فن چار بیت کا اردو زبان کو مقبول عام بنانے میں ایک کردار

فن چار بیت اُردو شاعری کی ایک قدیم صنف ہے، جو عوام الناس میں اردو شاعری اور زبان سے شغف پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے ۔
اس فن کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، جو آج پہلے کی طرح مقبول نہیں رہا لیکن ماضی میں اسے کافی عروج حاصل ہوا ، خاص طور پر بادشاہوں، نوابوں ، رجواڑوں اور تہذیبی اداروں نے اس فن کی سر پرستی کی ، جس کے نتیجہ میں یہ عوام و خواص میں کافی مقبول ہو گیا لیکن امتداد زمانہ آج اسے بڑی حد تک فراموش کر دیا گیا ہے۔

صنف چار بیت کا تعارف

فارسی میں چار بیت سے چار مصرعے مراد لیے جاتے ہیں ، اس لیے اُردو میں چار بیت چار مصرعوں والی مخصوص نظم کو کہتے ہیں ، جس کا ہر بند چار مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ یہ بند کسی بھی غزل کے اشعار پر دو مصرعوں کے اضافے سے تشکیل پاتا ہے ۔

"عارف عزیز” فن چار بیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
چار بیت ادب کی ایک صنف ضرور ہے لیکن اسے ہم ماہرین کے الفاظ میں ایک مظاہراتی فن بھی کہہ سکتے ہیں ، جس کی تعمیر و تشکیل میں کئی اصناف سخن بلکہ فنون لطیفہ کے عناصر کا عمل دخل رہا ہے، اسے ایک رجز یہ صنف بھی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں صرف جنگ و جدال کے مضامین نظم کر کے انھیں مخصوص طریقہ اور ساز کے ساتھ گایا جاتا تھا ، عہدِ مغلیہ میں جب افغان سپاہی ، مغل فوج میں شمولیت کے لیے ہندوستان آئے تو اپنے ہمراہ یہ شعری خزانہ بھی لائے ، جس کو ہم ” لوک گیت "کہہ سکتے ہیں مگر حقیقت میں یہ ایک رجزیہ صنف ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں چار بیت کا کم و بیش چار سو سال سے رواج رہا ہے۔

فن چار بیت صنفِ سخن ہی نہیں ، ایک مظاہراتی فن بھی ہے، جو ( بقول پروفیسر حیدر عباس رضوی ) غنا، موسیقی اور ڈرامے سے ترکیب پاتا ہے۔
گانے والوں کو راگ راگنیوں سے واقف ہونا ضروری نہیں ، بس موزونیت ، طبع ، لے ، تال سم ، پاٹ دار آواز اِس کے لوازم ہیں، دراصل یہ افغان سپاہیوں کے تفریحی مشغلہ کی ترقی یافتہ شکل ہے، اسی مناسبت سے چار بیت کو ’راگ پٹھانی‘ بھی کہا جاتا ہے ۔

بھوپال میں چار بیت کہنے والے شعراء

(1) ذکی وارثی (۲) قیصر بھوپالی (۳) سراج میر خاں سحر بھوپالی (۴) سہا مجددی (۵) طرزی بھوپالی (۶) ذکری بھوپالی، (۷) فکری بھوپالی (۸) مولوی شکر اللہ (۹) ہاتف بھوپالی (۱۰) بابو شجاعت بھوپالی (11) محمد منشی بھوپالی (۱۲) حامد سعید خان بھوپالی ( ۱۳) سید رمضان علی بھوپالی (۱۴) سیف بھوپالی (۱۵) صفدر حسین طالب بھوپالی (۱۶) شعری بھوپالی (۱۷) گوہر جلالی (۱۸) کیف بھوپالی (۱۹) محمد سلیمان خان شش بھوپالی (۲۰) وکیل بھوپالی (۲۱) شاہد بھوپالی (۲۲) عابد اختر (۲۳) مسعود بھوپالی اور راقم الحروف (۲۴) مسعود ہاشمی
صنف چار بیت موجودہ دور میں آہستہ آہستہ پامال ہوتی جارہی ہے، خاص کر اردو داں طبقہ کو اس کی بقاء پر توجہ دینا اشد ضروری ہے۔
( مضمون بھو پال کی قدیم صنف چار بیت، مسعود ہاشمی ، سہ ماہی فکر و آگہی، دہلی ، صفحہ: ۸۸۰-۸۸۱)

تا ہم اس دور میں بھی چار بیت کے متعدد پروگرام منعقد ہوتے رہے ہیں، اقبال مجید صاحب جب بھو پال ریڈیو میں اُردو پروگرام کے انچارج تھے تو اُنھوں نے چار بیت کی مقامی پارٹیوں کے مقابلے منعقد کرا کر اُنھیں ریکارڈ کیا تھا، جو ریڈیو سے سلسلہ وار نشر ہوتے رہے ، بھو پال ڈیولپمنٹ اتھارٹی ( بی ڈی اے) کے اشوک چین بھا بھا جب چیئر مین تھے تو انھوں نے بھی چار بیت کا ایک بڑا پروگرام ۲۰۰۴ ء میں منعقد کرایا ۔

جس میں متعدد پارٹیوں نے حصہ لیا تھا ، اس موقع پر مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے سینئر عہدیدار محمد انیس انصاری نے ۳۶ صفحات کا ہندی میں ایک تعارف نامہ بھی مرتب کیا تھا ، جس میں چار بیت کا تعارف ، تاریخ اور فن کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ بھو پال کی چار بیت پارٹیوں کی خصوصی تصاویر بھی شامل کی گئیں تھیں ۔
بھوپال کی فعال ادبی و تہذیبی انجمن ‘ کہکشانِ ادب’ نے فنِ چار بیت کے بھی کئی پروگرام کرائے ہیں ۔
اسی طرح مدھیہ پردیش اُردو اکادمی چار بیت پر پروگرام منعقد کرتی رہی ہے ۔
علامہ اقبال ادبی مرکز کے زیر اہتمام علامہ اقبالؒ کے یوم وفات پر ہر سال چار بیت کے مقابلوں کااہتمام ہوتا تھا۔
21 اپریل 2017کو چار بیت کا ایک کل ہند پروگرام تاریخی ‘گوہر محل’ بھوپال میں منعقد کیا گیا تھا ۔

از:۔زاویۂ نگاہ

مرتب: ڈاکٹر مرضیہ عارف

پیش کش: دبستان بھوپال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے