کتاب "جنوب کے اصحابِ کمال” کا مطالعہ

ہمارا پیارا دیش ہندوستان علاقائی اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم ہے شمالی ہند(جس میں یوپی بہار آسام بنگال وغیرہ آتا ہے) اور جنوبی ہند (جس میں کیرلا ،کرناٹک ،آندھرا ،تلنگانہ،تمل ناڈو وغیرہ آتا ہے) دونوں علاقوں میں ہردور میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی رہی ہے، اسی وجہ سے دونوں علاقوں میں بڑی تعداد میں علماء اسلام بھی پیدا ہوئے ہیں ، البتہ شمالی ہند میں اکثر و بیشتر علماء کرام کی حیات و خدمات محفوظ رہیں ،جب کہ جنوبی ہند میں غالباً اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ،جس کی وجہ سے بعض بڑی بڑی علمی شخصیتوں کی حیات وخدمات منوں مٹی میں دفن ہوگئیں ۔
عصر حاضر میں جنوب کے مایہ ناز عالم دین بلکہ مؤرخ جنوبی ہند حضرت ڈاکٹر راہی فدائی باقوی(ظہیر احمد) مدظلہ العالی (سابق استاذ جامعہ باقیات صالحات ویلور،تمل ناڈو ، و سابق پروفیسر جامعۃ العلوم الثانیۃ کڈپہ،آندھرا پردیش) اس میں کوشاں ہیں کہ جنوبی ہند کے علماء کرام کو پس مرگ زندہ کیا جائے اور انہوں نے اس سلسلےکا آغاز "جنوب کے اصحابِ کمال”کے نام سے شروع کرچکے ہیں جو چار جلدوں میں ایک عمدہ دستاویز کتابی شکل میں تیار کرچکے ہیں،اور یہ ڈاکٹر صاحب کا ایک بیش بہا کارنامہ ہے، ایسے ان کے اشہب قلم سے دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تصنیف لطیف ان کا زندہ جاوید رہے گی۔ اور ڈاکٹر صاحب کو بھی اس سے حیات جاوداں مل جائے گی ۔ان شاءاللہ

اس وقت میرے سامنے اسی دستاویز وتحقیقی کتاب کی تیسری جلد ہے جس کا کور پیچ کچھ اس طرح ہے:
جنوب کے اصحابِ کمال جلد سوم
تذکرہ محدثین جنوب اور دیگر مضامین
ڈاکٹر راہی فدائی
پچھلے دنوں مجھے یہ کتاب بالاستیعاب مکمل مطالعہ کرنے کا موقع ملا ۔
کتاب ہذا 344/صفحات پر مشتمل ہے ، سن اشاعت 2020/ء اور ناشر: الانصار پبلیکیشنز حیدرآباد ہے، کتاب پر قیمت 500/درج ہے ،لیکن اس پر ڈسکاؤنٹ بھی ہے البتہ احقر کو کتاب ہذا مصنف کی طرف سے ہدیہ میں ملی تھی ۔جزاکم اللہ احسن الجزاء

کتاب کا انتساب دو صفحہ میں ہے اور یہ اس وجہ کر دو صفحہ میں ہے کہ راہی فدائی باقوی صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ ساتھ اپنے تمام فروع کا نام و عمر بھی ضبط کیا ہے۔
کتاب پر "حرف سوم”کے عنوان سے مصنف کے قلم سے سبب تصنیف کتاب ہے، "حرف سوم”کا عنوان غالباً اس وجہ سے لگایا گیا ہے کہ یہ کتاب "جنوب کے اصحابِ کمال”کی تیسری جلد ہے ،پہلی جلد میں”حرف اول”اور دوسری میں "حرف دوم”اور کتاب ہذا میں "حرف سوم” لکھا گیا ہے ؛لیکن یہ خیال کوئی یقینی نہیں ہے کیونکہ احقر نے جلد اول و دوم دیکھا نہیں ہے۔
اس کے بعد کراچی پاکستان کے مشہور محقق اردو ادیب ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب (موصوف چھ درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں،ان میں چار پانچ انگریزی زبان میں بھی ہیں) کے قلم سے ایک تحریر کتاب ہذا اور مصنف سے متعلق بعنوان "ڈاکٹر راہی فدائی ، جنوبی ہند میں مطالعات تہذیب و ادب کا ایک نابغہ” ہے۔

کتاب چھ مقالات کا مجموعہ ہے
پہلا مقالہ:”تذکرۂ محدثین جنوب”یہ صفحہ 19/تا 78ہے، اس مقالہ میں ان محدثین کا تذکرہ ہے جو نویں صدی ہجری سے چودھویں صدی ہجری کے درمیان میں گزرے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مقالہ کے ابتدائیہ میں جنوبی ہند میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین کی آمد اور ان کے مدفن کے بارے میں لکھتے ہیں:
"حضور اکرمﷺکی مقدس صحبت سے فیضیاب ہوکر جذبۂ دعوت دین سے اپنے سینوں کو منور کرتے ہوئے جو بندگان خدا دین کے راستے میں نکل پڑے وہ بھی جنوبی ہند کے مختلف علاقوں میں پہنچ کر فروکش ہوگئے ،انہوں نے یہاں کے باشندوں کو نغمۂ توحید سے خوب مسرور و متأثر کیا ،اور تادم آخریں اسلام کی اشاعت میں مصروف رہ کر یہیں آسودۂ خاک ہوگئے ۔ان صحابہ کرامؓ کے مزارات ملیبار اور مدارس(چنئی) کے ساحلی علاقوں میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام بنے ہوئے ہیں ۔الحمدللہ راقم الحروف (راہی فدائی)کو بھی ان میں سے بعض مقامات کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے۔یہاں یہ نکتہ ذہن نشیں رہے کہ مذکورہ بالا صحابہ کرام کے وجود پر واضح تاریخی دستاویزات تا حال دستیاب نہ ہونے کی بنا پر مؤرخین میں اختلاف رائے کا پایا جانا کوئی غیر معمولی بات یا منفی رجحان نہیں سمجھا جائے گا ،تاہم صدیوں سے تواتر کے ساتھ جاری روایتوں کو کسی مضبوط دلیل کے بغیر رد کر دینا بھی قرین قیاس نہیں ہوگا ۔
ڈاکٹر صاحب مدظلہ العالی کا تجزیہ بہت ہی عمدہ اور افراط و تفریط سے منزہ ہے ،رآقم الحروف نے ایک مرتبہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی قدس سرہ کا بیان ٹیپ ریکارڈ کی کیسٹ میں تقریباً سترہ سال قبل سنا تھا جس میں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ: میں تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوں ،اپنے مطالعہ کی روشنی میں کہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کسی صحابی رسول ﷺ کی قبر نہیں ہے۔
ہمارے ایک استاذ محترم حضرت مولانا علاء الدین ندوی صاحب مدظلہ العالی (استاذ عربی ادب: مادر علمی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) نے فرمایا تھا کہ ہمارے ملک سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا گزر ہوا ہے البتہ یہاں قیام نہیں کئے ہیں اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خطہ ارضی کے جس علاقے میں بھی جاکر قیام کر لئے اور وہیں کا ہوکر رہ گئے ،ان کی برکت سے آج تک ان علاقوں میں وہاں کی زبان "عربی” ہے۔
استاذ محترم کی یہ بات ذہن قبول کرتی ہے کیونکہ افریقہ کے بہت سے ممالک میں انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی برکت سے آج وہاں کی مادری زبان "عربی”ہے۔
"مقالہ تذکرہ محدثین جنوب”میں سب سے پہلے علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کےہندی جنوبی شاگرد "علامہ یحییٰ بن عبدالرحمن بن ابی الخیر الہاشمی شافعیؒ”(ولادت:789/ھ وفات:843)کا ذکر جمیل ہے موصوف پہلے گجرات کے شہر "کھمبایت”آئے اور پھر کرناٹک کے شہر "گلبرگہ”آئے اور پھر آپ کا یہاں ایک مدت تک قیام رہا۔
اور اخیر میں”محدث دکن حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب نقش بندیؒ”(ولادت:1292/ھ،وفات:1384/ھ)کا ذکر خیر ہے آپؒ کی ہی حدیث کی مشہور کتاب "زجاجة المصابيح” ہے اسی کتاب کو "حنفی مشکوۃ” بھی کہا جاتا ہے ،اس کتاب کے میں عالم اسلام کے جید عالم و فاضل اور فقہ حنفی کے ممتاز استاذ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ شامی (ولادت:1335/ھ، وفات:1415/ھ)نے "زجاجۃ المصابیح”کا مطالعہ قیام مکہ مکرمہ کے دوران کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:
"بیت اللہ شریف کی گراں قدر منفعتوں میں ایک ‘زجاجۃ المصابیح”ہے،جس کی وجہ سے میری بصیرت و بصارت دونوں روشن ہوگئے۔”
اور برصغیر کے مشہور انشاء پرداز مولانا عبد الماجد دریا آبادیؒ نے لکھا تھا:
"اس میں قطعاً اختلاف نہیں ہے کہ ایسی کتاب علماء احناف ایک ہزار سال سے نہیں لکھ سکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔(مؤلف موصوف حضرت سید عبداللہ شاہ صاحبؒ نے) احناف کے سر سے صدیوں کا قرض اتار دیا۔”
ان دونوں محدثین کے درمیان میں تقریباً پندرہ محدثین کا تذکرہ ہے نیز ان کے علمی کاوشوں کا بھی ذکر خیر ہے۔
ان محدثین میں ایک ایسے محدث بھی ہیں کہ جن کے خسر محترم نے کہا تھا کہ اگر آپ تیس ہزار احادیث سنادیں تو اپنی صاحب زادی سے آپ کا نکاح کردیں گے اور محدث نے سنا دیا ،یہ کسی عرب کا واقعہ نہیں ہے بلکہ جنوبی ہند مدراس جسے اب چنئی کہا جاتا ہے وہاں کا واقعہ ہے ڈاکٹر راہی فدائی باقوی صاحب دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:
"محدث جلیل حافظ الحدیث والقرآن شیخ محمد عثمان مدراسی ہیں ،جن کی شادی کے لئے ان کے خسر محترم نے یہ شرط لگائی کہ تیس ہزار حدیثیں حفظ ہوں تو لڑکی دیں گے ،چنانچہ شیخ عثمان نے تیس ہزار احادیث اپنے خسر علامہ نواب خاں عالم خاں فاروق مدراسی(متوفی:1271/ھ) خلیفہ حضرت مولانا سید محمد علی رامپوری (متوفی:1251/ھ) کو زبانی سنائیں تب جاکر نواب مذکور نے شیخ موصوف کو اپنی دامادی میں لیا۔”
اس طرح کے کئی واقعات اس مقالہ میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔
کتاب میں دوسرا مقالہ بعنوان "برصغیر میں اردو کے اولین مفسرین قرآن نواب عبدالصمد جنگ مدراسی”ہے،اس مقالہ میں یہ ثابت کیا گیا ہے برصغیر میں باضابطہ طور پر اردو زبان میں سب سے پہلی مکمل تفسیر قرآن مجید "مفسر قرآن نواب عبدالصمد جنگ مدراسیؒ”کی ہی ہے، یہ تفسیر چار جلدوں میں دو ہزار چھ سو تہتر(2673) صفحات پر مشتمل ہے اس کا نام "تفسیر وہابی”ہے ،اس تفسیر کا نادر و نایاب مکمل مخطوطہ چار جلدوں میں اورینٹل میا نسکرپٹ لائیبریری عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس حیدرآباد کا مخزونہ ہے۔
اس تفسیر کے علاوہ نو ایسی کتابوں کا بھی ذکر ہے جس میں قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر کسی سورہ یا پارہ کا کیا گیا ہے ۔
تیسرا مقالہ:”علامہ سیّد سلیمان ندوی اور مشاہیر جنوب” ہے، اس میں علامہ سیّد سلیمان ندوی کا جنوبی ہند آنے سے متعلق بحث کی گئی ہے ، علامہ کی مشہور زمانہ کتاب "خطبات مدراس” یہ وہی کتاب جو علامہ مدراس میں مسلسل آٹھ خطبے دئیے تھے اور پھر بعد میں کتابی شکل میں آئی جس کے بارے میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی قدس سرہ نے فرمایا تھا کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس جیسی کتاب عربی میں بھی نہیں ہے۔
چوتھا مقالہ:”سرسید کے افکار اور جنوبی ہند”اس مقالہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سر سید کے افکار ونظریات (فکری نہیں بلکہ علمی ادارے اور علمی نشرواشاعت) کے زیادہ پیروی جنوبی ہند میں ہی کی گئی ہے ، اس مقالہ میں شمالی ہند والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔
پانچواں مقالہ:”فنا فی النعت حضرت مغموم مدراسی”کے عنوان سے ہی،اس میں حضرت مغموم مدراسی کے نعتیہ اشعار پر گفتگو کی گئی ہے۔
چھٹا مقالہ:”جنوب کے باکمال فارسی شعرا”کا ذکر ہے۔
کتاب میں سے ضخیم یہی مقالہ ہے جو 181/تا 321/ہے، اس میں کل 24/شعراء کا مختصر تعارف اور ان کے نمونۂ کلام مع تبصرہ جمع کیا گیا ہے ۔
سب سے پہلے "خواجہ جہاں عمادالدین محمود گاواں”(ولادت:813/ھ،شہادت 886/ھ) کاذکر اور اخیر میں”افضل الشعرا شیریں سخن خاں راقم(ولادت:1233/ھ، وفات:1303/ھ)کا ذکر جمیل ہے ۔

مجموعی اعتبار سے کتاب ہذا بہت ہی عمدہ اور جنوبی ہند کے اہل علم کے لئے بیش بہا نعمت عظمیٰ ہے، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر راہی فدائی باقوی صاحب مدظلہ العالی کو اس عظیم کارنامہ کا بہترین اجر عطا فرمائے۔ (آمین)

ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
جامعہ نعمانیہ،قاضی پیٹ، وی کوٹہ (آندھرا پردیش)

One thought on “کتاب "جنوب کے اصحابِ کمال” کا مطالعہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے