آخر کسے دہشت گرد کہیں کسے نہیں؟

ہندوتوادہشت گردی کی اصطلاح پر تو بی جے پی اور آرایس ایس کو سخت اعتراض رہاہے ۔اسی بناپر انہوں نے کانگریس کے خلاف ہندوئوں کو مشتعل کرکے متحد کیااورکہاکہ ہندوستان میں ہندوتوا دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔لیکن یرقانی اور زعفرانی تنظیموں نے جس طرح ہندوستان میں اقلیتوں پر مظالم ڈھائے ہیں اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملے گی ۔آیاان مظالم کو دہشت گردی کے زُمرے میں رکھاجاسکتاہے یانہیں ؟یہ بحث طلب موضوع ہے ۔کیونکہ دہشت گردی کی تعریف اور انطباقات میں بہت اختلاف ہے ۔اقوام متحدہ نے رواں سال میں دہشت گردی کی وضاحت کرتے ہوئے کہاتھاکہ کسی آبادی کو خوف زدہ کرنے یاکسی سرکار اورعالمی دارے کو کسی کام کےانجام دینے یا انجام دہی سے روکنے پر مجبورکرنے کے مقصد سے شہریوں یا ایسے افراد کو جو جنگ کا حصہ نہیں ہیں مارنایا شدیدجسمانی نقصان پہونچانا،دہشت گردی ہے ۔اگر اس تعریف پر دنیا متفق ہے توپھر تمام حکومتیں اور ریاستیں اس تعریف کے تناظر میں اپنا احتساب کریں تومعلوم ہوگاکہ دنیا میں کہاں کہاںدہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں اور کونسی حکومتیں دہشت گردوں کی حمایت کررہی ہیں ۔اس طرح ہندوستان میں ہونے والے متعدد واقعات کو بھی اس زمرے میں رکھاجاسکتاہے ۔کیونکہ اقلیتوں کوخوف زدہ کرنے کے لئے جس طرح ہندوتواتنظیمیں حکومت کی پشت پناہی سے تشدد کررہی ہیں اس کو اس تعریف کے دائرے سے خارج نہیں کیاجاسکتا۔

دہشت گردی پر اقوام متحدہ کے اس نظریے کو دنیا کی تمام حکومتیں قبول کرتی ہوں یہ ضروری نہیں،کیونکہ ہر ملک اور ہر ریاست میں دہشت گردی کے کچھ خودساختہ اصول وضوابط ہیں۔بعض ریاستیں اپنے سیاسی اور ملکی مفاد کے پیش نظر دہشت گردی کی تعریف وضع کرتی ہیں ۔عالمی طاقتوں کے اصول وضوابط سب سے الگ ہیں ۔میڈیا بھی انہی اصولوں کی پیروی کرتاہے اور بے گناہوں کو بھی دہشت گرد کہنے سے باز نہیں آتا۔یہ اندھی تقلید غزہ جنگ کے بعد زیادہ مشاہد ہ کی گئی ۔امریکی اور اسرائیلی میڈیا نے جسے دہشت گرد کہہ دیادنیا کا ایک بڑا طبقہ اسی کو صحیح سمجھنے لگا۔حیرت یہ ہے کہ دنیا نے اسرائیل کے غاصبانہ قبضے اور جنایت سے بخوبی واقفیت کے باجود غزہ کے لوگوں کی حمایت کے بجائے اسرائیل کی دہشت گردی کو’ حقِ دفاع‘ کے نام پر جائز ٹھہرایا۔استعمار کی توسیع پسندانہ فکر نے مغربی ایشیا کو تباہی کے دہانے پر پہونچادیا لیکن دنیا اس سے چشم پوشی کرتی رہی ۔پہلے عراق پربے بنیاد الزامات کے تحت حملہ کیاگیا اور پھر افغانستان اور شام کو برباد کردیاگیا۔فی الوقت غزہ اور لبنان پر حملے جاری ہیں۔غزہ میں ہزاروں بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیاجس میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے ۔اس کے باوجود جو لوگ اپنے وطن اور آزادی کے لئے لڑرہے ہیں میڈیاانہیں دہشت گرد کہہ رہاہے ۔اور جولوگ غاصبانہ قبضے کے باوجود غزہ اور لبنان پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کررہے ہیں ان کی مظلومی کا نوحہ پڑھاجارہاہے ۔یہ ہے دنیا کا دُہراکردار جس کی بنیادپر دہشت گردی جنم لیتی ہے اور دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر کھڑی ہے۔
ہندوستان میں بھی اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کا عمل جاری ہے ۔یہ کام ہندوتواتنظیمیں سرکار کی حمایت اور پشت پناہی سے انجام دے رہی ہیں ۔کیونکہ جب سرکار کے وزرااجتماعی پروگراموں میں ’دیش کے غداروں کو گولی ماروسالوں کو…‘‘ جیسے نعرے بلند کرتے ہیں تو سرکار کی نیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں ۔اب تک انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی جس سے ظاہرہوتاہے کہ سرکار اور ہندوتواتنظیموں کی منشاایک ہے ۔دھرم سنسدوں میں جس طرح مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیلی کی گئیں اور ہندوئوں سے اقلیتی طبقے کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لئے کہاگیااس کو بھی اسی دائرے میں رکھاجاسکتاہے ۔بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں دوکانداروں کونیم پلیٹ لگانے کا حکم دیاگیاتاکہ مسلمانوں کو اقتصادی ضرب دی جاسکے ۔اسی طرح ٹرینوں اور بسوں میں سفر کوغیر محفوظ بنادیاگیاتاکہ خوف و دہشت کی نئی فضا قائم ہوسکے ۔آیااس صورتحال کو میڈیا اقوام متحدہ کی تعریف کے تناظر میں بیان کرنے کی جرأت کرپائے گا؟ ہرگز نہیں !کیونکہ اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کاعمل تو میڈیا نےبھی شروع کررکھاہے اس لئے وہ اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی تعریف کوکیسے قبول کرسکتاہے ۔آج صورت حال یہ ہے کہ ہندوتواتنظیموں کے غنڈے سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں زدوکوب کرتے ہیں ۔ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں گئوکشی کے فرضی الزامات کے تحت قتل کےجتنے واقعات رونماہوئے آیا ان کو دہشت گردی کی فہرست میں رکھاجاسکتاہے یانہیں ؟یہ ایک الگ بحث ہے ،جس کو ہندوستان میں شروع کرنا گویا قتل عام کے نئے باب واکرناہے ۔کیا ہریانہ میں ناصر اور جنید کو زندہ نذرآتش کرنے کا واقعہ دہشت گردی نہیں کہلائے گا؟کیا اخلاق کا بہیمانہ قتل اس دائرے میں نہیں آتا؟عتیق احمد اور اشرف کو سرعام گولی مارنا کیا دہشت پھیلانے کی کوشش نہیں تھی؟کیا بی جے پی ریاستوں کے’ بلڈوزر کلچر‘ کو اس زمرے میں نہیں رکھاجائےگا؟اور اس طرح کے ہزاروں واقعات جو اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے انجام دئیے جاتے ہیں کیا انہیں ریاستی دہشت گردی سے تعبیر کیاجاسکتاہے ؟
بہرائچ میں جو کچھ ہواوہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔مذہبی جلوسوں کے دوران اشتعال انگیز نعرے لگانا اور مسجدوں کے سامنے ہنگامہ آرائی کرکے اقلیتوں کو اُکسانا عام بات ہے ۔کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ انتظامیہ ان کے خلاف کارروائی کی جرأت نہیں رکھتی لیکن اگر اقلیتوں کی طرف سے مجبوراً جواب دیا گیاتو بی جے پی حکومت انہیں کچلنے کے لئے تیاربیٹھی ہے ۔ایسانہیں ہے کہ ایسے تمام واقعات لاشعوری طورپر معرض وجود میں آتے ہیں بلکہ ان کی پہلےسے منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔آخر مذہبی جلوسوں کے دوران اس طرح کے نعرے کیوں لگائے جاتے ہیں جس سے اقلیتوں کی اہانت یا انہیں اشتعال دلانا مقصود ہو ۔’ایودھیا تو لے چکے اب متھراکاشی کی باری ہے‘جیسے نعروں کا مقصد کیاہے؟ کیاایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ منصفانہ تھا؟ عدالتوں پر قبضہ کرکے اپنی مرضی کے فیصلے صادرکروالینا بہادری نہیں ہے ۔اسی طرح مذہبی نغموں میں مسلمانوں کو تیمور اور بابرکی نسلیں بتلاکر ان کے سینوں میں ترشول اتارنے کی باتیں کرنا آئین کے منافی نہیں ؟آخر تیمور اور بابر کو ہندوستان میں داخل ہی کیوں ہونے دیاگیا؟ کیا اُس وقت ہندوستان میں ہندوریاستیں قائم نہیں تھیں ؟یاپھر ہندوستان کے مسلمانوں نے تیمور اور بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی ؟ یاپھر ہندوستان کے موجودہ تمام مسلمان تیمور اور بابر کی نسل سے ہیں؟ان نعروں کا واحد مقصد ہندوستان کے امن کوبرباد کرنا ہے ،جس کی ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے ۔پولیس ان جلوسوں کے ساتھ ہوتی ہے مگر کبھی ان کی طرف سے ایسے غلیظ نعروں اور مذہبی نغموں پر اعتراض نہیں کیاگیا اور نہ کبھی پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہمت دکھلائی ۔خیر!ہمیں پولیس سے اس کی توقع بھی نہیں ہے کیونکہ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے شخص یتی نرسنگھانند کو ابھی تک پولیس گرفتارنہیں کرسکی تو ہم اس سےمزید کیا توقع کرسکتے ہیں ۔اس کےبرخلاف جن مسلمانوں نے یتی نرسنگھانند کی دریدہ دہنی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی پولیس نے ان پر مقدمے درج کئے اور گرفتاربھی کیا۔آیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتاکہ اب ہندوستان کا سیکولر کردار زندہ نہیں ہے ؟
بہرائچ سمیت ہندوستان میں جہاں بھی اس طرح کے فساد رونما ہوتے ہیں اس میں ہمیشہ انتظامیہ کا رویہ مشکوک رہاہے ۔کیونکہ موجودہ انتظامیہ میں جانب داری درآئی ہے اور وہ فقط ایک طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔اگر یہ انتظامیہ کا یہ رویہ اسی طرح جاری رہا تو ہندوستان میں امن کو شدید نقصان پہونچے گا۔اقلیتی طبقے کو دبانےاور کچلنے کے لئے شرپسندوں کو اس قدر چھوٹ دینا ملک کے مستقبل کے لئے خوش آئند نہیں ہے ۔کل یہی شرپسند حکومت اور انتظامیہ کے لئے مسائل پیداکریں گے اور عدم اتفاق کی صورت میں بدامنی جنم لے گی ۔یہی طبقہ سب سے پہلے حکومت اور انتظامیہ کے خلاف بغاوت کرے گا اور سماجی انتشار کوہوادے گا۔اس لئے بہترہوگاکہ حکومت کی طرز پر انتظامیہ جانب داری کا مظاہرہ نہ کرے ۔انتظامیہ عوام کے تحفظ کے لئے ہوتی ہے حکومت کی خدمت کے لئے نہیں !اگرہندوستان میں پولیس اور انتظامیہ کا رویہ جانب داری اور تعصب سے پاک ہوجائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ۔لیکن کیا یہ اب ممکن ہے ؟

تحریر: عادل فراز
7355488037
adilfarazlko@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے