ہے، مسلم پرسنل لاء بورڈ، امارت شرعیہ، جمیعۃ علماء،مولانا آزاد سنٹر وغیرہ کی لگاتار ملاقات اور تگ ودو قابل تعریف ہے،خصوصاً امارت شرعیہ کے امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب کے زیر ہدایت امارت نے کافی سرگرمی دکھائی، اس کی تعریف کی جانی چاہیے لیکن ایسا نہ ہو کہ ملاقات سیاسی پارٹیوں کے نزدیک ایک مذاق بن جائے جس رخ پرگاڑی نکل چکی ہے۔ آل انڈیاملی کونسل نے بھی اس دوران ایک قابل تحسین کام کیا،کونسل نے وقف ترمیمی بل کانہ صرف مکمل اردوترجمہ کرایابلکہ 1995کے ایکٹ اورموجودہ ترامیم کاتفصیلی موازنہ بھی شائع کیا،جولوگ انگریزی کم جانتے ہیں یانہیں جانتے،اس سے ان کوفائدہ ہوگا۔نئی قومی تعلیمی پالیسی کاامارت شرعیہ کے سابق امیرشریعت حضرت مولانامحمدولی رحمانی علیہ الرحمہ نے اردومیں ترجمہ کرایاتھا،امیدکی جارہی تھی کہ امارت شرعیہ اس کام کوسب سے پہلے انجا م دے گی،خیر،جس نے بھی کیاقابل تعریف ہے۔مقصدکام ہوناہے۔ حکومت اوراین ڈی اے کی جماعتوں سے ملاقات یقینامفیدتھی لیکن اپوزیشن جماعتوں سے اس تسلسل کے ساتھ ملنا’کچھ زیادہ‘ ہوگیا۔ کانگریس، ایس پی،ترنمول کانگریس، راجد، سبھی اپوزیشن جماعتوں نے جم کر پارلیمنٹ میں پہلے ہی مخالفت کی ہے اور شاید پہلی بار اپوزیشن کسی مسلم مسئلہ پر صاف نیت کے ساتھ متحدرہا، اسی رخ کو دیکھتے ہوئے ٹی ڈی پی اور لوجپانے جے پی سی کا مطالبہ کردیا، ورنہ للن سنگھ کی تقریر نے توبل کی منظوری کا راستہ آسان کرہی دیاتھا،جب اپوزیشن جماعتیں بل پیش ہونے سے قبل ہی متحدہیں اوران کاموقف واضح ہے،پھران کے پاس دوڑ لگانا تحصیل حاصل ہے۔اورنہ اب ایسی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اجلاس اور کانفرنس کرکے ضیاع وقت وسرمائے کا’ملی فریضہ‘انجام دیاجائے۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ جے پی سی کو اپنے اپنے اعتراضات کی کاپی بھیجی جائے، کوشش کی جائے کہ بل دھرا کادھرارہ جائے اوراگر ترمیم ہوبھی رہی ہو تو اس میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے پرانے کچھ مطالبات شامل کردیے جائیں جن پر 2013میں عمل نہیں ہوسکاتھاکہ اگر ’کرم فرمائی‘چاہتے ہیں تو یہ سب کیجیے،حضرت مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ کی اس وقت کی تحریریں اور کاوشیں اس سلسلے میں مشعل راہ ہوں گی۔ان تحریروں میں حضرت رحمہ اللہ نے مولانا مفتی اعجاز ارشد قاسمی رحمہ اللہ،جناب کے رحمن خان،جناب ڈاکٹرخالدانور کی کاوشوں کوسراہاہے،انھوں نے سابق مرکزی وزیرسلمان خورشیدصاحب کی ’خدمات‘پربھی روشنی ڈالی ہے،مسلم پرسنل لابورڈکے کئی معززاراکین اس بل کی تیاری میں حضرت رحمانی علیہ الرحمہ کے ساتھ تھے،ان میں جولوگ باحیات ہیں،ان سے مددلے کرمفیدمطالبات بل میں شامل کرانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ طے ہے کہ وقف ترمیمی بل اپنی موجودہ شکل میں،کسی بھی صورت میں پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوسکے گا،کیوں کہ لوجپا،ٹی ڈی پی کے ساتھ اب جدیوکارخ مثبت ہے۔ ان پارٹیوں کے بغیربل پیش کرنے کی ’ضرورت‘محسوس نہیں کی جائے گی۔ قوت اس پر صرف کرنی چاہیے کہ کون سے مفید مطالبات اس میں شامل کیے جائیں، حکومت وقف کی’بھلائی‘ چاہتی ہے، ان مطالبات کو شامل کرکے واقعی ’خیرخواہی‘ دکھائے،اور اگر مطالبات مضبوطی کے ساتھ رکھے گئے تو بل پیش ہی نہیں ہوگا۔ جب کانگریس نے ان مطالبات پر دوہرارویہ روارکھاتو اب امید چھوڑ دیجیے کہ ان مطالبات کے ساتھ بل پیش کرنے کا’حوصلہ‘دکھایاجائے گا، اس لیے جب آپ نئے مطالبات کریں گے اوراقدامی رخ اختیار کریں گے تو بل خود ہی ٹھنڈے بستے میں چلاجائے گا۔ وقف ترمیمی بل کے علاوہ درجنوں مسائل ہیں لیکن پوری ملت اسلامیہ صرف ایک بل پر اٹکی ہوئی ہے، اس پر نظر ضرورہونی چاہیے لیکن ساری توانائی،وقت اوروسائل صرف وقف ترمیمی بل پر صرف کردیے جائیں، یہ مناسب نہیں ہے،بل کے علاوہ ریاستی وقف بورڈزکی کیاصورت حال ہے،وقف کی جائیدادکاکیااستعمال ہورہاہے،اس پربھی غورکرناچاہیے۔ بلڈوزر کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے،ہماری جماعتوں کی طرف سے اس پر خاموشی ہے، یوسی سی کو نئی بوتل میں پیش کرنے کا عندیہ دے دیا گیا،آسام کی صورت حال عیاں ہے، ابھی مردم شماری شروع ہورہی ہے، اس میں ڈھیر سارے مسائل ہیں،اس پرمحنت کرنے کی ضرورت ہے۔بہار میں اردو کی مسلسل حق تلفی ہورہی ہے،یہ سبھی ضروری امور ہیں جن پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ابھی ایسا لگتا ہے کہ پوری ملت اسلامیہ کا ایک ہی مسئلہ ہے،سمجھ نہیں سکے کہ ایک چیز میں سبھی کو الجھاکر رکھ دیا گیااور ہم کھلونے دے کر بہلادیے گئے، پوری ملت اسلامیہ اس کھلونے سے کھیل رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے